Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی کھمبیوں کا کھیل

دیکھنا یہ ہے کہ  بدلتی صورتحال میں عمران خان کے پی کے پر ہی صبر کرینگے یا وزیراعظم  کے اپنے خواب کی تعبیر چاہیں گے

* * * *

سید شکیل احمد
 صدرایو ب خان کو مشرقی پاکستان کا بریگیڈ کمانڈر مقر ر کر تے ہو ئے ان کی تقرر ی نامہ پر قائد اعظم ؒنے  لکھا تھا کہ یہ سیا ست میں بہت دلچسپی رکھتا ہے اسلئے اس پر نظر رکھی جا ئے ، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ قائد اعظم فوج سمیت کسی سرکا ری ادارے یا افسر کو سیا سی امو ر میں دخل اندازی کے مخالف تھے۔ بعد  کے حالا ت نے ثابت کیا کہ گہر ی نظر رکھنے والے قائد کی سیا سی بصارت کتنی گہری تھی۔ اسی دلچسپی نے پاکستان کو برسو ں آئین نہیں دیا  تاہم موجودہ نسل شاید اس امر سے بے خبر ہے کہ پا کستان کے سیا ستدان 1956ء میں ایک ایسا آئین دینے میں کا میا ب ہو گئے تھے جو پا کستان کے وفاق کی ضمانت بھی تھا اور ایک مستحکم اور مضبوط جمہو ریت کا ضامن بھی تھا جس کے تحت  فروری 1959 ء میں عام انتخابات طے ہو گئے تھے ۔ اسی آئین نے بیو ر وکر یسی کے مضبوط ستو ن ا سکند ر مر زا کوگورنر جنرل سے صدر کے عہد ے پر فائز کر دیا ۔
     اسٹیبلشمنٹ کے مختارِ کل جنر ل ایو ب خان اور ان کے حواریو ں کو یہ جمہو ری آئین پسند نہ تھا کیو نکہ وہ حکمر انی کے زعم سے خا رج ہو کر اپنی بیرکوں میں اصل فرائض کی جانب لو ٹ جا تے چنانچہ دونوں  نے مل کر اس پارلیمانی جمہوری آئین کو ٹھکانے لگا نے کی ساز ش تیا ری کی اور پو ری منصوبہ بندی سے کام کر تے ہوئے سب سے پہلے سیا سی وفا داریا ں خرید نے کا با ز ار لگا یا جس کے ذریعے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی جگہ راتو ں رات ری پبلیکن پارٹی کھڑی کی گئی جس میں ایسے لو گو ں کو شامل کیا جن کی سیا سی وفاداری مسلم لیگ سے واجبی تھی۔ وہ اقتدار اور سورج کے پجا ری کے نا تے حالا ت کا رخ دیکھ کر اپنا راستہ تلا ش کر لیا کر تے تھے ۔
     اُس زمانے میں جبکہ اخبارت اور واحد الیکٹرانک میڈیا ’’ریڈیو ‘‘حکومت کے کنٹرول میں بری طر ح جکڑ ہو ئے تھے۔ اسکے علا وہ کوئی دوسر آزاد ا نہ ذریعہ عوام کے پا س معلو مات کا نہ تھا۔ اس وقت بھی عوام اتنے باشعور تھے کہ ایک رات میں وجو د میں لا ئی جانے والی ری پبلیکن پارٹی کو قبول نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ رہا کہ یہ انہی لو گو ں کا جمگھٹا ہے جو اس سے پہلے اپنے انگریز آقا  کی گو د میں پلے بڑھے اور تحریک پاکستان کی مخالفت کر تے رہے ۔گویا آج  جو سیا سی کھمبیا ں اگائی جا رہی ہیں یہ اُسی زمانے  کاچلن ہے کہ مقبول سیا سی قوت کو کمزور کر نے کیلئے نئے نقاب پو ش سیا سی چہر ے متعار ف کر ائے جا ئیں۔ گمنام عبد القدوس بزنجو اس کا پہلا تجر بہ تھا۔ اب کا م 2پہلوؤں سے نظر آرہا ہے ۔اول ایسے سیا سی گروپ قبولیت کی جا نب بھیجے جا رہے ہیں جو نا پسندید ہ سیا سی جما عتو ں کا تو ڑ بن جائیں یعنی ان کے ووٹ بینک کو کنگا ل کر نے میں کر دار ادا کر یں۔ دوم ما ضی کے نا کام تجر با ت سے یہ بھی حاصل ہو ا کہ نئی سیا سی جما عتو ں کو جنم دینے کے بدلے میں وہی سیا سی جما عتیں بلو غت کو پہنچ کر نا فرمان اولا د کا کردار اداکرنے لگتی ہیں۔
     ذوالفقار علی بھٹو جس کے نما ئند ے کی حیثیت سے ا سکند ر مر زا کی کابینہ میں شامل کئے گئے تھے، ا سکند ر مر زا کا سورج غروب ہو تے ہی وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے لا ڈ لے کی بنا ء پر ایو ب خان کے اقتدارکے گلد ستہ کا پھول قر ارپا ئے جیسے ا سکند ر مر زا اپنے محسن غلا م محمد کے نافرمان ہو ئے تھے اُسی طر ح ایو ب خان نے بھی ا سکند ر مر زا سے نا فرما نی کی۔ پھر ایو ب خان کے ساتھ بھی وہی ہا تھ ہو اکہ ان کا سیاسی بیٹا بھٹو بھی نا فرما ن بن گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ پا کستان میں اقتدار کے کھیل میں وفاداریا ں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر وفاداریا ں گلے بھی پڑ جاتی ہیں۔نو از شریف کا سیا سی جنم بھی ایسی ہی وفاداری سے مر قع تھا ۔ما ضی کی تا ریخ پر وہ نظر نہیں دوڑا تے  اور پو چھتے ہیں کہ ان کو کیو ں نکالا گیا حالانکہ یہ سید ھی سی با ت ہے کہ وہ اس زعم میں آگئے کہ وہ اصل طا قت یعنی عوام کے ووٹوں کے تمغے سجا ئے ہو ئے ہیں مگر وہی نادیدہ قوت جو غلا م محمد سے لیکر جنرل ضیا ء الحق کے دور تک بلکہ خود ان کے دور تک خو د کو پا کستان کے وارثین قرا ر دیتی ہیں وہ کسی نا فرما نی کو برداشت یا قبول نہیں کیا کرتے ۔
                    اب  نوازشریف پوچھ رہے ہیں کہ عمر ان خان کو کیسے معلو م کہ اڈیا لہ جیل کی صفائی نواز شریف کیلئے کی جا رہی ہے۔سیا ست دان وہ ہو تا  ہے جس کی بصارت مستقبل کے حالا ت پر دور تک ہوتی ہے۔ سیاست دان تو ما ضی کی بات نہیں کر تے اورنہ حال کے بارے میں شاہد ہو تے ہیں ۔ اگر عمر ان خا ن کو پتہ نہیں ہو گا تو پھر کس کو پتہ ہو گا ۔عمران خا ن کو تو یہ بھی پتہ تھا کہ ان کو صادق  و امین کو تمغہ بھی لگ جائیگا اسی لئے تو انھو ں نے اپنے اے ٹی ایم پر صادق وامین نہ ہو نے کی پرچی قبول کر لی۔ انھیں معلو م تھا کہ سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے فیصلے میں انکی پا رٹ کا حصہ نہیں چنا نچہ ان کو حصہ دار کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا اور یہ جانتے ہو ئے بھی کہ قائد حزب اختلا ف کیلئے انکے پا س مطلو بہ ووٹ نہیں پھر بھی وہ مید ان میں ڈٹ گئے کہ شاید آخری وقت میں ا ن کی سنی جا ئے ۔
              اب کیا ہو نے جا رہا ہے اس بارے میں عوام کو آگا ہ کرنے کی ڈیو ٹی عمر ان خان اور لا ل حویلی کے لا لو شیخ جی کی لگی ہو ئی ہے۔ شیخ جی کیلئے یہی کا فی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے غیر سرکا ری ٹکٹ پر انتخا بات میں حصہ لیں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل شیخ جی راولپنڈی کی2 نشستوں سے پر ویز مشرف کے دور میں کھڑے ہو ئے تھے۔ قوم سے وعد ہ کیا تھا کہ وہ جیت کر یہ دونو ں نشستیں نو از شریف کی جھولی میں ڈال دیں گے مگر اس مر تبہ ان کا کوئی ایسا نہ تو’’ سچا‘‘ اور نہ نو از شریف سے کئے جا نے والے طرز کا وعدہ ہے کیونکہ وہ چال سمجھ گئے ہیں کہ جس طرح بلوچستان سے آزاد گروپ کا سلسلہ شروع ہو اہے اور اب مسلم لیگ (ن) کے حلقے میں بھی جنم لے چکا ہے، آگے چل کر اس امر کا امکا ن قوی ہو تا نظر آرہا ہے کہ آئند ہ ملک کا وزیر اعظم شاید عبدالقدوس بزنجو جیسا ہی یا انکا پرچھا وا ں ہی ملک کا وزیر اعظم قرار پائے کیونکہ تیزی کے ساتھ سیا سی کھمبیو ں کی کا شت اور آبیا ری شر وع ہو گئی ہے۔
    لا ہو ر کی ایک تقریب میں عبدالقدوس بزنجو نے حالا ت کے رخ سے پر دہ بہت پیا رے اندا زمیں کھینچ پھینکا ہے۔ انھو ں نے مشرف دور کے ایک نیم مر د آہن چوہدری شجا عت حسین کی کتا ب’’ سچ تو یہ ہے کہ‘‘ کی تقریب رونما ئی  میں فرمایا ہے کہ وہ کل کی طرح آج بھی اور آئندہ بھی چوہدر ی شجاعت کے ہی وفادار رہیں گے۔ یہ وفاداری بھی ویسی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر منتخب ہو ئے مسلم لیگ (ن) کے ارکا ن کو باغی کیا اورآزاد گروپ بنا کراور سینیٹ کے آزاد ممبر منتخب کر ادیئے۔ ان کو ذرابھر خیال نہیں آیا کہ اپنی پا رٹی کے ممبر کو سینیٹر بنا کر پا رٹی کہ پو زیشن مضبو ط کر تے ۔پھر یہی نہیں  چیئر مین شپ بھی آزاد کے ہا تھ میں پکڑ ادی ،ساتھ ہی پی پی کو نواز دیا کیو نکہ حکم ہی یہ تھا  ۔یہ بھی عجیب چوہدری شجا عت سے وفا داری ہے کہ پھر نئی وجو د میں آنے والی پارٹی میں شامل بھی ہوگئے۔ اپنی ٹکٹ یا فتہ پا رٹی بھی نہ چھوڑی۔ بہر حال دیکھنا ہے کہ عمر ان خان کے پی کے پر صبر کریں گے یا اپنے وزیر اعظم کے خواب کی تعبیر ہی چاہیں گے ۔
 
مزید پڑھیں:- - - -عمران خان کی سیاسی چمتکاری

شیئر: