Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علم طلب کرو ، سعودی عرب میں ہی کیوں نہ ہو

خالد السلیمان ۔ عکاظ
کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (کاﺅسٹ )کے دورے کے موقع پر مجھے جنرل ڈائننگ ہال میں سعودی اور غیر ملکی طلباءوطالبات اور اسکالرز کے ساتھ کھانے پینے کا موقع ملا۔ غیر ملکیوں کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ ان میں امریکہ، اسپین، برازیل اور برطانیہ وغیرہ ممالک کے طلباءو اسکالرز بھی شامل تھے۔ میں نے طلباءاور اسکالرز سے لیباریٹریوں میں ملاقات کے موقع پر ایک ہی سوال کیا۔ سوال یہ تھا کہ آپ کو کیا چیز سعودی عرب میں حصول علم کیلئے کھینچ کر لے آئی؟ 
جواب یہ تھا کہ کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی انہیں ریسرچ کیلئے مطلوب تمام وسائل فراہم کررہی ہے۔ اس یونیورسٹی نے انکے لئے زمان و مکان کی طنابیں کھینچ کر رکھ دی ہیں۔ ایک امریکی اسکالرنے بتایا کہ اسے اپنی ریسرچ پر تجربے کا نتیجہ حاصل کرنے کیلئے امریکہ کی 3ریاستوں کی لیباریٹریوں کے چکر لگانا پڑے۔ کاﺅسٹ نے ان تینوں لیباریٹریوں کو ایک سائبان تلے اکٹھا کررکھا ہے۔
کنگ عبداللہ یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری اسکالرز کیلئے منفرد نوعیت کی لائبریری ہے۔ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی غیر معمولی ہے۔ یہاں میری ملاقات چند سعودی نوجوانوں سے ہوئی جو نہ صرف یہ کہ علم حاصل کررہے تھے بلکہ ایک طرح سے مستقبل کے صفحات پر اپنے منصوبے رقم کررہے تھے۔ وہ وطن عزیز کے ابھرتے ہوئے سورج کےلئے کام کررہے تھے۔ یہ آنے والے کل کے تقاضے پورے کرنے کیلئے مصروفِ عمل تھے۔ جس پہلو نے میری توجہ اپنی جانب خاص طور پر مبذول کرائی وہ یہ تھی کہ سعودی طالبات اور طلباءنے ریسرچ کےلئے جن موضوعات کا انتخاب کیا وہ دقیق بھی تھے، نادر بھی تھے اور منفرد بھی۔ انکا تعلق شمسی توانائی اور کھارے پانی کو میٹھا بنانےوالی ٹیکنالوجی سے تھا۔
کاﺅسٹ کے سعودی طلباءو طالبات اور اسکالرز سے مل کر نہ صرف یہ کہ مجھے دلی خوشی ہوئی بلکہ میرے اندر فخر کا احساس بھی جاگا۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ جب یہ سعودی اسکالر عملی زندگی کا آغاز کرینگے تو ان سے یہ ضرور پوچھا جائیگا کہ آپ لوگوں نے تعلیم کہاں حاصل کی ہے؟ انکا جواب واقعی سربلندی کا باعث بنے گا۔ وہ بلاشبہ یہی کہیں گے کہ ہم نے سعودی عرب کی منفرد یونیورسٹی کنگ عبداللہ سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: