Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزوۂ بدر ، محض دو لشکروں کا مقابلہ نہیں

گویا حق تعالیٰ معرکہ کو یقینی طورپر قائم کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے، اگر کفار کی نگاہوں میں مسلمانوں کی کثرت وقوت آجاتی تو شاید وہ راہِ فرار اختیار کرجاتے
 
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
’’ اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فناہوگئی تو پھر قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا‘‘
    یہ غزوۂ بدر کے وہ لمحات ہیں جہاں رسول اللہ کفار مکہ کے مسلح لشکر کو دیکھ کر باری تعالیٰ کے سامنے سر بسجود اپنا ماتھا رگڑ رگڑ کر  نصرت اور مدد کی دعاکررہے ہیں۔
    قریش ِ مکہ ایک ہزار کی تعداد میں ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہوکر مقام ِ بدر آپہنچے ۔مسلمان عدد میں ان سے بہت کم صرف313 کی تعداد میں تھے ۔ان کے پاس ہتھیار نہ ہونے کے برابر تھے ۔ان کے رسالہ میں صرف 2گھوڑے تھے۔باقی مجاہدین میں سے کسی کے پاس تلوار ہے تو نیزہ نہیں اور اگر کسی کے پاس نیزہ ہے تو تلوار ندار اور کچھ تو ایسے کہ جن کے پاس کوئی بھی اسلحہ نہیں۔
    یہ ہے وہ جماعت جو اُس لشکر کیخلاف نکلی جو ہر طرح کے ہتھیار سے لیس اپنے سرداروں اور شہسواروں کے ہمراہ اس جماعت کو ہمیشہ کیلئے نیست ونابود کرنے نکلی تھی جن کے بارے میں قریش یہ خیال رکھتے تھے کہ ان کی اکثریت انصار مدینہ کی وہ جماعت ہے جو جنگ کی ضروری مہارت سے عاری ایک کاشتکار قوم ہے ۔جو فنون ِ حرب سے نابلد ہے مگر پھر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ خدائی نصرت سے انہی لوگوں نے قریش کے سرداروں اور شہسواروں کو کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند بدر میں دفن کردیا۔
    غزوۂ بدر میں فتحیابی سے اسلامی تاریخ ایک نئی موڑ مڑتی ہے ۔ اس سے قبل مسلمان کسمپرسی،لاچاری اور اپنی جان بچانے کیلئے جائے پناہ ڈھونڈتے رہتے تھے اور آج سرداروں کے سر ان کے قدموں تلے پڑے ہوئے ہیں ۔ان کا مورال بلند اور پورے علاقے میں ان کا  دبدبہ اور رعب لوگوں کے چہروں پر عیاں نظر آرہاہے ۔
     اسلام کی تشریعی اور مسلم امت کی عمومی تاریخ میں آغازِ دعوت سے لیکر ترک وطن اور ہجرت مدینہ تک کا طویل عرصہ مسلسل صبر واستقامت اور عفو ودرگزر سے کام لینے والوں کو جب اعدائے ملت ودین کیخلاف قتل اور قوت کے استعمال کی اجاز ت حاصل ہوچکی مگر وہ تاحال ایسا ارادہ نہ رکھتے تھے ۔اس صورت حال میں اپنے محبوب ترین بندوں کے ارادوں کے بر خلاف محض خالق کی حکمت بالغہ کے تحت اس کی غیر مبدل سنت اور قدرتِ قاہرہ کا مظہرعظیم القدر رونما ہونے والے واقعہ ہی کا نام غزوۂ بدر ہے ۔
     قمری حساب سے 2ہجری،17رمضان المبارک اورمیلادی حساب سے13 مارچ 624کو یہ غزوہ واقع ہوا ۔ایمان وحق کا یہ معرکہ امت مسلمہ کیلئے کئی اہم دروس وعبر پر محیط ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ا س کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ کرتے چلیں ۔
    مسلمان جو کفار کی اذیتوں کی وجہ سے مکہ مکرمہ سے مہاجر ہوئے ،اپنے اعداء کی طرف سے پیش آنے والے مصائب پرانہیں عفوودرگزر کرنے کی تعلیمات ربانی تھیں۔ غزوۂ بدر ہی وہ پہلا معرکہ ہے جس میں مسلمانوں کیلئے شارع الحکیم کی طرف سے (تشریع) قانون بناکہ تمہیں ان سے لڑنے کی اجازت ہے تو چونکہ یہ مسلم امت کو اپنے دشمنوں سے قتال کی اجازت کے حکم کی پہلی عملی تطبیق کا مظہر تھا ،لہذا اسے غزوۂ بدر القتال کے نام سے بھی موسوم کیا ہے ۔ اس سے قبل کچھ خصوصی حالات میں مسلمانوں کا کفار سے ٹاکرا ہوا جو غزوۂ بدرصغریٰ کہلایا مگر اس معرکہ میں ٹاکرہ کی وجہ سے اسے غزوۂ بدر کبریٰ سے بھی موسوم کیا گیا ۔بزبانِ باری تعالیٰ اور بلسانِ رسول ذکر موجود ہے جس کی تفصیل کتب سیرت میں موجود ہے ۔مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ (ہر دو فریق باطن وظاہر اور اہداف ومقاصد میں مقارنہ مستقل موضوع سخن ہے جس کا یہ محل نہیں )۔
    قریش مکہ جو عداوت حق میں اپنے زمانہ کے سرغنہ تھے ،وہ دعوت ِ حق کو کسی بھی صورت پنپنے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔اپنے وطن اور اللہ کے گھر اور اس کے حرم محترم سے ہجرت کے باوجود کفر کے ان سرغنوں اور شر کے ان سرداروں کی ہمہ وقت کوشش اہل ایمان کی جماعت سے مسلسل عداوت ،ان کیخلاف سازش اور ان کی قوت کو توڑنے کی ہمہ وقت تدابیر ان کا ہدف اولین تھا ۔ان احوال میں شر وشیطان کی اس جماعت کی قوت وشوکت کو توڑنا ،انہیں مادی طورپر کمزور کرنا ،سیاسی طورپر غیر مستحکم بنانا ۔یہ اہل حق کا حق تھااسی لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کے تجارتی قافلہ کا جہتِ شام سے ابوسفیان کی قیادت میں واپسی کا علم ہوا،یقینا یہ قریش کے مادی استحکام اور ان کی عسکری قوت کیلئے سرمایہ کاذریعہ تھالہذا مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے اور اس سے تعرض کا ارادہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ اس وقت کو یاد کرو جب تم سے اللہ وعدہ کررہاتھا 2جماعتوں میں سے ایک کا کہ یقینا ایک تمہارے لئے ہے اور تم چاہ رہے تھے کہ کانٹے والا نہ ہو ،وہ جماعت تمہارے لئے ہوجائے اور ا للہ چاہتے تھے کہ حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ حق ثابت کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ وہ حق کو حق ثابت کرے اور باطل کو باطل بنائے اگرچہ مجرمین نا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
    جس امر کا ارادہ مسلمانوں نے کیا تھا وہ تو نہ ہوسکا ،قضائے الہٰی غالب رہی ۔تجارتی قافلہ تو فرار میں کامیاب ہوگیا مگر اس فیصلہ کن معرکہ کے اسباب پیدا ہوگئے جو رحمان کا ارادہ تھا۔ قریش جنہیں پہلے سے ہی مسلمانوں کے مکہ مکرمہ سے بچ نکلنا،پھر مدینہ منورہ میں امن سے رہنا ،مدینہ کے اردگرد والوں کا اور دیگر قبائل کا پیغمبر اسلام کے قریب ہوجانا گوارا نہ تھا۔انہیں اپنے غیض وغضب کو نکالنے کا موقع میسر آگیا۔ وہ اپنی پوری قوت کو مجتمع کرکے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی اپنی انتہائی خواہش کی تکمیل نیز دیگر عرب پر اپنے سکہ کو جمانے اور یوں خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کی خاطر پوری تیاری سے نکلے (واقعات کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے) مگر یہ ان کا عزم تھا جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا اور قرآن نے بھی اسے یوں ثبت فرمایاکہ ’’اے مسلمانو ! تم ان لوگوں کی طرح مت بنو جو اپنے گھروں سے نکلے تھے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے دکھاوے کیلئے اور اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘
    اس آیت میں کفار کے ظاہری عزائم ،ان کے خبث باطنہ کا بیان ہے ۔نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی اس قضاء مبرم کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی خاطر حق تعالیٰ شانہ نے قافلہ کی بجائے مسلمانوں کو اعدائے اسلام کی مادی ،عسکری اور سیاسی قوت کے سامنے لے آیا ۔تعداد میں کثیر ،اسباب حرب سے مکمل مسلح جماعت کو قلیل تعداد اور انتہائی کم اسباب حرب والی2جماعتوں کا آمنا سامنا کرادیا ۔ مسلمانون کی تعداد سے اہل کفر 3 گنا اور اسباب حرب میں کئی گنازیادہ تھے (پوری تفصیل سیرت کی کتب میں موجود ہے) مگر باری تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ ایمانیات وغیبیّات کا لوگ مشاہدہ کرلیں ،حق وباطل میں تفریق دیکھ لیں ۔قرآن حکیم نے اسے یوں ثبت فرمایا ’’اے مسلمانو ! یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو حکم دے رہاتھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ،تو تم ایمان والوں کو جمائے رکھو،عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ ‘‘
    در اصل اس معرکہ کا مقصود انہی حقائق ایمانیہ اور غیبی امور حقہ کو اس وقت کے اہل ایمان اور تاقیامت مؤمنین کے قلوب میں بٹھانے کی خاطر تھا۔ اپنے پاس مادی قوت کو اپنے رب کے ساتھ اخلاص کے ساتھ اسی کی دین حق اور اسی کے کلمہ کی سربلندی کی خاطر اس کے اتارے ہوئے علم صحیح کی روشنی میں اس کے رسول کی اتباع میں جب بھی وہ کسی باطل کے خلاف صف آراء ہوں گے تو ان کیلئے یہ ندائے حق تاقیامت رہے گی کہ ان کا رب فرشتوں میں یہ اعلان کرے :اے میرے فرشتو! تم اترو اور اہل ایمان کو ثابت قدم بناؤ ،میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔
    قرآن کا یہ ضابطہ ہر دور کیلئے مسلمہ اصول ہے ۔یہ ربانی محکم فیصلہ ہے ،صرف مسلم امت کو اپنے مقصد اور ہدف کی طرف اس طریقہ سے اختیار کرنا ہوگا جس کی عملی مشق غزوۂ بدر میں کرائی گئی پھر کیا ہوا؟
    واقعات ِ بدر کو محدثین ومفسرین اور اصحاب سیرت سے مفصل لکھا ہے ۔ہمیں صرف ان دروس وعبر پر روشنی کے صفحات پرروشنی ڈالنی ہے جو ہمیشہ زندہ وتابندہ قرآنی ضابطے اور نہ بدلنے والی ربانی سنتیں ہیں جن کے بارے میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ’’ تم اللہ کی سنت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤگے‘‘۔
    انہی سنتوں کو اس اولین غزوہ میں راسخ کیا گیا ہے اور قرآن کے اسلوب بیان میں تأمل کیجئے  ۔ہرسنت ربانی اور واقعہ کے ہر پہلو کو قرآن (اذ) کہہ کر یاد کراتاہے کہ اس موقع کو یا درکھو ۔اس سنت ربانی کو یادرکھو ۔اس واقعہ کو یاد کرو،نصرتِ ربانی یا سنت الہٰی میں غورکریں۔ اولین معرکہ میں زمینی صورت حال یوں ہے کہ اہل حق کی صف میں 300 پر کچھ لوگ ،اہل باطل کی صف میں900 سے اوپر مگر نصرت ربانی اور بیان ِ قرآن یوں ہے’’ یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھلایا ان کفار کو آ پ کے خواب میں کم کرکے۔‘‘
    کتنی بڑی ایمانی، باطنی اور غیبی نصرت کا مظہر ہے کہ کثیر تعداد میں دشمن تھوڑا نظر آئے ۔ پھر کیونکر عزیمت اور ہمت بلند نہ ہو۔
    نیز ارشاد فرمایا کہ’’ اور اگر آپ کو اللہ ان کفار کو زیادہ دکھاتا تو تم مسلمان ہمت ہارجاتے اور تم اس معاملہ میں باہم الجھ پڑتے،لیکن اللہ نے بچالیا۔یقینا وہ دلوں کے حال کو خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘
    ایسی باطنی،نفسیاتی ،اندر کی قوت اللہ کے سواکون ہے جو انسانوں میں پیداکرسکتاہے؟ وہ آج  بھی ایسا کرنے پر یقینا قادر ہے ۔مسلم امت کو اس درس کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے ۔ اس سے بھی بڑھکر نصرت ربانی اور حقیقت ایمان کا ملاحظہ ہو ۔ارشاد ربانی ہے:
    ’’ اور جب اللہ ان کفار کو جب تم مقابل ہوئے ،تمہاری نگاہوں میں تمہیں کم دکھارہا تھا اور تمہیں کم دکھارہاتھا ان کی نگاہوں میں تاکہ اللہ ایک کام کا فیصلہ کردے جو مقرر ہوچکاتھااور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جائیں گے۔‘‘
    گویا حق تعالیٰ شانہ اس معرکہ کو یقینی طورپر قائم کرنے کا فیصلہ اپنی حکمت سے فرماچکے تھے ۔ اگر کفار کی نگاہوں میں مسلمانوں کی کثرت وقوت پہلے سے ہی آجاتی تو شاید وہ معرکہ قائم ہوئے بغیر ہی راہِ فرار اختیار کرجاتے ۔پھر حق کی نصرتِ غیبی ،ملائکہ کا نزول، اور باری تعالیٰ کی قدرت ظاہرہ کا نظارہ کون کرتا ؟پھر یہ اولین سنت قائم نہ ہوتی تا قیامت مسلم امت کس طرح درسِ عبرت حاصل کرتی ؟
    اس معرکہ میں سنت ِ الہٰی میں مزید تأمل کرنے کے کئی دیگر مواقع بھی قرآن نے ہمیں فراہم کئے ہیں ۔ یہ قرآن کا اسلوب یاد کرو  ۔جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کررہا تھا کہ تم اترو ،میں تمہارے ساتھ ہوں ،تم ثابت رکھو مؤمنین کو اور میںکافروںکے دل میں رعب ڈالوں گا۔ایک طرف ثابت قلوب والے ہیں اور دوسری طرف مرعوب وخائف قلوب والے ۔قلوب میں قوت مادی نہیں قوت روحانی اترتی ہے ۔سنت ربانی سے قلوب ثابت یا خائف ہوتے ہیں ۔اس کا مشاہدہ اس معرکہ میں وضاحت سے ہوتاہے ۔
    نیز فرمایا ’’ اے فرشتو  ! تم کفار کی گردنوں پر وار کرو اور ان میں سے ہر ایک جوڑ پر ضرب لگاؤ۔‘‘
     اب یہ فرشتے اور ان کی ضر ب اس غیبی قوت کا استعمال ہے جس میں اللہ کی اہل تقویٰ کے ساتھ سنت کا اظہار ہے  جو بد ر میں ہوا ۔ جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا ’’ اور یقینا اللہ ہی نے تمہاری نصرت کی بدر میں اور تم کمزور تھے ،سو تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
    یہ کھلا درس ہے کہ ہر دور میں اہل تقوی کیلئے فرشتوں کا نزول بھی ہوگا ۔ان کی کاری ضربیں بھی تمہارے دشمنوں کو لگیں گیں۔یہی سنت ربانی ہے ۔
    نیز قرآن نے اپنے اسی اسلوب ثابت سے کہا ’’ اور یاد کرو  اے پیغمبر  ! جب آپ ایمان والوں سے فرمارہے تھے کہ کیا تمہیں کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تمہاری امداد کرے تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ جو اتارے جائیں گے۔ ‘‘
    نیز یہ بھی تسلی دی کہ ’’ تم اگر صبر کرو اور تقویٰ کا دامن پکڑے رکھو تو اللہ تعالیٰ 5 ہزار فرشتوں کو تمہاری امداد کیلئے نازل فرمائے گا۔ ‘‘
    قرآن نے یہی سمجھایا ۔یہ تمام بشارتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کیلئے خاص فرمایا ہے تاکہ ان کے قلو ب مطمئن رہیں اور یہ ضابطۂ ربانی ہمیشہ یاد رہے کہ کہ نصرت صرف اور صرف رب تعالیٰ عزیز وحکیم کی طرف سے ہی ہوتی ہے ۔ نصرت ِ ربانی کے صبر وتقویٰ پر نازل ہونے کے یہ سچے وعدے اللہ تعالیٰ باربار مسلم امت کو اس لئے یاد کراتاہے کہ تم جب بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اپنے پاس موجود اسباب کو مجتمع کرکے نکلوگے اور صبر وتقویٰ کو اپنے دامن کے ساتھ چپکائے رکھو ۔تمہاری سیرت وکردار متقین ،صابرین اور مؤمنین والا ہوگا تو رب تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارتیں تمہارا خاصّہ رہیں گے ۔ حق تعالیٰ کبھی وعدہ کے خلاف نہیں فرماتے ۔ ان سے بڑھ کر اپنے قول وقرار کا پختہ کوئی نہیں ۔ واقعات کی تفصیل تو سیرت کی کتب سے معلوم کریں مگران حقائق کو درس عبرت کے طورپر پکڑیں ۔اس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مخاطب تھے ۔آپ نے فرمایا’’ یہ دیکھو جبرئیل ہیں ،اپنے گھوڑے کو سر سے تھامے مسلح تمہارے درمیان موجود ہیں ۔‘‘
    حضرت علی فرماتے ہیں کہ انصار کے ایک پست قد جب حضرت عباس بن عبد المطلب کو قید کرکے لائے تو حضرت عباس کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم اس شخص نے تو مجھے اسیر نہیں بنایا تھا ،مجھے تو جس شخص نے اسیر بنایا تھا وہ انتہائی طاقتور،انتہائی خوبصورت تھا جو گھوڑے پر سوار تھا ۔میں نے اس جیسا شخص زندگی میںکبھی نہیں دیکھا۔وہ انصاری فرمانے لگے کہ : یا رسول اللہ ! میں نے ہی انہیں اسیر بنایا ہے ،تو آپ نے فرمایا کہ : خاموش رہو ۔اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد ایک کریم فرشتے کے ذریعے فرمائی ہے ۔
    ہمارے لئے دروس وعبر کیلئے اس قدر غیبی نصرت ربانی کے واقعات ہی کافی ہیں جن سے کہ قریش اپنی شکست وہزیمت کو بھانپ چکے تھے ۔مسلمان اللہ کی نصرت سے اپنی کامیابی کامشاہدہ کرچکے۔اب کثیر تعداد اور بھاری اسلحہ والے شکست خوردہ ہوجاتے ہیں  ۔معرکہ قریب اور اختتام ہوجاتاہے ۔ اسلامی لشکر کا غلبہ ہوجاتاہے ۔قریش کی کثیر تعداد قتل ہوجاتی ہے ۔بڑی تعداد اسیر ہوجاتی ہے ۔بقیہ راہِ فرار اختیار کرجاتے ہیں ۔ کفار کا قائد عام عمرو بن ہشام ، المعروف ابو جہل اس معرکہ میں قتل ہوجاتاہے جس کو قتل کرنیوالے انصار کے 2 نو عمر لڑکے ہوتے ہیں جو ابو جہل کے تاک میں تھے ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف سے ابو جہل کی شناخت کرانے کے بعد اس پر ٹوٹ پڑے ۔
    الحاصل اسلامی لشکر کو کفار کے لشکرپر مکمل برتری حاصل ہوگئی اسلام کے صرف 14جانثاروں نے جام ِ شہادت نوش فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 3 دن تک بدر میں مقیم رہے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن حارثہ کو اہلِ مدینہ کو مسلمانوں کی فتح کی خبر دینے کیلئے روانہ فرمایا ۔     کفار ِ قریش کے مقتولین کو ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔پھر آپ اس پر کھڑے ہوکر ان سے اُن کے ناموں سے مخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں :
    ’’ اے عتبہ بن ربیعہ، اے شعبہ بن ربیعہ ،اے فلاں ‘اے فلاں ! کیا تم نے جان لیا کہ میرا رب کا وعدہ میرے ساتھ سچ ثابت ہوا ؟‘‘ ۔
     حضرت عمر نے فرمایا کہ یا رسو ل اللہ ! آپ مردوں سے مخاطب ہیں ؟آپ نے فرمایا : اے عمر ! مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میںمیری جان ہے ۔تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو ۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطاب اہل ایمان کے قلوب میں اس ضابطے کو راسخ کرنے کیلئے ہے کہ اسلام میں نسبی رشتوں ،ناطوں کے بجائے ایمان وعقیدہ کے رشتوں کی قدر وقیمت ہے ۔ نیز قوت، عزت، حشمت وعظمت  اللہ اور اس کے رسول او ر ان پر ایمان لانے والوں کیلئے ہر دور میں مقدر ہے ۔یہی رب ذوالجلال کی نہ تبدیل ہونے والی سنت ہے ۔اللہ کی نصرت اس پر توکل کرنے والوں اسکے رسول کی تصدیق کرنیوالوں ،اس کی نصرت والوں کیلئے ہوتی ہے ۔ہر معرکہ اور موقف پر انہی دروس وعبر کو امت کو یاد رکھنا ہوگا ۔
 
مزید پڑھیں:- - - -غزوہ بد ر ، سماجی اثرات کیا ہوئے

شیئر: