Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یَوْمَ الْفُرْقَان ، یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَان

مکہ میں یہ اطلاع ملتے ہی کہرام مچ گیا، ہر وہ شخص جو تلوار چلا سکتا تھا ،وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے
 
* * * عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض* * *
    رمضان المبارک کے مبارک اور مقدس ماہ میں 17رمضان المبارک، جمعۃ المبارک 2ہجری کو بدر کے مقام پر حق و باطل میں فرق کرنے والا معرکہ برپا ہوتا ہے۔یہ ایسا معرکہ تھا جس نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ راقم الحروف کو متعدد بار بدر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے اس میدان میں کھڑے ہو کر ذہن میں معرکہ کا نقشہ بنایا ہے۔چشم تصورسے ان نفوسِ قدسیہ کو مشرکین سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے معرکہ کے مقام پر کھڑے ہو کر سوچا: اندازا ًیہی جگہ ہو گی جہاں عتبہ، شیبہ اور ولید کھڑے ہوں گے۔ عتبہ اللہ کے رسول سے کہہ رہا ہے:
    ’’ ہمارے ہم پلہ، ہمارے رشتہ داروں کو ہمارے مقابلے کے لئے بھیجیں۔ ‘‘
    جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو میرا ذہن ان فتوحات اور کامیابیوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو رمضان شریف میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔
    بدر کا تاریخی قصبہ زمانۂ قدیم سے اجناس کی منڈی چلا آ رہا تھا۔ قافلے شام کی طرف آتے اور جاتے وقت یہاں رکتے، خرید و فروخت کرتے۔ اس علاقے میں قبیلہ جہینہ اور غفار صدیوں سے آباد ہیں۔ قریشِ مکہ کی بنو غفار سے بڑی پرانی رشتہ داری چلی آ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب قریش کا لشکر بدر کے میدان میں ڈیرہ ڈالتا ہے تو بنو غفار ان کے لئے10 اونٹ بطور ہدیہ ارسال کرتے ہیں۔یہ گویا اس لشکر کا ایک دن کا کھانا تھا۔ ابوجہل نے اس ہدیہ کو قبول کرتے ہوئے کہا:
    بنو غفار نے صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا ہے۔
    اس سے پہلے کہ بدر کے واقعات بیان کروں مختصراًبتائوں گا کہ مسلمان مکہ سے لٹے پٹے آئے تھے۔ وہ اپنی دولت، کاروبار، زمینیں، مکانات، گھر کے اثاثے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنا دین بچا کر خالی ہاتھ مدینہ طیبہ آئے تھے۔ مہاجرین کو شروع شروع میں جس فقرو فاقہ سے واسطہ پڑا اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف مسلمان فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے تھے ، دوسری طرف قریش کا تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ واپس جا رہا تھا۔ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قافلے پر جو سامان لدا ہوا تھا اس کی مالیت 262کلو سونے کی قیمت کے برابر بنتی ہے۔ موجودہ ریٹ کے حساب سے سارے قافلہ کے سامان کی قیمت کوئی 40 ملین ریال بن جائے گی۔ اتنے قیمتی تجارتی اثاثے کی حفاظت کے لئے صرف40 افراد تھے۔
    اللہ کے رسول اپنے صحابہ کے ہمراہ اس قافلہ کو روکنے کے لئے نکلتے ہیں۔ اگر یہ مال مسلمانوں کو مل جاتا تو جہاں مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی وہیں یہ چیز اہل مکہ کے لئے بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی چوٹ کی حیثیت رکھتی تھی مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ کفر کے بڑے بڑے سرغنوں کا قلع قمع کردیا جائے تاکہ اسلام کی دعوت پھیلانے میں مسلمانوں کو آسانی ہو۔
    اس غزوہ کے لئے صحابہ کرام کی شرکت لازمی نہ تھی کیونکہ مقابلہ کسی بڑے دشمن کے ساتھ نہ تھا۔
    اللہ کے رسولارشاد فرما رہے ہیں:
      ’’قریش کا یہ قافلہ ان کے اموال کے ساتھ آ رہا ہے، اس کی طرف نکلو۔‘‘
    313  جاں نثار آپ کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ آپ مدینہ پر اپنا قائم مقام سیدنا ابو لبابہ بن عبدالمنذرؓ کو مقرر فرماتے ہیں اور بدر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ بدر کا مقام مدینہ طیبہ سے کوئی بہت زیادہ دور نہیں ۔ اللہ کے رسولمدینہ سے روانہ ہونے لگے تو آپ کے آگے آگے کالے رنگ کے جھنڈوں کو پکڑے ہوئے 2شہسوار چل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تو سیدنا علی بن ابی طالب ؓہیںاور دوسرے سیدنا سعد بن معاذ ؓہیں جو انصار کے قبیلہ خزرج کے سردار ہیں۔
    قارئین کرام! اس لشکر میں صرف2 مجاہد ایسے تھے جن کے پاس گھوڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو آپکے پھوپھی زاد بھائی سیدنا زبیر بن عوامؓ اور دوسرے سیدنا مقداد بن اسود کندیؓ ہیں۔ یمن سے تعلق رکھنے والے مقدادؓ  کی شادی اللہ کے رسولنے اپنی چچا زاد ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب سے کی ہوئی تھی۔
    ابو سفیان عرب کا مانا ہوا ذہین اور دور اندیش شخص تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ جب لشکر مدینہ کے قرب و جوار سے گزرے گا تو اس پر حملہ ہو سکتا ہے اس لئے اس نے ساحل سمندر والا راستہ اختیار کیا اور خود بھی علاقے کے لوگوں سے تازہ ترین خبریں معلوم کرتا رہا کہ کہیں اس کے قافلہ پر حملہ نہ ہو جائے۔ابو سفیان کو علم ہو چکا ہے کہ اللہ کے رسول قافلے کا پیچھا کرنے کے لئے مدینہ شریف سے نکل پڑے ہیں تو اس نے فوراً بنو غفار کے ایک شخص کو سونے کا ایک ٹکڑا بطور معاوضہ دے کر اہل مکہ کی طرف بھیجا اورکہا: انہیں پیغام دو کہ قافلہ کو بچانے کے لئے فوراً پہنچ جائیں۔ مکہ میں یہ اطلاع ملتے ہی کہرام مچ گیا۔ ہر وہ شخص جو تلوار چلا سکتا تھا ،وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ابولہب اور چند بیماروں یا بوڑھوں کے سوا سارے ہی لوگ بدر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ امیہ بن خلف کا جنگ میں شرکت کا قطعاً ارادہ نہ تھا۔ بھاری بھرکم جسم کا مالک امیہ سیدنا بلال کا آقا تھا۔ یہ نہایت دولت مندمگر اتنا ہی بزدل بھی تھا مگر ابوجہل نے چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر اسے بھی تیار کر لیا۔
    قریش بدر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ ناچنے گانے والی عورتیں اور موسیقی کے آلات بھی ہیں۔ وہ طبلے بجاتے‘ خوشی کے گیت گاتے بدر کی طرف جا رہے ہیں۔ لشکر کو کھانا کھلانے کے لئے مختلف سردار 10،10 اونٹ ذبح کر رہے ہیں۔ لشکر وادی عسفان اور قدیدسے گزر کر جحفہ پہنچا تو ابو سفیان کا نیا پیغام موصول ہوا:
    قافلہ بچ گیا ہے، آپ لوگ واپس جائیں۔
    ابوجہل بولا:
    اللہ کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ ہم بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح ہوں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے۔ رنڈیاں ناچیں گی اور گانے گائیں گی۔ اس طرح پورے عرب پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔
    یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ قافلہ بچ گیا ہے، 300کی تعداد میں بنو زہرہ واپس چلے گئے۔ یہ رسول اللہکے ننھیال تھے۔قریش کے لشکر کی تعداد اب ایک ہزار رہ گئی ہے۔ قافلے والے بچ کرجا چکے ہیں۔ ادھر قریش بدر کی طرف آ رہے ہیں، وہ ہر حال میں لڑائی کرنا چاہتے ہیں۔
    قارئین کرام! اللہ کے رسول بدر کے مقام پر پہنچنے سے پہلے اعلیٰ کمان کا اجلاس طلب کرتے ہیں۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، سیدنا مقداد بن اسودؓ، انصار کے سردار سعد بن معاذؓ  سبھی نے آپ  کا آخری حد تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔
    راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں بدر کی سیر کے لئے گیا تو اس پہاڑی کے دامن میں کھڑا کتنی دیر تک ان راہوں کو دیکھتا رہا جہاں سے اللہ کے رسول کا قافلہ بدر کے علاقے میں داخل ہوا تھا۔ میں چشم تصور سے ان اونٹوں کو دیکھ رہا تھا جن پر صحابہ کرام ؓسوار تھے۔
    ایک ایک اونٹ پر کئی کئی صحابی سوار تھے۔ کتنے ہی پیدل تھے۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں اپنا کیمپ لگایا تو ریت پر پائوں پھسل پھسل جاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے رات کو بارش برسا دی ،یوں ریت جم گئی اور اس پر چلنا پھرنا آسان ہو گیا۔
    عتبہ بن ربیعہ ابو سفیان کا سسر اور ہند کا باپ تھا۔ یہ نہایت سمجھدار شخص تھااور بدر میں سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ اللہ کے رسولنے اسے دیکھا تو ارشاد فرمایا:
     اگر قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اس نے کوشش کی کہ لشکر واپس چلا جائے اور لڑائی نہ ہو، مگر ابوجہل نے اسے بزدلی کا طعنہ دیا جس پر اسے مجبوراًخاموش ہونا پڑا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ عتبہ کے بیٹے ابو حذیفہؓ  مسلمانوں کے کیمپ میں تھے۔ یہ صحابیٔ رسولؐ اور قدیم الاسلام تھے۔
    حضرت سعد بن معاذ ؓکے مشورہ پر ایک مرکزِ قیادت بنایا جاتا ہے۔میدان جنگ کے شمال مشرق میں اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا گیا۔ یہاں سے پورا میدانِ جنگ نظر آتا ہے۔ میں کافی دیر تک اس جگہ کو دیکھتا رہا۔ یہاں اب بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ نماز پڑھنے کے لئے گیا تو سوچتا رہا کہ کاش میں اپنی جبیں اس جگہ رکھ سکوں جہاں اللہ کے رسولنے نمازیں ادا کی تھیں۔
    اللہ کے رسولنے صف بندی فرمائی اور ارشاد فرمایا:
     ’’کل فلاں کی قتل گاہ یہ ہوگی ،یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ ‘‘
    صف بندی ہو رہی ہے۔ اللہ کے رسول کے ہاتھ میں تیر ہے جس سے آپ صفیں سیدھی کر رہے ہیں۔ سواد بن غزیہؓ کچھ آگے نکلے ہوئے ہیں۔ آپ نے تیر ان کے پیٹ پر رکھ کرتھوڑا سا دبایا اور فرمایا :
    ’’سواد برابر ہو جائو۔‘‘
     مگراچانک یہ کیا ہوا؟!سواد تو بدلہ طلب کر رہے ہیں۔مجھے تکلیف پہنچی ہے۔میدان جنگ میں کمانڈر انچیف اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیتے ہیں۔ سواد پیٹ سے چمٹ کر بوسے لے رہے ہیں۔ صحابی کا یہ والہانہ محبت کرنا،اللہ کے رسولکو خوش کر دیتا ہے۔
      راقم نے اوپر عرض کیا ہے کہ میں نے اندازا ًاس جگہ کھڑے ہو کر تصور میں دونوں طرف کے جنگجوؤں میں مبارزت دیکھی۔ عتبہ‘ شیبہ اور ولید کو واصل جہنم ہوتے دیکھا۔ سیدنا امیر حمزہؓ، عبیدہ بن حارث اورسیدنا علی بن ابی طالب نے پلک جھپکتے میں اپنے دشمن کا صفایا کر دیا۔
    میں جب بھی بدر کے میدان میں گیا میں نے چھوٹے سے عمیر بن ابی وقاص کو ہمیشہ یاد کیا۔ وہ ننھا مجاہد جو داد ِشجاعت دینے کے لئے مدینہ سے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاصؓ کے ساتھ آیا تھا۔ چھوٹا سا عمیر اللہ کے رسول سے چھپتا پھر رہا ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟! قارئین کرام! اس لئے کہ کہیں اللہ کے رسول اسے کمسن جان کر واپس نہ کر دیں۔
     میدان جنگ کے ایک طرف ان کے بڑے بھائی سعد بن ابی وقاصؓ اپنے پیارے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے تھے۔ ان کے گلے میں پٹا ڈالا، چھوٹی سی تلوار گلے میں لٹکائی اور یہ ننھا مجاہد بڑی سج دھج کے ساتھ کفر کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلتا ہے۔ داد شجاعت دیتا ہے اور خلعت شہادت سے فیض یاب ہوتا ہے۔ بدر کے میدان میں ایک یادگار بنی ہوئی ہے جس پر شہداء کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ سب سے اوپر جس شہید کا نام لکھا ہوا ہے وہ عمیر بن ابی وقاصؓہیں۔
    لڑائی شروع ہو چکی ہے ۔ کافروں نے یکبارگی حملہ کیا ہے۔ اللہ کے رسولنے اپنے ساتھیوں کو صبر کے ساتھ دشمن کا وار روکنے کا حکم دیا ہے۔ وہ ’’اَحَد، اَحَد‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔اُدھر مجاہد لڑ رہے ہیں اِدھر اللہ کے رسول عریش میں تشریف لے جاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی بارگا میں سجدہ ریز ہیں، اس سے دعائیں کر رہے ہیں:
     ’’اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو (روئے زمین پر)تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘
     کائنات کے امام اپنی امت کو درس اور سبق دے رہے ہیں کہ نہایت مشکل کے وقت صرف اکیلے رب کو پکارنا ہے، اسی سے مدد مانگنی ہے اس لئے کہ { وَمَنْ نَصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ}۔
     ’’مدد صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے۔‘‘
     آپ دعائیں رو رو کر، خوب تضرع کے ساتھ کر رہے ہیں۔ چادرِ مبارک کندھے سے گر گئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ  بھی کمال محبت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ چادر درست کر کے عرض کر رہے ہیں: اللہ کے رسول!بس کر دیجیے۔ آپ نے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ دعا مانگ لی ہے۔
    جنگ کی بھٹی گرم ہو چکی ہے۔ لڑائی اپنے عروج پر ہے۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری جا رہا ہے۔ فرشتوں کی مدد آگئی ہے۔ میں نے دور پہاڑ کی وادی میں دیکھا۔ وہ درہ سامنے تھا جہاں سے روایات کے مطابق فرشتے نازل ہوئے تھے۔ اللہ چاہتا تو ایک فرشتے کے ذریعے بھی کفر کو ختم کر سکتا تھامگر آج ان فرشتوںمیں سے ہر ایک کی طاقت ایک بہادر اور زور آور شخص کے برابر تھی۔
    اللہ کے رسولنے میدان جنگ میں سے مٹی کی ایک مٹھی اٹھالی ہے۔ ’’چہرے بگڑ جائیں‘‘کہہ کراسے دشمن کی طرف پھینک دیا ہے۔ معجزہ ہو گیا، ہر مشرک کی آنکھوں میں مٹی پڑ گئی ہے۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا، اللہ کا ارشاد آگیا:
     ’’جب آپ نے پھینکا تو در حقیقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکا۔‘‘
    قارئین کرام! اللہ تعالیٰ اپنی قوت اور طاقت کابیان فرما رہے ہیں۔
    ڈھائی سے 3 گھنٹے کی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ہے۔ مسلمان مشرکین کو دباتے ہوئے مکہ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس امت کے فرعون ابوجہل چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوتا ہے۔ امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی کو سیدنا بلالؓ  معرکہ سے کہیں دور اپنے انصاری ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کر دیتے ہیں۔ اسے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی مدد بھی کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی، وہ تو اسے گرفتار کر چکے تھے، مگر کفر کا یہ سرغنہ اسی سزا کا حقدار تھا۔
    دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ مسلمان ان کو گرفتار کر رہے ہیں۔ یقینا وہ رسیاں ساتھ لے کر آئے ہیں۔ 70قتل ہو چکے ہیں، اتنی ہی تعداد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کے 14شہداء میں 6 مہاجر اور8 انصاری ہیں۔
    شہداء میں ایک نام  ’’مہجع‘‘ بھی ہے۔ یہ سیدنا عمر فاروقؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ دنیا والے انہیں غلام سمجھتے تھے مگر مساوات کے حامی‘ عدل کے داعی‘ اخوت کے بانی نے انہیں سید الشہداء کے لقب سے یاد فرمایاہے۔
مزید پڑھیں:- - - - قرآن مجید اور روزہ ، انسانی ہدایت کے سرچشمے

شیئر: