Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارٹن گریوٹ اور مشروط امن

یکم جون2018جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے اخبار عکاظ کا اداریہ نذر قارئین ہے
    یمن کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی سعودی عرب پہنچ گئے۔یہ فروری میں ان کی تقرری کے بعد سے انکا تیسرا دورہ ہے۔ یہ دورہ ماضی کے ہر دورے سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی صفوں میں برق رفتاری کے ساتھ رونما ہونیوالی شکست و ریخت کے باعث زبردست تبدیلیوں کے ماحول میں ہورہا ہے۔ نئی صورتحال اقوام متحدہ کے ایلچی کو نئے زمینی حقائق سے نمٹنے کا چیلنج دے رہی ہے۔ ممکن ہے انہیں امن مذاکرات کا نیا دور شروع کرانے سے متعلق اپنے لائحہ عمل کے نقوش تبدیل کرنے پر آمادہ کرے۔ حوثی ،صنعاء اور پہاڑوں میں قائم محفوظ مراکز کے اندر محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہر طرف سے انکی ناکہ بندی کرلی گئی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حوثیوںکے سامنے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2216کی تعمیل ، ہتھیار حوالے کرنے، قیدیوں اور مغوی شخصیتوں کو رہا کرنے اور ایران وغیرہ ممالک سے رابطے منقطع کرنے پر مجبور ہونے کے سوا کوئی اور راہ نہیں رہ گئی ۔ حقیقی اور ٹھوس امن کے قیام کیلئے دھوکہ دہی اور مکروفریب کی سابقہ پالیسی سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔
    موجودہ مرحلے میں قیام امن کی ایسی کوئی بھی گفتگو جسے آئینی حکومت کے طے کردہ مطالبات پر عملدرآمد کے بغیر کیا جائے بے معنیٰ ثابت ہوگی۔بلا تعمیل گفت و شنید یمنی بحران کا ٹھوس حل ثابت نہیں ہوسکتی۔ یمن حوثیوں کے کینسر سے کافی کچھ بھگت چکا ہے۔ حوثیوں نے ناعاقبت اندیشی پر مبنی اقدام کرکے ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے لہذا اقوام متحدہ کا مذاکرات کار حوثیوں کیلئے ساحل نجات فراہم نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں:- - - -فلسطینی بھائیوں کی خاطر

شیئر: