امریکی خلائی مشن ناسا اور انڈیا نے زمین میں ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگانے کے لیے مشترکہ طور پر سیٹلائٹ کامیابی سے لانچ کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 1.3 ارب ڈالر لاگت کے اس مشن کے ذریعے سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ، آتش فشاں کے پھٹنے اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگوئی میں مدد ملے گی۔
انڈیا سے لانچ ہونے والی سیٹلائٹ کرہ ارض کے تمام خدو خال کا متعدد بار جائزہ لے گی۔ اس کے دو ریڈار، ایک امریکہ اور ایک انڈیا سے، دن رات آپریٹ کریں گے اور تفصیلی ڈیٹا اکھٹا کریں گے۔
مزید پڑھیں
انڈین وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی جتندر سنگھ نے سیٹلائٹ کے باحفاظت مدار میں پہنچے پر قوم کو مبارکباد دی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پیغام میں لکھا، مشن سے دنیا بھر کی کمیونٹی مستفید ہو گی۔
اس موقع پر ناسا کے نائب ایڈمنسٹریٹر کیسی سویلز نے کہا کہ ’مشن نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ہماری دو قومیں کیا کر سکتی ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ یہ کہ تعلقات کے فروغ کے لیے یہ پہلا تجربہ ہے۔‘
اس مشن کے تحت سائنسی آپریشن کا آغاز اکتوبر کے آخر میں ہو سکے گا۔ سیٹلائٹ سے گلیشیئر اور قطب جنوبی میں برف کی چادروں کے پگھلنے کے علاوہ زیرِ زمین پانی کے شفٹ ہونے، زمین کی حرکت سے لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلوں کے آنے اور جنگلات کی تباہی سے کاربن ڈائیکسائیڈ و میتھین کے اخراج کا اندازہ لگایا جائے گا۔
ناسا کے سائنس مشن کی چیف نکی فوکس نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیٹلائٹ ہے جو زمین کا مطالعہ کرنے کے طریقے کو بدل دے گا اور قدرتی آفت کے آنے سے پہلے اس کی بہتر پیش گوئی کرے گا۔
ناسا نے اس تین سالہ مشن میں 1.2 ارب ڈالر کی فنڈنگ کی ہے جبکہ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کی 91 ملین ڈالر کی فنڈنگ ہے جس میں اعلٰی فریکوینسی والے ریڈار اور مرکزی سیٹلائٹ کے ڈھانچے سمیت خلیج بنگال کے جزیرے سے سیٹ لائٹ کی لانچ بھی شامل ہے۔ امریکہ اور انڈیا کے درمیان یہ سب سے بڑا خلائی تعاون ہے۔