Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عقائد کے بجائے خوبیوں پر مکالمہ

عبداللہ فدعق ۔ الوطن
اغیار کی تہذیبوں اور مذاہب عالم پر مکالمہ انتہائی نزاکت والا معاملہ ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے مکالمے کا کوئی حدود اربع نہیں ہوتا۔بعض اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اغیار کیساتھ مکالمے اور دنیا بھر کی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے چوپٹ کھلے ہوتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ عقائد کے موضوع پر مکالمہ مناسب نہیں لگتا۔ مکالمے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم سے مکالمہ کرے تو اسے مسلمان ہی بنالے یا اس پر فتح یاب ہوجائے۔ قرآن کریم نے جو پیغمبر اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ہے عقائد کے انتہائی اہم موضوع کو نہیں چھیڑا۔ میری مراد خدا کی خدائی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کسی کو بھی اپنی خدائی کے عقیدے کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ دوسروں کو حکم دیا کہ اگر کوئی اللہ کی الہویت کا قائل نہیں تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ ارشاد خداوندی کا مفہو م ہے کہ ”دین کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہدایت اور گمراہی کا فرق نمایاں ہوچکا ہے۔ جو شخص بھی طاغوت کا منکر ہوگا اور اللہ پر ایمان لائیگا وہ مضبوط رسی سے جڑ جائیگا“۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقائد کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا اختیار ایک اور آیت کریمہ میں یہ کہہ کر دیا ہے ۔ مفہوم دیکھیں”اور کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق آچکا ہے لہذا جو چاہے وہ ایمان لائے اور جو چاہے حق کا انکار کرے۔ ہم نے حد سے تجاوز کرنےوالوں کیلئے عذاب تیار کرلیا ہے“۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اغیار کیساتھ مکالمے کا باب کھولنے کی بابت ہم کسی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم مختلف فریقو ںکے ساتھ بحث مباحثے کے در بند کرنے کے حق میں ہیں۔ میرا ماننا اور کہنا بس اتنا ہے کہ اور بھی بہت سارے گوشے اور پہلو ہیں جن پر گفت و شنید ہوسکتی ہے۔ ایسے کئی امو رہیں جن پر تمام مذاہب متفق ہیں۔ وہ گفت و شنید کا موضوع بن سکتے ہیں۔
تمام آسمانی مذاہب کے لانے والے اللہ کے پیغمبر ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر صلاة و سلام نازل فرمائے۔ تمام آسمانی مذاہب بندگان خدا کی صلاح و فلاح کیلئے ہی نازل کئے گئے۔ ان کا ہدف لوگوں میں اچھائیوں کو رائج کرنا تھا۔ سب لوگ آسمانی مذاہب کے مشترکہ امو رپر بحث کرسکتے ہیں۔ مشترکہ بنیادیں استوار کرسکتے ہیں۔ ایسا کرکے ہم اقوام عالم کے درمیان امن و امان کی راہ ہموار کرسکیں گے۔ پرامن بقائے باہم کی سبیل پیدا کرسکیں گے۔ مختلف قسم کی کشمکشوں کا خاتمہ کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ راہ یہ کہہ کر سجھائی ہے ”ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری عداوت ہوگئی تھی مودت کا رشتہ پیدا کردے اور اللہ تعالیٰ بڑا قادر اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے باقی ماندہ حصے میں اہل اسلام پر یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے تم پر ظلم نہ کیا ہو۔ تمہیں گھر سے بے گھر نہ کیا ہو انکے ساتھ بھلائی اور محبت کا رشتہ استوار کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
یہ آیت کریمہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اس سوال کا جواب دیتی ہے۔ اگر ملازمت یا سماج میں ہمارا کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑے جو دین کا پابند نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسکا رویہ درست نہ ہو۔ ایسے انسان کےساتھ تواضع ، انکساری اور حسن سلوک سے پیش آکر راہ حق پر لایا جاسکتا ہے۔
میں اپنا یہ مضمون امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے اس قصے پر ختم کرناچاہوںگا جس میں بتایا گیا ہے کہ کوفہ میں انکا ایک پڑوسی تھا ۔ گانے بجانے کا شوقین تھا جب بھی پیتا تو اونچی آواز میں گانا ضرور گاتا۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اسے سنتے اوراس کے گانے بجانے پر صبر کرتے۔ ایک مرتبہ اس نے گاتے ہوئے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم تھا کہ ان لوگوں نے مجھے ضائع کردیا اور کیسے نوجوان کو ضائع کیا۔ امام ابو حنیفہ نے اگلے روز اس سے ملاقات کی ۔ اسکا حال دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ اسے کوتوال شہر گرفتار کرکے لے گیا ہے۔ ابو حنیفہ کوتوال کے پاس پہنچے اور نہ صرف یہ کہ اپنے اس ہمسائے بلکہ اس کے دیگر رفقاءکو بھی رہا کرالیا۔ انہوں نے رہائی کے بعد اپنے پڑوسی سے دریافت کیا کہ کیا ہم نے تمہیں ضائع کردیا۔ یہ سن کر وہ شرما گیا اور پھر ایک عظیم صالح شخصیت میں تبدیل ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: