Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگاترین الیکشن

***غلام مرتضیٰ باجوہ ***
پاکستان کے 11ویں عام انتخابات کا نعقاد25جولائی 2018ء کو ہوگا جس میںتقریباً 1050کے قریب صوبائی وقومی نشستوں پر 50ہزارکے قریب امیدوارحصہ لیں گے ۔سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اس بار آزاد امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہوگااور یہ عام انتخابات 2018ء ملکی تاریخ کا مہنگاترین الیکشن ہوگا جس پر21سے 29ارب روپے خرچ ہوسکتے ہیں ۔انتخابات کا انتظار سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ عام ووٹرزکو بھی ہوتا ہے کیونکہ عام انتخابات میں ووٹروں کو اپنے سیاسی امیدوارکاخوش قسمتی سے دیدار بھی ہوجاتاہے ۔اس کے علاوہ ووٹروں کے پاس کوئی خاص بات بھی نہیں ہوتی کیونکہ حکمرانوں کی جانب سے اعلان ،بیانات تو ہرروز اخبارات ، ٹی وی چینل پر وہ سن سکتے ہیں ۔
اگربات کی جائے عام الیکشن کے بعد ملکی ترقی تواس بات میں توکوئی شک نہیں کہ حکمرانوں نے قیام پاکستان لیکر آج تک بے شمار کارنامے سرانجام دیئے ہیں جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔1948ء میں پاکستانی روپیہ کی قیمت امریکی ڈالر کے برابرتھی اور وطن عزیزبیرونی قرضوں سے پاک تھا اور اب دنیابھر کے مقروض 203ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر55ہے ۔پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 268 کھرب 15 ارب روپے کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں ۔1951میں پاکستان میں ہر شخص کو سالانہ 5260کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو 2016میں کم ہوکر 900کیوبک میٹر تک محدود ہوگیا ہے۔ اگر حکومت نے پانی کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو 2035تک فی کس پانی کی دستیابی کی شرح کم ہوکر 500کیوبک میٹر تک رہ جائے گی ۔ملکی بڑھتی ہوئی مجموعی آبادی اور پانی کی قلت مستقبل میں خوفناک مسائل پیدا کرسکتی ہے۔پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی ’’بے دریغ‘‘ کٹائی ہے اور پاکستان سالانہ 42 ہزار ایکٹر جنگلات سے محروم ہو رہا ہے۔
جب سے پاکستان بنا ہے ہر دور میں تعلیمی پالیسیوں کا اجرا ہو ا لیکن کوئی بھی حکومتی پالیسی نہ تو تعلیمی میعار کو بہتر بنا سکی اور نہ ہی کوئی بہترین نظام تعلیم مرتب کر سکی۔ آج اب یہ حالات ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہونے لگا ہے جہاں پہ تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے اور جہاں اسکول جانے کی عمر کے 70 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں کو نہیں پہنچ پاتے۔ آنے والا وقت ابھی سے اس مسئلے کی مزید سنگینی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔صحت کے حوالے سے 2016ء میں ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ’’رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز‘‘ نے ہسپتالوں کی رینکنگ جاری کی ، جس میںپاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیںتاہم جنوبی ایشیا کے 20 بہترین ہسپتالوں میں ہند کے 19 اور بنگلا دیش کا ایک ہسپتال شامل ہے جبکہ پاکستان کا سی آئی ڈی پی انٹر نیشنل فاؤنڈیشن جسے پاکستان کا درجہ اول کا ہسپتال مانا گیا ہے ،جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں میں 22ویں نمبر پر ہے، جناح میموریل ہسپتال 28ویں نمبر پر جبکہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی 29 ویں نمبر پر ہے۔اسلام آباد کا شفا انٹر نیشنل 45 ویں نمبر پر جبکہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال 48 ویں نمبر پر ہے۔ اسلام آباد کا’’ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ یعنی پمز دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں رینکنگ 5 ہزار 911 نمبر پر رہی ہے۔
پولیس اور عدالتی نظام سے قوم مایوس ہوچکی ہے بد قسمتی سے ہمارے سیاسی و مذہبی رہنمائوں پر مختلف مقدمات درج ہیں مگر ان کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیے جانے کے سمن جاری ہوتے ہیں مگر وہ ملک میں رہتے ہوئے حاضر نہیں ہوتے اور عدالت ان کو اشتہاری قرار دے ان کی فائل کو بند کر د یتی ہے مگر افسوس کہ آج گھریلوں معاشی حالات سے تنگ آکر چھوٹے چھوٹے جرائم کرنے والوں سے ملک بھر کی جیلیں بھری پڑی ہیں ۔بہت سے بے گناہ لوگ جیلوں میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ضیاع کر رہے ہیں جس سے ان کی فیملیاں بھی متاثر ہورہی ہیں ۔اگر بات کی جائے جمہوریت کی تو اکثر جمہوری ممالک میں ووٹرز کی ترجیحات اور اْمنگیں سیاسی جماعتوں کیلئے مشعل راہ کا کام کرتی ہیں اور انہیں پالیسی سازی میں معاونت کرتی ہیں۔ دنیا کے امیر ممالک میں، سیاسی جماعتوں کے منشور میں ٹیکس کی شرح میں 1یا2فیصد اضافے یا کمی یا سوشل پالیسی کے کسی مخصوص حصے پر خرچ کی جانیوالی فنڈنگ جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے لیکن وہ ممالک جہاں جمہوریت کا پودا لگے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو اور جہاں باربار اس پودے کی جڑیں بھی کاٹی جاتی رہی ہوں، وہاں پر پالیسی سازی اور سیاسی جماعتوں کے منشور ایک وسیع تر تناظر میں بنائے جاتے ہیں جن میں سماجی، معاشرتی اور سیاسی امور کو شامل کیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں اس وقت 345 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، جن میں 183 جماعتوں کو انتخابی نشانات الاٹ ہوئے ہیں تاہم قواعد و ضوابط پر پورا اترنے والی جماعتوں کی تعداد صرف 50 ہے جو انتخابات لڑنے کی اہل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرشہری ملکی ترقی کیلئے اپناووٹ کاسٹ کرکے اچھے اور ایماندارامیدوار کا چنائو کرے تاکہ پاکستان کو موجودہ بیمار اور نوسرباز سیاست سے بچایا جاسکے کیونکہ ایماندار اور سچاقائدہی قوم کو ترقی کی رہ پر گامزان کرسکتاہے ۔
 

شیئر: