Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئیں تو مہمان ، نہ جائیں تو بلاِ ئے جان ؟

افغانوں کو واپس بھیجنے کا مسئلہ وہ باسی کڑھی ہے جس میں کبھی کبھی ابال آتا ہے
* * * *
وسعت اللہ خان
  گزشتہ 37 برس کے دوران افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور بحالی کے سلسلے میں کتنے منصوبے اور بیانات سامنے آئے۔شائد  کسی کو بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔بلکہ ہر آنے والے برس میں یہ مسئلہ وہ باسی کڑھی ہوتا گیا ہے جس میں کبھی کبھی ایک آدھ ابال آ  کے  بیٹھ جاتا ہے۔
    کہنے کو سرکار ایک ہے مگر پناہ گزینوں  کی واپسی سے متعلق سرکاری آرا بھانت بھانت کی ہیں۔چنانچہ  کوئی بھی عام سا سنجیدہ شخص اس سنجیدہ مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں کر لے ؟
    مثلاً  بلوچستان  کے وزیرِ داخلہ میر سرفراز بگٹی نے فرمایا کہ افغان مہاجرین شرافت سے نہ گئے تو ہم دھکے دے کر نکال دیں گے۔  پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ پاکستان افغانیوں کا وطن ہے۔ جب تک چاہیں رہیں۔ کوئی زبردستی نہیں نکال سکتا۔سابق مشیرِ قومی سلامتی و خارجہ سرتاج عزیز کے بقول افغان مہاجرین کے کیمپ دھشت گردوں کی پناہ گاہ ہیں۔
    وزیر برائے سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان اب افغان مہاجرین کی میزبانی کا اور متحمل نہیں ہو سکتا۔ان کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے۔ان کے سبب مقامی بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دس لاکھ سے زائد ملازمتیں اور کام کاج کر رہے ہیں ( گویا ہر دوسرا افغان پناہ گزیں برسرِ روزگار ہے )۔ قادر بلوچ  کے بقول گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا  کا مشاہدہ درست ہے کہ افغان مہاجرین نہ صرف جرائم میں ملوث ہیں بلکہ خیبر پختونخوا کی معیشت اور ثقافت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
    اس ہاؤ ہو کے مابین حکومت نے ملک میں  قانونی  طور پر مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید 6 ماہ تک توسیع کردی ہے۔
    مگر کتنے افغان پناہ گزیں رجسٹرڈ ہیں ؟ خیبر پختونخواکے وزیرِ اطلاعات مشتاق غنی کہتے ہیں کہ ان کے ریکارڈ  کے مطابق صرف ایک لاکھ مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ ہم انہیں جبراً واپس نہیں بھیجیں گے مگر انہیں واپس جانا ہوگا۔
    پاکستان کے بعد سب سے زیادہ افغان پناہ گزین ایران میں مقیم ہیں۔مگر ایرانیوں نے انہیں شروع دن سے کیمپوں تک محدود رکھا   ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی اور باقاعدہ دستاویزی ریکارڈ  مین ٹین  کیا۔لہذا تہران سے ان پناہ گزینوں کی بابت بھانت بھانت کے سرکاری بیانات بہت کم سنائی دیتے ہیں۔
    کیا پاکستان کی کبھی کوئی افغان پناہ گزیں پالیسی تھی یا ہے ؟ کیا پاکستان میں کسی کو معلوم ہے کہ کل کتنے پناہ گزیں ہیں اور جو کیمپوں میں نہیں وہ کہاں کہاں ہیں۔اگر رجسٹریشن کا ریکارڈ دیکھا جائے تو شاید5 لاکھ بھی نہ ہوں۔اگر بیانات سے اندازہ لگایا جائے تو شائد اٹھارہ سے 25 لاکھ کے درمیان ہوں۔ان میں سے کتنوں کے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بن چکے ہیں ؟ وہ کیا کیا کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں ؟
    جو ریاست پچھلے18 برس میں اپنے ہی شہریوں کی مردم شماری نہ کر سکی ہو وہ غیرملکیوں کی گنتی کیسے کرے گی ؟ جب پوری ریاست ہی اندازوں ، تخمینوں ، غالباً ، شاید جیسے الفاظ پر چل رہی ہو تو کس بیان کو پالیسی بیان اور کس حکمتِ عملی کو سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے ؟
    شروع شروع میں جب افغان مہاجرین آئے تو انہیں مہاجر و انصار اخوتی جذبے کے تحت کیمپوں میں ٹھہرایا گیا۔مگر جو موٹی آسامیاں تھے انہیں پشاور اور گرد و نواح میں کاروبار کی بلا روک ٹوک اجازت دی گئی۔پشاور کی یونیورسٹی روڈ کی آدھی دوکانوں پر دری زبان میں سائن بورڈ نصب ہوگئے۔یونیورسٹی ٹاؤن میں کرائے کا مکان کرائے سمیت مقامی پشاوری  کی اوقات سے باہر ہو گیا۔پھر یہ پناہ گزیں اندرونی علاقوں میں پھیلنے لگے۔ہزارہ ڈویڑن میں مقامیوں سے جنگلات کی کٹائی پر چھٹ پٹ جھڑپوں کی اطلاعات آنے لگیں۔مقامی باشندے دبی دبی زبان میں ان مہمانوں کو بوجھ کہنے لگے۔مگر کھل کے بات کرنے کا رواج اس لئے نہیں تھا کہ ضیا الحق سرکار کے لئے یہ پناہ گزیں اور ان کے کیمپ وہ شو کیس تھے جن میں رکھے گئے مظلوموں کو دکھا دکھا کر غیر ملکی مہمانوں سے ہمدردی اور ڈالری امداد طلب کی جاتی اور پاکستان کے جذبہِ انسانی ہمدردی ، اخوت و خیرسگالی کے قصیدے اسٹیبلشمنٹی کانوں کو بھلے لگتے۔
    ازقسمِ ولی خان و اجمل خٹک ٹائپ لوگ جب ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے اور کیمپوں سے باہر بسنے بسانے کے عمل پر چیں بہ جبیں ہوتے تو انہیں ملک دشمنی و غداری  و سرخ ایجنٹی  کے طعنے ملتے۔
    پھر یوں ہوا کہ بادلوں کے پیچھے سے سورج نکل آیا۔مداری تماشہ دکھا کے روانہ ہوا۔افغان مہاجرین کی امدادیانہ و خیر سگالیانہ افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ اچانک سے محسوس ہوا کہ یہ تو بوجھ ہیں ، جرائم پیشہ ہیں ، دھشت گرد ہیں ، مفتے ہیں۔
    آج اہلِ حکومت ان پناہ گزینوں کی شان میں وہ وہ ہجو پڑھ رہے ہیں کہ ضیا الحق کے ہوتے پڑھتے تو اسلام و مسلمان و برادر افغان دشمنی کی پاداش میں راندہ ِ درگاہ ہوتے۔یہی تو وہ لوگ ہیں جو کل تک افغانوں کی جوق در جوق آمد کو قومی مفاد کہہ رہے  تھے اور آج ان پناہ گزینوں کی جلد از جلد واپسی کو قومی مفاد میں بتا رہے ہیں۔
    افغان پناہ گزینوں کی بکثرت واپسی کے لئے سب سے بہترین وقت 6 سالہ طالبان حکومت کا پرامن دور تھا۔مگر ان چھ برسوں میں مدارس کے طلبا ء کو تو افغانستان جاتے دیکھا گیا البتہ پناہ گزینوں کو ’’ دارلسلام ’’  کی جانب لپکتے کسی نے نہ دیکھا۔ہ جو اس دارلسلام  کا سیاہ و سفید چلا  رہے تھے خود ان  کے خاندان بھی پاکستان میں ہی ٹکے رہے اور ہیں۔
    ان حالات میں آپ بھلے اپنا چہرہ کتنا بھی کرخت کرلیں ، واپسی کی کتنی ہی ڈیڈ لائنز دے دیں ، قیام کی مدت میں توسیع کریں نہ کریں۔آپ میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ افغان چھوڑ کسی برمی یا سری لنکن کو ہی بھیج سکیں۔
      مثال ہے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -جناح کی تصویر پر ہنگامہ

شیئر:

متعلقہ خبریں