Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب پاکستانی ہونے کے بھی پیسے دینے ہوں گے، شہریوں کی آراء

یہ غریب عوام پر ظلم ہے،اضافہ کیا ہے تو سہولتیں بھی فراہم کی جائیں،جس طرح ہم غیر ممالک کے ٹیکس قبول کرتے ہیں اسی طرح اپنے ملک کے کیوں نہیں کرتے، دیس اور پردیس میں مقیم شہریوں سے  آن لائن سروے 
 
عبد الستار خان

@nazarhijazi

دنیا بھر میں ایک ہاتھ دے اور ایک ہاتھ لے کا جبلی اصول کارفرما ہے۔اسی کا نام تجارت ہے۔ اسی کا نام لین دین ہے۔ دنیا کے ہر چپے میں اگر کوئی شخص کسی کو کوئی فائدہ دیتا ہے تو وہ اسکا معاوضہ ضرور لیتا ہے۔ معاوضہ اتنا ہی دیا جاتا ہے جتنا اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ اصول کہیں بھی نہیں کہ فائدہ کوڑی کا ہو اور اس کا معاوضہ کروڑوں میں لیا جائے۔  یہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا تذکرہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جہاں ہر خریدار اپنا فائدہ دیکھ کر ہی مال خریدتا ہے۔ کمپنیاں بھی جب مصنوعات بازار میں فروخت کیلئے پیش کرتی ہیں تو انکا مطمع نظر بھی یہی ہوتا ہے کہ خریدار کو مطمئن کیا جائے اور اسے کم خرچ بالا نشیں قسم کی اشیاء فراہم کی جائیں۔جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں خریدار نہ صرف مصنوعات سے منہ موڑ لیتے ہیں بلکہ وہ احتجاج بھی کرتے ہیں، عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے ہیں اور جب تک انہیں انصاف نہیں ملتا وہ اسکے لئے تگ و دو کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ یہ تو ان ممالک کی باتیں ہیں جہاں اس اصول کو اپنایا جاتا ہے کہ ایک ہاتھ دے اور ایک لے۔
مزید پڑھیں:قومی شناختی کارڈ کی فیس میں اضافہ واپس لیا جائے،عسیر پاکبان
تیسری دنیا کے ممالک  ایسے ہیں جو پہلی اور دوسری دنیا کی نقالی کو اپنا وتیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں یہی دوڑ لگی رہتی ہے کہ  کونسا ملک پہلی دنیا کی کس انداز میںا و رکس حد تک نقالی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان بھی انہی نقالوں میں شامل ہے جو پہلی دنیا کی طرح چال چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خواہ وہ خواتین کا دن منانے کے حوالے سے ہو، مزدوروں کا عالمی دن ہو، دولہوں کا بین الاقوامی یوم ہو یا دلہنوں کا دن، بیویوں کا دن ہو یا مستقبل کی ہونے والی بیویوں کا یوم۔ ہر بات میں ہم پہلی دنیا یا گوری اقوام کی نقل کرنا اپنے لئے باعث ’’فخر‘‘ سمجھتے ہیں۔ ہماری  اسی سمجھ میں ایک جمہوریت بھی ہے جو پڑھی لکھی اقوام کا نظام حکومت ہے لیکن انہیں ہم نے تیسری دنیا  کے  ناخواندہ ، غریب ، ناسمجھ ، زندگی سے بیزار  اور سہولتوں سے عاری عوام کے سروں پر تھوپ دیا ہے۔ ہم پہلی دنیا کے امیدوارو ںکی طرح انتخابات میں وعدے کرتے ہیں اور تیسری دنیا کے دروغ گو افراد کی طرح انہیں جھٹلا دیتے ہیں یا پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم  پہلی دنیا کی طرح لوگوں پر ٹیکس عائد کرتے ہیں  اور تیسری دنیا کی طرح  عوام کو غربت اور مفلسی  کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ جو غریبوں کو جینے کا حق دینے کیلئے تیار نہیں تاہم انہیں سسکنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ ہمیں وقت پڑنے پر ووٹ دے سکیں اور ہم ایک مرتبہ پھر ان بے کس و مجبور عوام کے سروں  پر مسلط ہوجائیں اور انہیں ایسی اذیت دیں کہ وہ زندگی سے اکتا جائیں۔
پہلی دنیا کے ممالک میں اگر عوا م پر ٹیکس لگایا جاتا ہے تو وہ اسی حساب سے انہیں سہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر سہولت میں رتی برابر بھی کمی ہو تو وہ اقوام اپنے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلادیتی ہیں او ربالاخر وہ اپنے ووٹروں سے معافی مانگ کر خود کو نااہل سمجھ کر استعفیٰ دیکر گھر چلے جاتے ہیں اور پھر پلٹ کر دوبارہ میدان سیاست میں براجمان ہونے کا خواب بھی نہیں دیکھتے۔ اسکی ایک تازہ ترین مثال برطانوی وزیر داخلہ ہیں جنہوں نے اپنی غلطی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ خود کو نااہل سمجھتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دیا اور’’تانگے میں بیٹھ کر گھر چلے گئے‘‘۔ یہ تو پہلی دنیا کی مثال ہے۔تیسری دنیا میں اگر کوئی شخص باقاعدہ طور پر غلطی کرنے کا منصوبہ بنائے اور پھر اسکا یہ منصوبہ طشت از بام ہوجائے تو وہ اپنی کرسی چھوڑ کر نہیں جاتا بلکہ استفسار کرتا رہتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کیوں ہوا؟ 
مزید پڑھیں:سعودی عرب میں نائیکوپ کی فیسوں میں اضافہ نہیں کمی کی ہے
پاکستان میں وضع وضع کے ٹیکس پہلے سے موجود ہیں۔ آئے دن پیٹرول کی قیمتوں میں عجیب قسم کی کمی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اگر ایک روپیہ کم کیا جاتا ہے تو دوسری مد میں 4 روھہ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ جب عوام مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو انہیں جی ڈی پی، این ڈی پی اور معاشی انڈیکس ، سرکلر ڈیٹ او راسی قسم کے دیگر ثقیل  عنوانات کے تحت  لمبی لمبی تقاریر سنائی جاتی ہیں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا ملک شاہراہ ترقی پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اسی طرح بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر عجیب و غریب قسم کا ٹیکس عائد کیاگیا ہ ے جس کی وضاحت کرنے والا بذات خود اس سے نابلد ہوتا ہے اور عوام اس وضاحت کو سن کر نیم پاگل ہونے لگتے ہیں۔ کہیں یہ کہا جاتا ہے کہ بجلی کنڈوں کے ذریعے چوری ہوتی ہے اور اس سے سرکار کو نقصان ہوتا ہے چنانچہ سرکاری نقصان پورا کرنے کیلئے صارفین کو اضافی بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ یہ صارفین عرصہ ہائے دراز سے  وہ ٹیکس دیتے چلے آرہے ہیں جس کا ان پر اطلاق ہی نہیں ہوسکتا۔ چوری کوئی کرتا ہے ، حکومت  انہیں پکڑ نہیں سکتی ا ور سزا عوام بھگتتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ حکومت  چوروں کو پکڑنے کے قابل نہیں رہی تو اس پر وزراء برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور اول فول سنانے لگتے ہیں۔جب  پانی سر سے گزرجاتا ہے تو واپڈا کے کرتا دھرتا معصوم سی شکل بنا کر یہ مژدہ سنا دیتے ہیں کہ ہم بجلی چوری پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ انجام کار پاکستانی عوام ٹیکس دیئے جارہے ہیں ۔ انہیں اسکے بدلے میں کوئی سہولت میسر نہیں۔ اب تو ا نتہاء یہ ہے کہ شادی کرنے پر دولہا میاں کو بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ یوں نئی زندگی کا آغاز کرنے والے کو پہلے اپنی جیب ہلکی کرنی پڑے گی۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا  کہ پاکستان تیسری دنیا کا وہ خطہ ہے کہ جہاں’’ ایک ہاتھ دے اور دوسرے ہاتھ بھی دے‘‘ کا اصول کارفرما ہے۔ اسکی تازہ ترین اور حالیہ مثال شناختی کارڈ کی فیس میںاضافہ ہے۔
