Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان بہت خوبصورت ہے،بس توجہ کی ضرورت ہے، ستارہ صبا

زینت شکیل۔جدہ
مالک یوم الدین نے جب اشرف المخلوقات کو تخلیق کیا تو اسے یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسکی رہنمائی کے لئے پیغمبروں کو بھیجا جو وحی کے ذریعے نازل شدہ آسمانی صحیفے پڑھ کر اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ۔خاتم الانبیا محمد کی امت سب سے خوش نصیب ہے کہ اسے کم عبادت میں زیادہ ثواب ملتا ہے پچاس وقت کی نماز پانچ وقت کی نماز کی فرضیت میں ڈھل گئی ۔نماز کی پابندی دین ودنیا کی فلاح کی کنجی ہے۔ 
یقین وہ قوت ہے جو کسی بھی ضعف کو طاقتور بنادیتی ہے ۔ کسی بھی قوم کی بے یقینی اسے کمزور بنادیتی ہے ۔کام خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے انجام دینے سے پہلے مالک حقیقی سے مدد مانگنی چاہئے ۔ دعا اور کوشش جاری رکھنی چاہئے اور نتیجہ قسمت پر چھوڑ دینا چاہئے ۔
اس ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوزکے مہمان فہیم خان اور انکی اہلیہ محترمہ ستارہ صبا ہیں۔ ستارہ صبا اسم بامسمیٰ ہیں۔ علامہ اقبال کی لکھی دعا :
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
 زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 
جناب فدا حسین اور انکی اہلیہ محترمہ ممتاز بی بی نے بہت سوچ سمجھ کر اپنی صاحب زادی کا نام رکھا کہ جس نام سے انہیں پکارا گیا ،
 وہی صفت ان میں پنپتی رہی۔ستارہ کی مانند انکی شخصیت ہے کہ جہاں جاتی ہیں، بہترین اخلاق کے پھول کھلتے ہیں۔ لوگوں کو ایک خوش اخلاق شخصیت سے گمبھیر سوالات کے جوابات بھی آسان ملتے ہیں۔ کسی چیز کو مشکل کرکے بتانا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا اور کسی مشکل سوال 
 کو آسان کر کے ایسے سمجھانا کہ سوال پوچھنے والا سمجھ جائے، یہی دراصل بہترین طرز تدریس ہے ورنہ ڈگری تو ہر کسی کے پاس ہوتی ہے ۔
 تعلیم سے جو کچھ سیکھا ،اسے دوسروں تک منتقل کرنا اصل بات ہے۔ نام کا دوسرا حصہ بھی خوب افادیت کا حامل بنا ۔پردیس میں رہ کر اس 
 نکتے کو جانا کہ عربوں کی زبان چونکہ عربی ہے تو انہیں اپنی زبان میں مذکور احکامات جاننے میں آسانی ہوتی ہے۔ تلاوت بھی بہترین مخارج کے ساتھ ان کے لئے آسان ہے لیکن ایسا کیا کیا جائے کہ غیر عربی بھی اسی طرح درست مخارج سے قرآن کریم پڑھ سکیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ بچپن میں کسی اچھے قاری سے ناظرہ قرآن کریم پڑھوایا جائے کیونکہ بڑے ہونے کے بعد اپنے تلفظ کو درست کرناذرا مشکل ہوتا ہے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوے ستارہ صبا نے تجوید کی کتاب ترتیب دی جس سے طالب علموں کو یقینا فائدہ پہنچے گا ۔
ایک استاذہ نے اپنے کئی سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ دلچسپ بیان دیا کہ غیرعربی، تجوید کے تمام قواعدتو یاد کرلیتے ہیں لیکن جب قرا¿ت کرتے ہیں تو الفاظ کی ادائیگی اور مخارج میں درستگی نہیں ہوتی ۔دوسری طرف عربی زبان بولنے والوںکی قرا¿ت توبہترین ہوتی ہے۔ مخارج بھی درست ہوتے ہیں لیکن اگر ان سے یہ سوال پوچھ لیںکہ یہاں پر کونسے قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے تو وہ اس کا جواب نہیں بتا سکتے۔
اسے بھی پڑھئے:خرم کی محبت نے سسرال کا احساس نہیں ہونے دیا، عمارہ
محترمہ ستارہ صبا نے انگریزی کے ساتھ نفسیات بھی پڑھی ہے اس لئے انہیں اپنی فیلڈ میں بہت آسانی ہوئی ہے ۔ستارہ صبا کا تعلق سوات سے ہے اور انکے والد پولیس ڈپارٹمنٹ میں ایس پی کے عہدے پر تعینات رہے ۔انہوں نے وکالت بھی کی۔ والدہ گھریلو خاتون ہونے کی حیثیت میں بہترین منتظم رہیں۔بچوں کی تربیت اس انداز سے کی کہ پہلے وہ اسلامی طرز معاشرت سیکھیں پھر تعلیم کے حصول کے لئے کہیں بھی جائیں۔ گھر کی تعلیم و تربیت انکی شخصیت کو ٹھوس بنائے رکھے گی ۔ چونکہ والد صاحب لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے تعلیم کو ضروری خیال کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام بھائی بہن اعلی ٰتعلیم یافتہ ہیں ۔ ہمارے دونوں بھائیوں نے ماسٹرز کی ڈگری کی اور آج وہ معروف جگہوں پر اعلیٰ منصب پرفائز ہیں۔ والدین کی محبت اور کوشش کی وجہ سے پانچوں بہنیں بھی تعلیم کو جاری رکھنے میں کامیاب رہیں۔ دو بہنیںڈاکٹر بنیں جبکہ اوروں نے ماسٹرز کے بعد جامعہ میں درس و تدریس کا شعبہ اپنایا۔ ذہن میں یہی خیال رہا کہ یہ ایسا اہم شعبہ ہے کہ جس میں طالب علموںکو علم کی روشنی سے منور کرنے میں بے حد صبر و برداشت سے کام لینا ہوتا ہے اور دراصل تربیت کا وقت بھی وہی طالب علمی کا زمانہ ہوتا ہے تو ذمہ داری دہری ہوجاتی ہے لیکن دوسری طرف یہ دل کو اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے اچھا مشغلہ اور سب سے اچھی مصروفیت مفید تعلیم حاصل کرنا اور لوگوں تک پہنچانا ہے ۔یہ سلسلہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔ 
ستارہ صبا نے بتایا کہ بیچلرز کے بعد انٹرنیشنل اسلامک سینٹر فار ویمن سے ایک سالہ کورس کیا جس میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر، احادیث طیبہ و دیگر علوم نیز عربی گرامر وغیرہ شامل ہیں ۔
شادی کے بعد مملکت آنا ہوا اور یہاں بھی پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری ہے ۔فہیم خان صاحب بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ہیں اور
 ایک معروف کمپنی کے فنانس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ سسرال میں سب بہت خیال رکھنے والے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔ سسر صاحب ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ جیٹھ ایئر کموڈور ہیں۔ ستارہ کا کہنا ہے کہ علم سیکھنے اور آگے پہنچانے کے سفر میں انکے والدین کے بعد انکے سسرال اور خاص طور سے شوہر نے بہت ساتھ دیا۔ بچے اسکول جانے کے قابل ہوئے تو تجوید کے بہت ممتاز مدرسے سے تمام لیولز مکمل کرنے کے بعد وہاں پر پڑھایا ۔ 
محترمہ ستارہ صبا کا کہنا ہے کہ ہمارا وطن پاکستان بے حدخوبصورت ہے ۔ بس ذرا توجہ کی ضرورت ہے۔اگر ایسا ہو جائے تو دنیا بھر سے جو سیاح آتے ہیں ان کی تعداد میں صد فیصد اضافہ ہوجائے گا کیونکہ انسان اپنے ارد گرد کی چیزوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے ۔تعلیمی ادارے بھی ذہانت کی آبیاری کرتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کائنات کی سیاحت سے ایسے ہی سبق سیکھتا ہے جیسا کہ قدرت نے ہزاروں راز اس میں پوشیدہ کر رکھے ہیں اور انسان جب فطرت کے قریب بہترین ماحول میں وقت گزارتا ہے تو ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسے اس نے ایک نئی دنیا جان لی ہو۔
ستارہ صبا ساحبہ نے اپنی استاذہ کا ذکر بہت احترام سے کیا اور انکی والدہ کا بھی کہ وہ بھی دینی تعلیم کے ادارے سے منسلک تھیں اور امتحانات میں خوب محنت سے پیپر دیتی تھیں اور جب امتحان گاہ سے واپسی ہوتیں تو اور طالبات سے بھی معلوم کرتیں کہ فلاں سوال کا کیا 
 جواب تھا اور پھر اطمینان کرتیں کہ مجھے بھی یہی آپشن صحیح لگا تھا یعنی میرا بھی جواب درست ہوا ہے ۔ 
دینی تعلیم کے حصول میں اپنی ساس صاحبہ کی لگن اور ذوق و شوق کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ساسا محترمہ نے بھی ارادے ادارے کے مین کیمپس میں داخلہ لیا اور مجھ سے ملاقات بھی وہیں ہوئی۔ اس طرح اب ہم دونوں ہی اسٹوڈنٹس بن گئے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسا سمجھنے لگے کہ اب اتنی عمر گزر گئی، اب پڑھ کر کیا کریں گے تو وہ ہمت ہار دیتا ہے لیکن جب سوچ یہ ہو کہ ہم اپنی آخری سانس تک اپنا کام کرتے رہیں گے تو پھر نہ ہم اپنے آپ کو بیمار سمجھیں گے اور نہ ہی دن رات موت کا انتظار کریں گے بلکہ ہماری سوچ یہی ہوگی کہ رب کریم کی طرف سے جتنا وقت ہمیں ملا ہے، ہم اس کو کارآمد بنائیں گے ۔
ہم بھائی بہنوں میں دوستی خوب ہے۔ وہ ہمارے وطن آنے کا پوچھتے ہیں اور اکثر اپنے ملک کے شمالی علاقوں کی سیر کا پروگرام بنالیتے ہیں۔ ہمیں یہ خوبصورت ملک مالک حقیقی کی طرف سے نعمت کے طور پرملا ہے ۔ ہم رب کریم کاجتنا بھی شکر ادا کریں، وہ کم ہے ۔
بچوں کو قصے کہانیاں سنانے کی بات چلی تو ستارہ صبا کہنے لگیں کہ میںبہت شوق سے بچوں کو کہانیاں سناتی ہوں اور اکثر ان میں ہمارے بزرگوں کی سچی کہانیاں شامل ہوتی ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ ترجمہ بھی معلوم ہو۔جو سائنس آج دنیا میں ایجادات کی صورت نظر آرہی ہے وہ ہماری ہی کتاب کی معلومات سے لی گئی ہے۔آج تک کوئی دوسرا طریقہ ایجاد نہیں ہواکہ اناج کو کیسے کئی سالوں تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور اس کاجواب سورہ یوسف میں ہے کہ اناج کے دانے کو اس کے خوشے میں ہی چھوڑدو۔ یہ طویل دورانیے کے لئے محفوظ رہے گا۔
ایک مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ عطا فرمائی گئی اور کھجور کے درخت کی خاصیت یہ ہے کہ دنیا کے ہر پھول پودے کے درخت کے پتے جھڑتے ہیں لیکن کھجور کا درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے کبھی نہیں جھڑتے ۔
  فہیم صاحب کا گھرانہ کوئٹہ میں ہے تو اب ستارہ صبا کو ایک اور خوبصورت علاقہ رہائش کے لئے ملا جو انہیں پسند بھی بے حد آیا۔ شادی بیاہ کی رسمیں پسند بھی ہیں اور یادگار بھی کہ سب مہمانوںکی ان پرلطف رسوم میں شرکت دو خاندانوںکی خوشی کا باعث ہوتی ہے۔
فہیم صاحب چونکہ اکاﺅنٹس سیکشن سنبھالتے ہیں اس لئے سمجھتے ہیں کہ تینوں بچوں کی تربیت کی زیادہ ذمہ داری ستارہ صاحبہ پر ہے اور وہ بہت اچھے طریقے سے یہ ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ بچو ں کی تربیت میں انکے ابتدائی چند سال اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انکی شریک حیات چونکہ خود دینی تعلیم حاصل کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لئے محنت کرتی ہیں تو یہ ماحول بچوں کے لئے خود بخود تربیت کا موجب بنتا ہے۔ بچوں کی فرمائش بھی پوری کی جاتی ہے ۔ کئی ممالک کے کھانے اب گھروں میں آسانی سے تیار کر لئے جاتے ہیں لیکن ستارہ صاحبہ اس بات کی سختی کرتی ہیں کہ پلیٹ میں کھانا لیکر نہ چھوڑیں کیونکہ رزق کا بہت احترام ہوتاہے ۔ ایک دانہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
دونوں بیٹے اسماعیل،براہیم اور بیٹی مریم اپنی اپنی پسندیدہ چیزیں فرمائش کرکے بنواتے ہیں لیکن مریم کو فروٹ چاٹ سب سے زیادہ پسندہے ۔
ستارہ صاحبہ سے ادب پر بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ انہیں زیادہ تر ایسے مصنفین پسند ہیں جنہوں نے مالک حقیقی کو پہچانا اور لوگوں کو اس سوچ کی طرف لائے۔ ہم سب نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں پڑھا ہے کہ انکے ایک بیٹے یوسف علیہ السلام کو ان کے سوتیلے بھائی شیطان کے بہکاوے میں آکر اندھے کنویں میں ڈال آئے کیونکہ حسد اور رقابت کا شکار ہوگئے تھے لیکن گھر کے تمام افراد ایک ساتھ رہے جو بعد میں ملے۔ کتنے ہی مصنفوں کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگاکہ انکی زندگی جتنی بھی تلخ ہو ،گھر نہیں توڑتے۔ ابھی جان ڈون کا خیال آگیا تو اسی کی مثال لے لیجئے۔ اس شاعر کے وہ تمام اشعار مشہور ہوئے جو اس نے اپنی شریک حیات کے لئے لکھے تھے ۔ وہ حقیقتاً حیات جاوداں کے حامل ہوگئے۔
محترمہ ستارہ صبا نے نئی نسل کے لئے پیغام میں کہا کہ آج کی نئی نسل کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ آپ اپنے گھر کو معمولی باتوں کی وجہ سے توڑ رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ آپ کی آنے والی نسل آپ کو کتناقصوروار سمجھے گی؟

شیئر: