Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر دولت کی نمائش، ایف بی آر صارفین پر کیسے نظر رکھے گا؟

ایف بی آر کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی آمدنی اور ذرائع کا جائزہ لے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
اگر آپ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز یا تصاویر پوسٹ کرتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے پاس لگژری گاڑیاں یا برانڈڈ اشیا ہیں اور آپ شاندار تقریبات کا انعقاد اور غیرملکی سفر کرتے ہیں مگر آپ نے اپنے ٹیکس ریٹرن میں اس کے برعکس کم آمدنی ظاہر کی ہے تو آپ ایف بی آر کے شکنجے میں آ سکتے ہیں۔
کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سوشل میڈیا پر اپنی دولت، شاہانہ طرزِ زندگی اور مہنگی اشیا کی نمائش کرنے والے افراد کی مانیٹرنگ شروع کر دی ہے۔ ایسے افراد جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں یا اپنی اصل آمدنی چھپاتے ہیں مگر انسٹاگرام، فیس بک یا ٹک ٹاک پر لگژری لائف سٹال کی نمائش کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس حوالے سے اردو نیوز کو ایف بی آر کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’ادارے نے خصوصی سوشل میڈیا مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ یہ ٹیم صارفین کی پوسٹس، تصاویر اور ویڈیوز کا جائزہ لے کر ان کے طرزِ زندگی کا اندازہ لگاتی ہے اور پھر اس کا تقابل ان کے جمع کرائے گئے ٹیکس ریٹرنز سے کیا جاتا ہے۔‘
افسر کے مطابق ’اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا چکا ہے اور ان کے سوشل میڈیا پروفائلز کو ٹیکس ریٹرنز کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔‘
ایف بی آر اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ کسی شخص نے اپنے ٹیکس ریٹرن میں جو آمدنی ظاہر کی ہے کیا وہ اس کے سوشل میڈیا پر دکھائے گئے اخراجات اور طرزِ زندگی سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کم آمدنی ظاہر کرتا ہے لیکن اس کی تصاویر اور ویڈیوز شاہانہ زندگی کی عکاسی کرتی ہیں، تو اسے ٹیکس چوری کا کیس سمجھا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایف بی آر کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی آمدنی اور ذرائع کا جائزہ لے۔ اگر سوشل میڈیا سے شواہد ملیں تو ادارہ ان کی بنیاد پر نوٹس جاری کر سکتا ہے اور تحقیقات کا آغاز کر سکتا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق یہ کارروائی ملک میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور نظام کو شفاف بنانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
ایف بی آر کے اس اقدام کے حوالے سے ٹیکس امور کے ماہر اور سابق وزیرِ مملکت برائے خزانہ ہارون شریف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو ایسے شعبوں میں کام کرتے ہیں جہاں وہ خود کو رجسٹر نہیں کرواتے اور ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوتے۔ تاہم جب وہ سوشل میڈیا پر اپنی شاہانہ زندگی کی تصاویر اور پوسٹس شیئر کرتے ہیں تو یہ بنیادی طور پر ایک دستاویز بن جاتی ہے، جسے ایف بی آر اپنے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

ہارون شریف کے مطابق جب لوگ سوشل میڈیا پر اپنی شاہانہ زندگی کی تصاویر اور پوسٹس شیئر کرتے ہیں تو یہ بنیادی طور پر ایک دستاویز بن جاتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جانے والا مواد ایک دستاویز کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا قانونی طور پر ایف بی آر سوشل میڈیا پر لگائی گئی ان پوسٹس کو کسی شہری کی اصل آمدنی کے ثبوت کے طور پر استعمال کر سکتا ہے؟ ہارون شریف نے کہا کہ یہ واقعی ایف بی آر کے لیے ایک مشکل پہلو ہو گا کہ وہ سوشل میڈیا پر دکھائی گئی چیزوں کو بطور ثبوت کس طرح کسی شہری کے خلاف پیش کر سکتا ہے۔
’کیونکہ ممکن ہے کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر دکھایا گیا ہو وہ حقیقت پر مبنی نہ ہو اور وہ دولت یا سامان متعلقہ شخص کی ملکیت ہی نہ ہو۔ اس لیے ایف بی آر کو اس حوالے سے کوئی واضح طریقہ کار (میکانزم) وضع کرنا ہو گا۔‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر کو صرف سوشل میڈیا پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کھلے عام شاہانہ طرزِ زندگی گزارنے والے افراد، جو مہنگی گاڑیوں پر روزانہ گھومتے ہیں، ان کے ذرائع آمدنی کو بھی چیک کرنا چاہیے کہ کیا وہ مناسب طریقے سے ٹیکس فائل کر رہے ہیں یا نہیں۔
ان کے مطابق اس اقدام سے ایف بی آر کو شاید فوری طور پر بڑا مالی فائدہ نہ ملے لیکن کم از کم ٹیکس نیٹ بڑھانے میں مدد ضرور مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ایف بی آر کو لوگوں کے ذرائع آمدنی پر توجہ دینی چاہیے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

دوسری جانب ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود کچھ افراد خصوصاً انفلوئینسرز اپنی ایک علیحدہ شناخت بنا کر ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جو بعض اوقات سائبر کرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں، جن پر دیگر متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔
ان کے مطابق ایف بی آر کا کام سوشل میڈیا پر ان پوسٹس کا پیچھا کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ایف بی آر کو لوگوں کے ذرائع آمدنی پر توجہ دینی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اپنی آمدنی سے باہر وہ کیا سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ لیکن مختلف جگہوں سے سوشل میڈیا کا مواد اکٹھا کر کے ان پر کارروائی کرنا ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

شیئر: