Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”للو پتو “جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ،آسان نہیں

صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
جھوٹ کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً سفید اور کالا جھوٹ،زبردستی بولا جانے والا جھوٹ، جان بوجھ کر بولا جانے والا جھوٹ، للو پتو والا جھوٹ ۔ اسی طرح کچھ مثالیں اور محاورے بھی جھوٹ سے متعلق پائے جاتے ہیں جیسے جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے۔ جھوٹے کا منہ کالا، جھوٹ بولے کوا کاٹے وغیرہ وغیرہ۔
اکثر لوگ ”سند یافتہ دروغ گو“ ہوتے ہیں اور اس حربے یعنی جھوٹ کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ افراد اتنی مہارت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سننے والے کو سچ کو گمان ہوتا ہے۔ بعض لوگ انکساری سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور سب سے بڑا جھوٹ یہی ہوتا ہے ۔وہ زیادہ دیر اپنے کہے پر عمل نہیں کر پاتے۔ ہمارے معاشرے میںجھوٹ کابول بالا دیکھ کر بے چارا سچ کہیں دور کھڑا افسوس بھری نظروں سے جھوٹوں کا انجام سوچ کر ڈرتا رہتا ہے۔ ایک شخص نے اپنے ضمیر کو مخاطب کرکے اس سے کہا کہ میں عزم کر چکا ہوں کہ میں اس معاشرے میں سچائی اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزاروں گا۔ ضمیر نے انتہائی تحمل سے کہا کہ اچھی بات ہے ۔اس معاملے میں تمہیں کسی رکاوٹ یا مقابلے بازی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
دیکھا جائے تو آج کل جھوٹوں کا مقابلہ جھوٹ بولنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ سچ کے آگے ٹکنا ذرا مشکل ہوتا ہے پھر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ سچی بات کڑوی ہوتی ہے جو نگلی نہیں جاتی مگر ہمارے ہاں ایسے صاحبان کمال ٹائپ لوگ بھی ہیں جو سچ کو جھوٹ بنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ کچھ لوگوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ جب تک ان کی خوشامد اور جھوٹی تعریف نہ کی جائے ،وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے، خاص کر افسران بالا ۔ سفارش اور جھوٹی تعریف کے ذریعے بڑے بڑے کام منٹوں میں ہوجاتے ہیں۔ جھوٹی خوشامد، للو پتو کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ لوگ بڑے باہمت اور صابر ہوتے ہیں۔ اس لئے جھوٹی تعریف کرتے ہوئے ذرا محتاط بھی رہنا پڑتا ہے کہ کہیں اگلے کو شک نہ ہو جائے اور بنا بنایا کام بگڑ کر رہ جائے۔ اب کیا کریں زمانہ ایسا آگیا ہے کہ ہر جگہ جھوٹ ، چاپلوسی ، خوشامد نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ چاہے نجی میڈہو یا سرکاری ،نجی محکمے ہوں یا سرکاری، اب تو ادبی دنیا میں بھی جھوٹ نے اپنے قدم جما لئے ہیں اور جہاں تک ہمارے ہاں کی الزامات در الزامات کی سیاست ہے تو اس کی بنیادیں توجھوٹ پرہی قائم ہیں۔ یہاں تک کہ اب جھوٹ اور خوشامد سے اسپتال بھی محفوظ نہیں۔ 
اکثر یہ سنا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے مگر اب لوگ جھوٹ بھی فیشن سمجھ کر بولتے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی عجب ہے کہ ہر آدمی دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے پرتلا ہوتا ہے جبکہ خود بھی پیٹ بھر کر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تواس شعبے میں اتنے ماہر ہیں کہ جھوٹ کو سچائی کے ریپر میں لپیٹ کریوںپیش کرتے ہیں کہ سننے والا ان کو سچائی کا پیکر سمجھنے لگتا ہے۔
ماضی میں کہا جاتا رہا ہے کہ ”جھوٹ بولے، کوا کاٹے۔“گئے وقتوں کے کوے واقعتا جھوٹ بولنے والے کو کاٹتے تھے کیونکہ اس وقت ”بائٹ ایبل“یعنی کاٹنے کے قابل لوگوں کی تعداد بھی محدود ہوتی تھی۔ آج کل کا عالم یہ ہے کہ کوے بے چارے کم ہیں اور دروغ گو زیادہ، اب وہ ننھی سی جان کس کس کو کاٹے۔ان حالات میں کووں نے چھوٹوں کو کاٹنے کی جاب ترک کر دی ہے۔ ہمارے ہاں بعض سیاست داں ایسے بھی ہیں جنہوں نے جھوٹ بولنے کا بیڑا اٹھارکھا ہے۔ ان کے بیانات محض جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتے ہیں۔ ملک سے کرپشن ، مہنگائی ، غربت ، دہشت گردی ، جلد ختم کر دیں گے۔ اتنے جھوٹ بولتے ہوئے یہ لوگ احتیاطاً اپنی آنکھوں پر سیاہ چشمہ ضرور چڑھالیتے ہیں تاکہ کہیں ان کی آنکھوں سے جھانکتا جھوٹ نہ پکڑا جائے۔ ویسے بھی جھوٹ اتنی آسانی سے پکڑا نہیں جاتاکیونکہ اس کے پاﺅں نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے جھوٹے پکڑ میں نہیں آتے۔
پہلے دفتروں میں کام کا رواج تھا، اب وہاں بھی للو پتو اتر آئی ہے۔ میوزک کے بعد اگر کسی چیز نے کانوں میں رس گھولا ہے تو وہ للو پتو ا ور جھوٹی تعریف ہی ہے۔اس کے سراتنے سریلے ہوتے ہیں کہ اس کی لے پر لاپروا افسران خوب جھومتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے میڈیا پر سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے کیونکہ آج کے دور میں جھوٹ بولنا فیشن بن چکاہے او رلوگ اس فیشن شو کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔ مارننگ شو میں زیادہ ترخاتون ہی میزبان ہوتی ہیں ۔ ان میزبان خاتون کی تیاری پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوں سے زیادہ اور ذرا ہٹ کر ہوتی ہے ۔ ایسے پروگراموں میں جب کوئی فون کرتا یا کرتی ہے تو وہ سوال کم اور میزبان خاتون کے زیورات اور لباس کی تعریف زیادہ کرتی ہے۔ 
اشتہارات کی دنیا میں بھی کسی پراڈکٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے اس کی بے جا تعریف کے لاتعداد پل باندھے جاتے ہیں۔ شوبز کی دنیا بھی خوشامدی اور سفارشی لوگوں سے بھری پڑی ہے اور لوگ اپنی جھوٹی تعریف سے ویسے ہی چاروں خانے چت ہو جاتے ہیں۔ جھوٹی تعریف اور خوشامد کو لوگ معمول سمجھتے ہیں ۔ گاہے اسے آکسیجن کا درجہ بھی دیا جا تا ہے بلکہ جھوٹی خوشامد اور تعریف کو ضرب المثل کے ذریعے بھی ظاہر کیا گیا ہے مثلاً جتنا گڑ ڈالو، اتنا میٹھا ہوگا اور گڑ نہ دو گڑ جیسی بات تو کرو ۔
کچھ لوگ ایسے ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں جن پر خوشامد اور تعریف کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا کہ جب تک ان کی مٹھی گرم نہ کی جائے وہ چاہے سرکاری محکمے ہوں یا بڑے اسپتال ۔ بس یہاں ذاتی تعلقات اور پیسہ پھینک تماشا دیکھ والا معاملہ ہوتا ہے۔ بہانے گھڑنے اورجھوٹ بولنے کا سب سے زیادہ کریڈٹ لینے والی ہستی بھی مردانہ ہی ہوتی ہے۔ خواتین اس ”اعزاز“ سے محروم ہی ہیں۔ ایسے مرد حضرات کو اگر جھوٹ ایجاد کرنے کی مشین کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کا سب سے بڑا جھوٹ اور لطیفہ وہ ہوتا ہے جب وہ کسی خاتون کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ تم میرے لئے سب کچھ ہو اور میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری عورت تم ہی ہو۔
ایسی مرد ڈرامہ کرنے کے بڑے ماسٹر ہوتے ہیں کیونکہ وہ فلمیں ،ڈرامے زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں جو ویسے ہی جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں۔ فلموں کے ڈائیلاگ یہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں اور اس کے سہارے ایک چھوڑ چار چار شادیاں رچا لیتے ہیں۔مثلاً درجن بھر بچوں کے والد کسی دوسری عورت کوجھانسہ دینے کی غرض سے اپنی جھوٹی دکھ بھری کہانی اس طرح سناتے ہیں کہ بیوی سے انڈراسٹینڈنگ نہیں یا یہ کہ تم میری آئیڈیل کی مانند ہو ۔غرض جھوٹ بول کر اپنا مقصد حاصل کرنے اور خود کو مظلوم اور معصوم بنانے میں ان کو خاصا کمال حاصل ہوتا ہے۔ بیوی کے دماغ کو مطمئن کرنے کیلئے یہ کافی بہانے گھڑ لیتے ہیں اور بوقت ضرورت ان بہانوں کااستعمال کرنے کے فن میں بھی طاق ہوتے ہیں۔
 

شیئر: