Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے کنار دریا طوفان نہ بن جائے؟

سید شکیل احمد
             پاکستان میں انتخابات کی گہما گمی نہیں ہوتی بلکہ افراتفری ہو ا کرتی ہے۔ عوام یہ افراتفری خا ص طور پر 1970ء کے انتخاب سے دیکھتے آرہے ہیں ان انتخابات  میں عوام کی رائے کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس کا درد اب تک پا کستانیو ں کے دلو ں میں کانٹا بن کر ایسا پھنسا ہے جو کبھی نہیں نکل سکتا۔ اس کے بعد جتنے بھی انتخابا ت ہوئے اس میں ایک ہی طر ز کی بات نظر آئی کہ عوامی مینڈیٹ کو مختلف حیلے بہا نے سے روند ا گیا ہے۔آج پاکستان جس نہج پر پہنچا ہے یہ اسی مینڈیٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ ہے ۔
     پاکستانی سیا ست دانو ں میں ایک ہی بات دیکھنے میںآئی ہے کہ ان سب کو اقتدار کا ہو کا ہے جس کیلئے حصول کیلئے نہ صر ف چلبلا تے ہیں ۔ بلبلا تے ہیں بلکہ ہر نہ کر نے والا عمل بھی کر جا تے ہیں حتی کہ  غیر جمہو ری قوتو ں کے ساتھ ساز با ز کر تے ہیں جس میں نہ تو ان کو قومی مفادات کا اور نہ ملک کے استحکا م کا احترام کر تے ہیں۔ بہر حا ل اس وقت پا کستان میں جو سیا سی یا غیر سیا سی حالا ت ہیں اس میں کئی خطرات بھی امڈ چکے ہیں سیا ست اور دین کے نا م پر نئے فتنے پیدا ہو گئے ہیں۔ اس خطر ناک رحجا ن کے باوجود انتظامی مشینر ی کو دانستہ یا نا دانستہ مفلو ج کیا جا رہا ہے جس کے مستبقل پر انتہا ئی برے اثرات پڑ سکتے ہیں ایسے فتنو ں میں سے ایک فتنے نے فیصل آباد میں مذہب کی آڑ میں جنم لیا ہے جس کے بانی نے اپنے افکا ر میں ایسی باتیں کی ہیںکہ وہ کفر سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ایسے میں ایک مرد مجا ہد علا مہ مبشر رضا قادری اٹھ کھڑ ے ہو ئے ہیں۔ انھو ں نے اس کفرکو علمی بنیا د پر للکا ر ا ہے لیکن کوئی ادار ہ اس جانب متوجہ نہیں ہے اور نہ کوئی ازخود اس اہم ترین مسلئے کا نو ٹس لے رہا ہے ۔
    اسکے ساتھ ہی ایک اور فتنہ بھی ابھر ا ہے جو خود کو سیا سی جد وجہد سے وابستہ قرا ر دے رہا ہے۔ لیکن اب تک جو خد وخال اس فتنے کے ابھر ے ہیں۔اس سے یہ یقین ہو تا جا رہا ہے کہ پا کستان میں ایک اور بنگلہ دیش کو جنم دینے کی مساعی ہے وہ پشتون تحفظ تحریک ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک تحریک نے اپنی شنا خت مہا جر قومی مو ومنٹ سے کر ائی تھی تاہم وہ اب جس شکل میں ہے ایسا لگتا ہے کہ اپنے انجا م کو پہنچ رہی ہے ۔
          پا کستان کے سیا سی حالا ت کو مد نظر رکھا جا ئے تو بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیا م پاکستان کے بعد سے اس ملک کی غیر جمہو ری قوتو ں نے پا کستان کو اپنی مٹھی میں دبو چنے کے لیے جہا ں تحریک پا کستان کی قیا دت کو کھڈ ے لائن لگا نے کی سعی کی وہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سیا ست کی آڑ میں مفاد پر ستو ں کو اوج سیا ست پر پہنچا نے کی سعی منظم طور پر کی۔ بلو چستان حالیہ مثال ہے جہا ں ایک ایسی سازش روبہ عمل لا ئی گئی جس کے بارے میں کوئی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ سب کچھ غیر آئینی یا غیر قانو نی ہو ا ہے۔ بہر حال سیا ست کی ہی اس لیے جا تی ہے کہ اقتدار کا حصول ہو جو بری بات نہیں مگر سیا ست کی چو سر اس انداز میں نہیں سجا نی چاہیے کہ ملک کو درپیش خطرا ت سے خواب غفلت میں خود کو ڈال دیا جا ئے۔ یہ ایک انتہائی خطر ناک خبر ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے جلسے میں پاکستان کی محبت سے سرشار کو قومی جھنڈا لہر انے سے نہ صر ف روکا گیا بلکہ اس کو دھکے دے کر جلسہ گا ہ سے نکا ل دیا گیا۔ یہ امر خطرناک ہے اور یہ وہ رحجا ن دیکھا رہا ہے کہ جو بنگلہ دیش کی تحریک کا سبب تھا ۔
     پاکستان کو اس وقت ہر قدم پر یکجہتی کی ضرورت ہے چاہے وہ سیا سی ہے یا دفاعی یا معاشی۔ پشتون تحفظ تحریک کے جنم نے ما ضی کی تحریک پختونستا ن کی یا د دلا دی ہے۔ پختونستان یا پستونستا ن ہم معنی لفظ ہیں ۔ پختو نستان کی تحریک کے دو رنگ تھے۔ ایک پاکستان کے اندر تھا اور یہ یہا ں سیا سی انداز اختیا ر کیے ہو ئے تھے۔ اس تحریک کے سرپر ست باچا خان اور ان کی جماعت تھی جس کا موقف تھا کہ وہ صوبائی خود مختاری چا ہتے ہیں کیونکہ وسائل پر پنجا ب قابض ہے ، اگر چہ صوبائی خود مختاری کوئی غلط مطالبہ نہیں تھا مگر اس کے حصول کیلئے ملک کے ایک صوبے کے خلا ف نفرت کو ابھارنے کے عمل کو درست قر ار نہیںدیا جا سکتا تھا ۔بہر حال باچا خان اور ان کے پیر و کا رو ں کا یہ مطالبہ افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد سے سر د تر ہو گیا اور افغانستان میں پختونستان کی جو تحریک حکومتی سرپر ستی میں چل رہی تھی۔ وہ بھی اس مداخلت کے بعد دم تو ڑ گئی۔ علا وہ ازیں آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد اے این پی کا مطا لبہ بھی پورا ہو گیا اور اس ترمیم کے ذریعے سیا سی حل تلا ش کر لیا گیا جو بہت ہی خوش آئند ہے ۔
             جہا ں تک افغانستان کا تعلق ہے۔ وہ پا کستان کے وجو د میں آنے سے ہنو ز پا کستان کے خلا ف وربہ عمل ہے۔ اس سلسلے میںہند اور دوسری قوتو ں کا آلہ کا ر بھی بنا رہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی کر دار ادا کر رہا ہے ۔47ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی ۔ اسی سال پا کستان سے قبائلی علا قوں سے دستبر دار ہو نے کا مطالبہ کیا۔ ڈیو رنڈلا ئن کا مسلئہ کھڑ اکر نے کی سعی کی۔پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بننے کی قر ار داد کے خلا ف افغانستان واحد ملک تھا جس نے ووٹ دیا جبکہ ہند اور روس نے حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اسی سال پر نس عبدالکر یم بلوچ کی قیادت میں پا کستان کے خلا ف دہشت گردی کا تربیتی کیمپ قائم کیا 49ء میں لو ے جر گہ کا ڈھونگ رچا کر پاکستان پاکستان کے وجو د سے انکا ر کیا گیا۔ اسی سال ایک افغان مر زا علی خان کے ذریعے پاکستان میں تخریبی کا رروائیاں شروع کیں ِ، اسی سال چمن پر اپنی ملیشیا اور فورسز کے ساتھ حملہ کیا 50ء ہند کے ساتھ ایک نکا تی معاہد ہ کیا جس کا مقصد پاکستان کا گھیر اؤ کر نا تھا ۔ پا کستان کی سرحد پر کھمبے گا ڑھ کر ان پر لا ؤڈ اسپیکر نصب کر کے پا کستان کے خلا ف ہرزہ سرائی کی جا تی تھی۔ 60ء شیر محمد مر ی کی پا کستان کے خلا ف تحریک میں مد د کی 80ء میں دہشت گر د تنظیم الذوالفقار کے تربیتی کیمپ قائم کئے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تک افغانستان کی حکومت پا کستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملو ث ہے اور ملا فضل کو بھی پنا ہ دے رکھی ہے جو مبینہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی میں پو ری طر ح ملو ث ہے ، اگر کوئی یہ نشاند ہی کر تا ہے کہ منظور پشتو ن کو افغانستان جیسی قوت کی سرپر ستی حاصل ہے تو اس کو یک لخت رد نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ منظور پشتون کی تحر یک پاکستان کے خلا ف اسی طر ح کی نفر ت کو جنم دینے کی سعی کر رہی ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان میں پا کستان کے خلا ف کیا گیا اور وہا ں بھارت کو مفا د تھا یہا ں افغانستان کو مفاد مل رہا ہے۔ پشاور میں منظور پشتون نے جو جلسہ کیا۔ اس کے بارے میں اطلا ع ہے کہ اس پر15 لاکھ سے 20 لا کھ کا خرچہ اٹھا کیا۔ اس تحریک کے پا س اتنا فنڈ ہے کہ وہ لاکھو ں خر چ کر کے جگہ جگہ جلسے کررہی ۔صاف ظاہر ہے کہ کوئی تو ہے جو اس تنظیم کا خر چہ چلا رہا ہے ۔ ان حالا ت کا ادراک نہ صر ف پاکستان کے سیا ست دانو ں کو کر نا چاہیے بلکہ دیگر قوتو ں کو بھی ادراک ہو نا چاہیے ۔یہ بے کنا ر دریا طو فان نہ بن جا ئے ۔
مزید پڑھیں:- - - -مغرب اور مشرق کا آئینہ اور شکلیں

شیئر:

متعلقہ خبریں