کچھ لوگوںکا کہناہے کہ حکومت نے شناختی کارڈ کی فیس میں اضافہ کرکے عوام پر ایک اور بم گرایا ہے جبکہ بعض کا کہناہے کہ اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔ لوگوں نے شناختی کارڈ تو لازماً بنوانا ہوتا ہے۔ اس کارڈ کے ذریعے فیس کی مد میں جو رقم وصول ہوگی اس سے عوام کو سہولتو ںکی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے تاکہ حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھے اور وہ بخوشی ٹیکس جیسی ادائیگیاں کرنے کیلئے تیار ہوں۔
اردو نیوز نے حکومت پاکستان کی جانب سے شناختی کارڈ فیس میں اضافے کے اقدام پر آن لائن سروے کا اہتمام کیا تاکہ اس اضافے کے حوالے سے پاکستانیوں کی آراء معلوم کی جا سکیں۔ سروے کا احوال قارئین کے لئے پیش کیاجا رہا ہے:
محمد صادق، جدہ:کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ کی فیس میںاضافہ مناسب نہیں۔
 مزید پڑھیں:شناختی کارڈ کی فیس میں اضافے پرعوام میں غم و غصہ
راجہ خان ، دمام: ان کا کہنا ہے کہ صرف پیسہ کمانے کی بات ہے۔
محمد صغیر احمد،ریاض: ظاہر ہے کہ اضافہ اچھی بات نہیں اگر ہم ٹیکس ادا کریں تو یہ ملک کے لئے اچھا ہوگا۔
محمد عثمان، ریاض: انہوںنے کہا کہ فیسوں میں اضافہ سے متفق نہیں۔
 شاہ نذر خان، نوشہرہ ،پبی: اگر اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو دیکھا جائے تو شناختی کارڈ کی فیس میں اضافہ ضروری تھا تاہم نادرا کے تمام ملازمین کو ایمانداری سے کام کرنا چاہئے اور فیس سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرانی چاہئے، اپنی جیب میں نہیں ڈالنی چاہئے۔
 آصف الدین احمد، دمام: کہتے ہیں کہ اضافہ بالکل نہیں ہونا چاہئے۔
 سلیم محمد ، ریاض: اضافہ بالکل غلط ہے، ہم پاکستانی زرمبادلہ ملک بھیجتے ہیں۔ حکومت کو پاکبانوں کی مدد کرنی چاہئے۔ 
محمد طاہر، جدہ: 100فیصد اضافہ متوسط اور غریب طبقے پر بوجھ ہے۔ حکومت کچھ فیصد اضافہ کم کر دے۔اگر اضافہ کیا ہے تو سہولتوں کا بھی اعلان کرے۔ 
محمد طاہر، جبیل: پاکستان اور سعودی عرب میں شناخی کارڈ کی بنیادی قیمت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پاکستان میں اس کی فیس 400روپے ہے جبکہ یہی فیس سعودی عرب سے 6000روپے بنتی ہے۔ 
ندیم عطا، جدہ: یہ لوگ کارڈ کی بہت زیادہ فیس وصول کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی شناختی کارڈ کی عام تجدید کیلئے 113 ریال لئے جا رہے ہیں۔ 
محمد سہیل، کراچی: میری رائے ہے کہ فیس میں اضافہ غلط ہے۔ یہ کوئی کاروبار یا بچت کا معاملہ نہیں ہے۔ عوام کو سہولت دینی چاہئے۔ ہو سکے تو اس کو مفت فراہم کیا جائے۔
 عبدالفہیم، ینبع: بہت ہی غلط فیصلہ ہے۔ ساری دنیا میں فیسیں کم ہیں۔ یہی تو کرپشن ہے کہ سب من مانی کر رہے ہیں۔
 نسرین بیگم ، ریاض: فوری فیس کم کر دی جائے۔ 
شمروز خان، ریاض: فیس میں مناسب کمی کی جائے۔ 
پرویز اختر، الخبر: اضافہ نامناسب ہے۔ 
عامر مصطفی ،دمام :یہ بدترین فیصلہ ہے۔ اگر حکومت کی فراہم کردہ خدمات سے مقابلہ کیا جائے تو غلط ہے۔
 عاصم خان، راولپنڈی:اضافہ واپس لیا جائے۔
 وسیم اکرم، مکہ مکرمہ۔ حکومت پاکستان کو بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے شناختی کارڈ بالکل مفت بنانا چاہئے۔
 عدنان خان، مردان : عوام کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ 
محمد منیر احمد، اسلام آباد: دراصل یہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی فیس میں کٹوتی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ نادرا نے ان کی وجہ سے اپنے ملک میں رہنے والوں پر بوجھ ڈال دیاہے۔
 مزید پڑھیں:نادرا کی جانب سے مزید بوجھ نا انصافی ہے، پاکبان
محمد ندیم، دمام: یہ ظلم ہے ، شناختی کارڈ بالکل فری ہونا چاہئے۔ 
عبدالستار، جہلم: غریبوں کے لئے صرف نعرے ہیں۔ قرض ، روٹی، کپڑا  اورمکان کیلئے دن رات محنت ، سوئس اکاؤنٹس کس  کے لئے ہیں؟
 عامر احمد، جدہ: ہم پاکستانیوں کو اپنی حکومت کی تمام پالیسیوں پر عملددرآمد کرنا چاہئے۔جس طرح ہم غیر ممالک میں رہ کر وہاں  لاگو کئے جانے والے ٹیکس دل سے قبول کر لیتے ہیں، اسی طرح ہم اپنی حکومت کی جانب سے عائد کئے جانے والے ٹیکسوں یا فیسوں کو قبول کیوں نہیں کر لیتے؟
 انجم ظفر، سکھر: نادرا کو فیصلہ واپس لینا چاہئے۔ 
عقیل احمد، لاہور: فیس میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔یہ  سراسر زیادتی ہے، میں مخالفت کرتا ہوں۔
 عدیل احمد، لاہور: اضافہ پاکستان کے عوام کیلئے اچھا نہیں۔ اب پاکستانی ہونے کے بھی پیسے دینے پڑیں گے۔
امیر محمود، الخبر:ناقابل قبول ہے۔
شہزاد یوسف،راولپنڈی:یہ سرا سر ظلم ہے 
عثمان مغل، لاہور:غیر منصفانہ ہے۔
ندیم صدیق،ریاض:یہ ادارہ عوام کی خدمت اور ملک کی بقا کے لئے ہے یا بزنس کے لئے؟اگر بزنس کے لئے ہے تو اس کا کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے اور اگر خدمت کے لئے ہے تو حکومت کو فیسوں کا سدِ باب کرنا چاہئے۔
فرخ جمال، نوشہرہ:قومی سناختی کارڈ کی فیس پہلے ہی بہت زیادہ ہے ۔ 
اکرام خان،دمام: ناقابل قبول ہے۔
تبسم ایوب، دمام: یہ غریب عوام پر بوجھ ہے ۔
شاہد عباس،مکہ مکرمہ:اضافہ آپ بے شک کریں مگر اس کے بدلے خدمات بھی تو اسی انداز کی دیں۔
عبدالباسط، ہری پور:حکومت نے اچھا نہیں کیا، فیس کم کی جائے۔
شیر افضل خاں، کراچی: ظلم میں اضافہ ہوا ہے ۔
محمد یحییٰ، جدہ:تارکین وطن کے لئے فیس معاف کر دی جائے کیونکہ یہ ملکی معیشت کے  لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اور ان کے بچوں کے لئے کوئی سہولتیں بھی نہیں جبکہ ان کے بچے پاکستان میں اسکولوں اور کالجوں میں ٹیکس دے رہے ہیں۔ فیس میں اضافے کو فوری ختم کیاجائے۔
بشیر کالا خان، ریاض:ظلم ہے عوام کے ساتھ۔
مراد حسین، القصیم: بہت بڑا ظلم ہے یہ۔
رضوان کا ظمی، ریاض:نوٹس لینا چاہئے۔
قمر چوہان، دمام: انتہائی غیر منصفانہ بات ہے ۔
شفیق احمد، ریاض:انتہائی شرمناک فیصلہ ہے ۔حکومت کو اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔ کم سے کم فیس لینی چاہئے۔
مزیدپڑھیں:نادرا نے شناختی کارڈ فیس بڑھا دی
عامر وسیم، دمام:حکومت کو چاہئے کہ اپنی فیس کم کرے۔
ناصر سفیر، راولپنڈی:جو بھی ہے غوام کو لوٹ رہا ہے۔
محمد راشد، گوجرانوالہ:خدمات اور بہتر ماحول کے لئے اضافہ اچھا ہے ۔
رفیع رضا، جدہ:پاکستانی عوام پر ایک اور ظلم ہے۔ اللہ کریم ہی اس قوم پر رحم فرمائے۔
محمد سلیم چیمہ،اسلام آباد: اٹ از اوکے۔
اظہر ، ریاض: یہ انتہائی نامناسب طریقہ ہے۔ کبھی کہیں فوری اطلاق نہیں ہوتا، ہر جگہ پہلے مہم چلائی جاتی ہے پھر نرخ بڑھائے جاتے ہیں لیکن  ہمارے ہاں تو نظام ہی الٹا ہے۔
اویس رشید، دمام:فیصلہ قبول نہیں کیونکہ عوام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں
اکبر فضل، دمام: اضافہ اچھا ہے۔
نذیر محمد صدیق، ریاض: محنت کشوں کے لئے تو کسی بھی طور اچھا فیصلہ نہیں۔
سمیع اللہ خاں،خوشاب: بہتر ہے کہ غریبوں کو ان کے گھر جا کر مفت کارڈ فراہم کئے جائیں لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو۔
سخاوت علی، سیالکوٹ:اضافے سے غریب پاکستانی متاثر ہوں گے۔ بیشتر پاکستانی تو پرانی فیس میں بھی کارڈ لینے کی سکت نہیں رکھتے۔
ندیم ذکاء ، جدہ:میں نے پہلے مفت کارڈ بنوایا تھا۔فیس میں صد فیصد اضافہ بہت زیادہ ہے۔
ایم افضل بھٹی،گوجرانوالہ: عوام کے لئے فیس میں اضافہ صحیح نہیں۔
ارشد محمود،ایبٹ آباد:اضافہ بالکل نہیں ہونا چاہئے۔
ابراہیم خان، اسلام آباد:بدعنوان حکومت نے عوام کو لوٹنے کا تہیہ کر لیا ہے ۔
غلام اکبر، ریاض:اس اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت فیصلہ واپس لے اور پرانی فیس بحال کرے۔
عمران مشتاق، پتوکی:غریب تو پھر بھی مارا ہی گیا۔ ہر محکمہ اپنی فیس بڑھاتا رہے اور غریب ان فیسوں تلے دبتا چلا جاتا ہے ۔
معاذ خاں، تھانہ، پاکستان:ظلم ہے پاکستانی عوام پر۔
ایم جمیل شاکر جمیل، پتوکی:اضافے کی بجائے کارڈ فری ہونا چاہئے۔
سنبل فاطمہ، لاہور:عوام اتنی زیادہ فیس برداشت نہیں کر سکتے۔آئی ڈی کارڈ بنانے کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
نعیم الرحمن رائو، ریاض: ظلم ہے۔
بلال اقبال، جدہ: اب انتخابات آنے والے ہیں، فیس میں اضافہ کرنے سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔غریب آدمی پر ظلم ہے ۔ چیف جسٹس صاحب کو نوٹس لینا چاہئے۔
محمد تیمور مجاہد، جدہ:فیس میں اضافے کے مقابلے میں کون سی نئی سہولت دی جائے گی ماسوائے اس کے کہ بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔کیا سرکاری خزانہ لوٹ کر دل نہیں بھرا؟
رئیس، جدہ:اضافہ قبول نہیں۔
راشد حسین، ریاض: اضافہ نامنظور۔
حماد امین، جدہ:نادرہ کے اقدام سے میں تو خوش ہوں۔حکومت کے قانون و قواعد پر کسی کو آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ ان پر عملدرآمد کیاجائے۔
اعجاز اسلم ، ریاض: فیس میں اضافہ غیر قانونی ہے ، عوام پر بوجھ پڑے گا۔ یہ لوگ عوام کو دبابانا چاہتے ہیں۔
محمد جاوید، روحیلہ والی:یہ اضافہ اچھا نہیں۔
محمد اختر، کراچی:اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔
خرم رشید، کراچی:بہت ہی غلط فیصلہ ہے ۔ سن کر افسوس ہوا۔ یہ غریبوں کے ساتھ ظلم ہے ۔
منصور غلام، جدہ:نادرا کا ادارہ خدمات کے حوالے سے بالکل ناکام ہے۔
کاشف جاوید، کراچی: اضافہ ناقابل قبول ہے۔
رضی محمد ولی، ریاض:نادرا نے فیس میں اضافہ کر کے عوام پر ظلم کیا۔
حسیب انصاری، جدہ: اضافہ عوام کا خون پینے کے مترادف ہے۔ 
 
 

شیئر: