بلوچستان حکومت نے کوئٹہ کے قریب پہاڑی علاقے ڈیگاری میں خاتون اور مرد کے غیرت کے نام پر قتل کے واقعے کو ’ٹیسٹ کیس‘ قرار دیتے ہوئے اس پر کارروائی کی اور قبائلی سردار سمیت دس سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس موقع پر کہا تھا کہ حکومت ایسے واقعات کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔
تاہم ڈیگاری واقعے کے محض دو ہفتوں کے اندر کوئٹہ اور مستونگ میں اسی نوعیت کے مزید دو واقعات پیش آچکے ہیں جن میں نو ماہ کی حاملہ خاتون سمیت چار افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا مگر ان واقعات پر نہ حکومت نے کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی پولیس یا لیویز کی جانب سے کوئی سنجیدہ کارروائی دیکھنے میں آئی۔
مزید پڑھیں
مستونگ میں گزشتہ روز ایک جوڑے کو ان کے کمسن بچوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔
لیویز کے مطابق کوئٹہ کی رہائشی بے نظیر نے چند سال قبل اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف پنجگور کے رہائشی محمد شعیب سے پسند کی شادی کی تھی۔
مقتول شعیب کے والد محمد انور کے مطابق جوڑے کے تین بچے تھے جن میں آٹھ سالہ بیٹی اور چھ اور تین سال کے دو بیٹے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بے نظیر کے والد اور بھائی پسند کی شادی کے بعد ناراض تھے لیکن چھ ماہ قبل اس کا ایک بھائی ان کے گھر آنے جانے لگا۔ ایک موقع پر بے نظیر اپنی ساس کے ہمراہ بھائی کے گھر بھی گئی۔
چند دن قبل اسی بھائی نے بہانے سے انہیں کوئٹہ بلایا اور پھر دونوں میاں بیوی کو ان کے بچوں کے سامنے قتل کر دیا۔
اس واقعے کو دو دن گزر چکے ہیں مگر مستونگ لیویز تاحال نامزد ملزمان کے گھروں کا سراغ لگانے تک میں ناکام ہے۔
متعلقہ لیویز تھانے کے ایس ایچ او پیر جان علیزئی کا کہنا ہے کہ مقتول شعیب کے رشتہ داروں کو پنجگور سے بلایا گیا ہے تاکہ تفتیش میں مدد لی جا سکے۔

واقعات سفاک تھے لیکن ویڈیو نہیں بنی تو رپورٹ نہیں ہوئے
سماجی کارکن اور وکیل جلیلہ حیدر کا کہنا ہے کہ ڈیگاری واقعے پر حکومت نے صرف اس لیے ردعمل دیا کیونکہ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس سے عوامی دباؤ پیدا ہوا۔
ان کے مطابق ’بدقسمتی سے یہاں صرف ان واقعات پر بات کی جاتی ہے جو سوشل ٹرینڈز بنے اور مسلسل ہونے والے اسی طرح کے دیگر واقعات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘
جلیلہ حیدر کا کہنا ہے کہ ’دیگر واقعات بھی اسی نوعیت کے اور انتہائی سفاک تھے لیکن چونکہ ان کی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی اس لیے اس پر خاموشی رہی۔ اگر ڈیگاری کی ویڈیو بھی نہ بنی ہوتی تو شاید وہ کیس بھی دب جاتا۔‘
قبائلی اور سماجی دباؤ، کیسز کے رپورٹ ہونے میں بڑی رکاوٹ
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق صرف 2024 میں بلوچستان میں غیرت کے نام پر 33 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔
تنظیم کے ریجنل ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی کے مطابق رواں سال کے صرف سات ماہ میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد گزشتہ سال کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو چکی ہے۔
علاؤ الدین خلجی کے مطابق ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے کیونکہ متاثرہ خاندان قبائلی اور سماجی دباؤ کے باعث خاموش رہتے ہیں۔
’اکثر ہمیں مختلف ذرائع سے ایسے واقعات کی اطلاعات ملتی ہیں جنہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا ہم پولیس، انسانی حقوق کمیشن اور متعلقہ اداروں تک اس کی اطلاع پہنچاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر ایسے واقعے میں ایف آئی آر درج کر کے فوری گرفتاری، شفاف تفتیش اور مقدمے کی سنجیدہ پیروی کو یقینی بنانا چاہیے۔
علاؤالدین خلجی نے شکایت کی کہ پولیس بعض اوقات غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں عام قتل کی دفعات لگا دیتی ہے جس سے ملزم کو عدالت سے باہر صلح کا موقع مل جاتا ہے جبکہ 2016 میں منظور ہونے والے قانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ناقابلِ معافی جرم ہے اور مقتول کے ورثا بھی قاتل کو معاف نہیں کر سکتے۔
جلیلہ حیدر کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے ڈیگاری واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈیٹرنس کے قیام کے لیے اقدامات کیے اور گرفتاریاں کیں اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عدالت میں اس کیس کو کیسے لے کر چلتی ہے-

’قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم قرار دینا ہوگا‘
سابق آئی جی پولیس کلیم امام نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 2016 کی فوجداری ترمیم کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ صلح جرم قرار دیا گیا تاکہ خاندان قاتل کو معاف نہ کر سکے لیکن عملی طور پر قانونی سقم اور پولیس پر سماجی دباؤ اس قانون کی افادیت کو محدود کر دیتے ہیں۔
ان کے بقول اگر ریاست واقعی اس ظلم کا خاتمہ چاہتی ہے تو صرف علامتی قانون سازی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے غیرت کے نام پر ہر قتل کو مکمل طور پر ناقابل راضی نامہ جرم قرار دینا ہوگا کیوں کہ قتل پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
سید کلیم امام کے مطابق گواہوں کو مکمل تحفظ دینا ہوگا۔ عدالتیں اور استغاثہ ہر کیس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھیں، نہ کہ ثقافتی تنازع کے طور پر۔ جرگے جیسے غیر رسمی نظام عدل کوآئین اور قانون کے خلاف فیصلے کرنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔
کوئٹہ پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے اکثر مقدمات میں ثبوت، گواہوں اور متاثرہ خاندان کے عدم تعاون کی وجہ سے تفتیش آگے نہیں بڑھتی۔
انہوں نے بتایا کہ جون میں ضلع کچھی اور کوئٹہ میں دو الگ الگ قتل ہوئے جنہیں با اثر شخص کے محافظ نے سیاہ کاری کے نام پر انجام دیا۔ دونوں واقعات کی ایک دوسری سے کڑیاں ملتی ہیں۔
مچھ میں مقتولہ کے والد نے داماد کے خلاف مقدمہ درج کرایا لیکن کوئٹہ میں مقتول شخص کے اہلخانہ نے کسی کو نامزد ہی نہیں کیا جس پر کیس تفتیش کے بغیر ہی سردخانے کی نذر ہو گیا۔
خیال رہے کہ ڈیگاری کیس میں بھی مقتولین کے خاندانوں نے مدعی بننے سے انکار کیا جس پر پولیس نے خود مقدمہ درج کیا۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں جب تک ریاست خود مدعی نہ بنے اور کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر سنجیدہ تفتیش نہ کرے بہتری ممکن نہیں۔
علاؤالدین خلجی کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کی آڑ میں اکثر جائیداد، لین دین، ازدواجی تنازعات جیسے معاملات چھپے ہوتے ہیں۔
