Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان المبارک کی آمد پرمدینہ منورہ میں ”سحری جگا ے “ والا گلی گلی گھومے گا

مدینہ منورہ ...... رمضان المبارک کی آمد پر مدینہ منورہ میں سحری جگانے والا“ گلی گلی گھومے گا۔ مملکت سمیت عرب دنیا کے بیشتر علاقو ںمیں اسے کہیں ”مسحرا تی“ اور کہیں ”ابو طبیلہ“ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ تمام مسلم ممالک میں سحری جگانے والے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ اسے رمضان المبارک کی پہچان مانا جاتا ہے۔ ہر جگہ سحری جگانے والے مخصوص قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں مملکت میں ”اصحی یانایم.... السحور یانایم“ اونچی آواز میں کہتے اور طبلہ بجاتے ہوئے گلی گلی گھومتا ہے اس کے معنی ہیں (اے سونے والے اٹھ جا، سحری کا وقت آچکا ہے، سونے والا اٹھ جا) سعودی عرب میں سحری جگانے والا طبلہ استعمال نہیں کرتا تھا اس کا زیادہ تر رواج مصر اور دیگر عرب ملکوں میں بھی ہے۔ پاک و ہند میں بھی اس کا رواج ہے۔ سعودی عرب میں سحری جگانے والا ڈنڈے سے دروازہ کھٹکھٹا کر سحری کیلئے جگاتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے سحری جگانے والے نے طبلے کا استعمال مصر میں کیا۔ اسلامی تاریخ میں سحری کیلئے جگانے والی سب سے پہلی شخصیت موذن رسول حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن ام مکتوم کی ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ، سحری تناول کرتے اور اسکے بعد دوسری اذان سحری کی بندش کیلئے دیا کرتے تھے۔ سب سے پہلے سحری کی ندا لگانے والے عنبس ابن اسحاق ہیں۔ وہ الفستاد کے العسکر مقام سے پیدل عمرو بن العاص جامع مسجد جایا کرتے تھے ۔ سحری کے لئے جگاتے اور کہتے ”کہ اللہ کے بندوں سحری کرو، سحری میں برکت ہے“۔ سلطان ظاہر بیبرس پہلے سلطان ہیں کہ جنہوں نے مملوکیوں کے عہد میں سحری جگانے والے رواج کو سرکاری شکل دیکر نوجوان اس کام پر مامور کئے تھے۔ الحاکم بامر اللہ نے فاطمی دور میں سحری جگانے کا کام بعض فوجیوں کے حوالے کردیا تھا۔ مراکش میں سحری جگانے والا دروازوں پر ڈنڈے سے کھٹکھٹاتا ہے ۔ شام میں دینی نغمے کے ساتھ طبلہ بجا کر سحری کیلئے جگاتا ہے۔ اب اس کا رواج دنیا بھر میں محدود ہوتا جارہا ہے۔

شیئر: