Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جناح کی تصویر پر ہنگامہ

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی روز اول سے فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہے ، وہاں شرپسندوں کی طرف سے ایسے فتنے جگائے جاتے ہیں
* * * *
معصوم مرادآبادی
   کیا واقعی ہم ایک ایسی کمزور مملکت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں، جہاں ایک مرحوم لیڈر کی تصویر بھی ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ ثابت ہونے لگی ہے۔ شہرۂ آفاق دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین ہال میں برسہا برس سے آویزاں محمد علی جناح کی ایک تصویر حکمراں جماعت کے لوگوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہی ہے۔ یہ تصویر 1938میں اس وقت آویزاں کی گئی تھی جب محمد علی جناح کو یونین کی اعزازی رکنیت عطا کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب جناح دیگر قومی لیڈروں کے ساتھ تحریک آزادی کا ایک اہم حصہ تھے اور اس وقت پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھالیکن ہمارے ملک میں مسلمانوں سے متعلق ہر شے کو مٹانے اور ہر ادارے کو برباد کرنے کی جو شر انگیز مہم چل رہی ہے، اس سے کچھ بھی محفوظ نہیں ۔ اس مہم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے وجود میں زلزلہ پیدا کرکے انہیں غیر یقینی حالات سے دوچار کرنا ہے۔اس قسم کی حرکتیں عام طورپر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے بھی کی جاتی ہیں۔ جارحیت پسند ہندو تنظیموں کے ممبران نے گزشتہ دنوں جناح کی تصویر کو بنیاد بناکر باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر چڑھائی کی اور وہاں کے امن وامان کو غارت کردیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت شرپسندوں نے مسلم یونیورسٹی پر دھاوا بولا اس وقت وہاں یونین ہال میں سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری ایک تقریب میں شریک تھے اور انہیں یونین کی اعزازی رکنیت عطا کی جارہی تھی۔ ایک ایسے موقع پر جب یونیورسٹی میں ملک کا سابق نائب صدر موجود تھا تو پولیس نے شرپسندوں کو وہاں وبال پیدا کرنے کی چھوٹ کیوں دی؟ جب یونیورسٹی کے طلباء نے شرپسندوں کی موجودگی پر اعتراض کیا تو پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔اس ہنگامہ آرائی میں یونیورسٹی کے 2درجن سے زیادہ طلباء زخمی ہوگئے اور یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول غارت ہوگیا ۔
    یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی روز اول سے فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہے اور وہاں شرپسندوں کی طرف سے آئے دن ایسے فتنے جگائے جاتے ہیں۔ابھی گزشتہ ہفتے ہی آر ایس ایس نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھ کر یونیورسٹی کیمپس میں آر ایس ایس کی شاکھالگانے کی اجازت مانگی تھی جس کا مقصد یونیورسٹی کے طلباء میں قوم پرست جذبات کو فروغ دینا اور آر ایس ایس کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کرنا بتایا گیا تھا۔ ظاہر ہے یونیورسٹی میں آر ایس ایس جیسی فسطائی اور مسلم دشمن تنظیم کی شاکھا لگانے کا مقصد یونیورسٹی کے ماحول سے کھلواڑ کرنا تھا۔ اب اس بات پر ہنگامہ آرائی اپنے شباب پر ہے کہ یونیورسٹی کے یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر کیوں آویزاں ہے اور اسے کب اتارا جائیگا۔ اس تصویر کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں اور انہیں پاکستان نواز ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں جناح کی تصویر لگانے والوں کیخلاف کارروائی کریں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں جانچ کا حکم بھی دیدیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے اب سے 88سال پہلے یہ تصویر آویزاں کی تھی، وزیراعلیٰ ان کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے کیا طریقہ اپنائیں گے اور انہیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج اونچے عہدوں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں اس ملک کی تاریخ اور تہذیب کا کوئی علم ہی نہیں۔ ان کے دل ودماغ میں نفرت کے سوا کچھ نہیں اور وہ صرف نفرت پھیلا کر ووٹوں کی فصل اگانا جانتے ہیں۔
    اس تنازع کی داغ بیل دراصل علی گڑھ سے منتخب بی جے پی ممبرپارلیمنٹ ستیش گوتم نے ڈالی ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک مکتوب روانہ کرکے پوچھا تھا کہ یونین ہال میں جناح کی تصویر کیوں آویزاں کی گئی ہے۔ممبرپارلیمنٹ نے اپنے خط میں جناح کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نہ جانے کیا کیا لکھا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اگر وہ لوگ یونیورسٹی میں کوئی تصویر لگانا چاہتے ہیں تو انہیں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جیسے عظیم لوگوں کی تصویریں لگانی چاہئیں جنہوں نے یونیورسٹی کیلئے زمین عطیہ کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی ممبرپارلیمنٹ کو خود انہی کی پارٹی کے ایک ممبراسمبلی اور صوبائی وزیر نے کرارا جواب دیا ہے۔ اترپردیش کی یوگی سرکار میں کابینہ درجہ کے وزیر سوامی پرساد موریا نے جناح کو عظیم شخصیت قرار دیتے ہوئے انکی تصویر پر سوال اٹھانے والوں پر نشانہ سادھا ہے۔ موریہ نے کہاکہ اس ملک کی تعمیر میں جن عظیم شخصیات کا کردار شامل رہا ہے، اگر کوئی ان پر انگلی اٹھاتا ہے تو اس سے زیادہ گھٹیا بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی تقسیم سے قبل جناح کی قربانیاں بھی اس ملک کیلئے تھیں۔
    قابل ذکر بات یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں جہاں محمد علی جناح کو ملک کی تقسیم کا قصوروار قرار دیکر مطعون کیاجاتا ہے تو وہیں اس پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو جناح کو ایک عظیم اور سیکولر لیڈر قرار دیتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بی جے پی کے سینیئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے کراچی میں محمد علی جناح کے مزار پر حاضر ہوکر انہیں ایک عظیم لیڈر قرار دیا تھا اور وہاں رکھی ہوئی وزیٹر بک میں انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وطن واپسی کے بعد انہیں سنگھ پریوار کے زبردست حملوں کو جھیلنا پڑا اور بی جے پی کی صدارت چھوڑنی پڑی۔ لال کرشن اڈوانی کے بعد انہی کی پارٹی کے ایک اور لیڈر سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے محمد علی جناح پر ایک ضخیم کتاب لکھ کر ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔بمبئی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایچ ایم سیروائی بھی جناح پر کتاب لکھ کر انہیں ایک اچھا انسان اور سیکولر قائد قرار دے چکے ہیں۔ گوپال کرشن گوکھلے نے بھی’’جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘کے عنوان سے انگریزی میں کتاب لکھی ہے۔ یہ کتابیں ملک کی وقیع لائبریریوں اور اہم بک اسٹالوںپر موجود ہیں۔ قومی لیڈران کے ساتھ جناح کی سیکڑوں تصاویر نیشنل آرکائیوز اور نیشنل میوزیم میں لگی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنانے کے بعد کیا ہندتوا بریگیڈ کے لوگ ان اہم قومی تنصیبات کی طرف کوچ کریں گے؟
مزید پڑھیں:- - - - - - تاج محل کی ملکیت کا تنازعہ

شیئر:

متعلقہ خبریں