Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ کا مستقبل

مسلم لیگ کو بحران سے نکالنے کیلئے مخلص قائدین کو آگے لانا ہوگا
  
خلیل احمد نینی تال والا
 
مغل بادشاہ شاہ جہاں کو جب اسکے بیٹے عالمگیر نے فضول خرچیوں اور کمزور حکومتی اقدامات پر معزول کرکے شاہی قید خانے میں رکھا تو داروغۂ زندان نے معزول بادشاہ سے پوچھا کہ جیل میں آپ کیا کھانا پسند کرینگے اور آپ کے مشاغل کیا ہونگے ۔شاہ جہاں نے کہا کہ مجھے کھانے میں چنے اور مشاغل کیلئے میںبچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں ۔داروغہ کے سمجھ میں نہیں آیاـ اس نے آکر اورنگ زیب عالمگیر کو بتا یا تو اُس نے کہا کہ جیل میں بھی بادشاہی کی خو نہیں گئی یعنی اناجوں کا بادشاہ چنا ہوتا ہے جو سو طریقہ سے پکایا اور کھایا جاسکتا ہے اور پڑھانے سے مراد اُستادکی حاکمیت سے ہے کیونکہ اُستاد ہمیشہ حکم دیتا ہے جو بادشاہوں کا وتیرہ ہے ۔
    میرے خیال میں معزول وزیراعظم نواز شریف نے بھی جب جیل گئے تھے تو اپنے آپ کو مسلم لیگ کی صدارت سے ایک لمحہ بھی دُور رہنے کی بجائے اپنی چوہدراہت قائم رکھی تھی ۔اتنی طویل سزا سننے کی بعد بھی کسی کو بھی قائم مقام صدر نہیں بنایا تھا اور اب بھی جب اُن کو معزول کیا گیا تو تب بھی انہوں نے اپنی صدارت برقرار رکھی مگر بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اُن کو اس سے بھی محروم کردیا ۔اب وہ مسلم لیگ کے صدر نہیںہیں مگر اب بھی وہ اپنی چوہدراہٹ قائم کئے ہوئے ہیں لیکن مجبوراً اُن کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا عہدہ اپنے بھائی شہباز شریف کو دینا پڑا حالانکہ اُن کی کوشش تھی کہ یہ عہدہ اپنی بیٹی مریم نواز کو دے دیں مگر مجبوراً اُن کو ایسا کرنا پڑا ۔
    جو سربراہ خود اپنی پارٹی میں جمہوری عمل سے روگردانی کرے اس کوملک میں جمہوریت کا گلا گھوٹنے کا الزام لگانا کچھ زیب نہیں دیتا۔یہاں میں شہباز شریف کے اس مشورے کا نہ صرف زبردست حامی ہوں بلکہ داد بھی دیتا ہوں کہ انہوں نے فوج سے محاذآرائی اور کشیدگی کم کرنے کیلئے صحیح مشورہ دیا ۔ساتھ ساتھ عدالتوں سے بھی نہ لڑنے جھگڑنے کا مشورہ دیا ۔میاں صاحب کے اپنے بیانیے پر عمل کرنے سے آہستہ آہستہ اُن کے ایم این اے اور ایم پی اے مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہورہے ہیں ۔ اب یہ کہہ رہے ہیںکہ وہ جیل جانے کیلئے تیار ہیں ۔ اس سے زیادہ ہنسی کی بات یہ کہی کہ اب پارٹی کارکن قربانی دینے کیلئے تیار ہوجائیں ۔گویا اقتدار کے مزے میاں صاحب کی فیملی اور ان کے چہیتے اُڑائیں اور قربانی بے چارے کارکن دیں ۔میاں صاحب نے اپنے تمام ادوار میں کارکنوں کو کیا دیا تھا جو وہ ان کیلئے با ہر نکلیں اور پولیس کی لاٹھی کھائیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ2 دوست جنگل میں جارہے تھے۔ راستے میں ایک پوٹلی پڑی تھی۔ ایک دوست نے اس کو اُٹھالیا ۔دیکھا تو اس میں قیمتی اشیاء اور سونا تھا ۔دوسرے دوست نے کہا کہ آئو اس کو آدھا آدھا بانٹ لیتے ہیں ۔پہلے دوست نے کہا کہ پوٹلی میں نے اُٹھائی ہے لہذا میں ہی حقدار ہوں ۔دوسرے نے کہا کہ بتائی میں نے تھی لہذا میں اس میں آدھا شریک ہوں مگر پہلے دوست نے کہا کہ بٹوارا ممکن نہیں، یہ میری ملکیت ہے ۔دوسرا دوست چپ ہوکر رہ گیا کیونکہ پہلا والا دوست زبردست تگڑا بھی تھا اور مطلبی بھی ۔خیر آگے بڑھے تو چند آدمیوں کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔دیکھا تو اس پوٹلی کا مالک اور چند پولیس والے اس کی تلاش میں آرہے تھے تو پہلے نے جو پولیس والوں کو دیکھاتو اُس نے کہا کہ یار ہم پھنس گئے ہیں ۔دوسرے نے جواب دیاکہ یہ نہ کہو کہ ہم پھنس گئے ہیں بلکہ یہ کہو کہ میں پھنس گیا ہوں لہذا میاں صاحب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مصیبت ان پر آئی ہے نہ کہ کارکنوں پر لہذا اس مصیبت پر خود ہی قربانی دیں ۔یہ بیچارے کارکن اور پانی پینے والے مسلم لیگی قائدین جن کو کچھ نہیں ملا وہ کیوں قربانی دیں ۔آواز ان دودھ پینے والے  مسلم لیگی قائدین اور خوشامدیوں کو دیں جنہوں نے باربار اقتدار کے مزے لوٹے اور آپکی بار بارخوشامد کرکے آپ کو اس حال تک پہنچایا ۔
    مجھے تو بعض مسلم لیگوں پر ترس بھی آتاہے جنہوں نے ایام اقتدار میں صرف قربانیاں ہی دیں اور آج بھی وہ مسلم لیگ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ وہ مسلم لیگ سے واقعی مخلص تھے اور آج بھی ہیں ۔ابھی بھی وقت ہے کہ مسلم لیگ کو بحران سے نکالنے کیلئے اور میاں صاحبان کی مصیبتوں کو کم کرنے کیلئے مخلص قائدین کو آگے لایا جائے کیونکہ مسلم لیگ میں سب کرپٹ نہیں ۔سیاست کی بساط میں ہمیشہ فتح کا خواب نہیں دیکھا جاتا ۔یہ شطرنج کی طرح بازی ہاری بھی جاتی ہے اور ہاری ہوئی بازی جیتی بھی جاتی ہے۔خودبقول میاں نواز شریف کے ہم نے بہت سی غلطیاں کی ہیں  تو میرا مشورہ یہی ہے کہ ان غلطیوں کو پھر نہ دہرایا جائے ۔
    کل ہی میاں صاحب کے دیرینہ ساتھی اور وزیرخارجہ خواجہ آصف کو بھی دبئی کی ملازمت چھپانے اور اقامہ تسلیم کرنے پر تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے ۔چوہدری نثار بھی عرصہ 6ماہ سے مسلم لیگ کی کسی اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ، وہ سخت ناراض ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں شہباز شریف اُن سے4 مرتبہ ملاقات کرچکے ہیں مگر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔کل ہی مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنی 5سالہ حکومت کا آخری اقتصادی سروے2018   اور اسکے بعد قومی بجٹ پیش کردیا ہے جس میں حکومت نے دعوی کیا ہے کہ معیشت کو بحران سے نکال لیا ہے ۔مہنگائی میں بھی کمی کردی گئی ہے بجلی بھی وافر مقدار میں پیداکرکے توانائی کے بحران پر بھی قابو پالیا گیا ہے۔میرے خیال میں اگر بجلی بحران پر قابو پالیا گیا ہے تو پھر پاکستان بھر میں لوڈشیڈنگ کیوں کی جارہی ہے ۔ساتھ ساتھ حکومت نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے ۔یہاں میں پھر ذکر کروں گا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کم ہوگئی ہے مگر ابھی تک اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا ۔یہاں میں چیف آف آرمی ا سٹاف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے پروفیشنل انداز میں دہشت گردوں کو ختم کردیا ہے اور مزید کارروائیاں کررہے ہیں ۔
    دوسری جانب نااہلی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ وزیرداخلہ احسن اقبال کی بھی باری آنیوالی ہے ۔بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری بھی خاموش ہوگئے ہیں ۔
مزید پڑھیں:- - - - -کراچی کے اندھیرے

شیئر: