Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پانی اور ہوا،اللہ کی عظیم نعمتیں

قدرت کی پکڑ سے کوئی نہیں بچتا، پکڑ جب ہو تی ہے تو پھر اس پر نہ آسمان روتا ہے نہ زمین ،نا قدری کر نے وا لوں کی نعمت چھین لی جا تی ہے
* * *حافظ محمد ہاشم صدیقی۔ جمشید پور* * *
اللہ رب العز ت سا رے جہا نوں کا پیدا فر ما نے والا ہے اور وہی تمام مخلوق کا پالن ہار ہے۔ جتنے جاندار ہیں سب کی روزی اللہ رب العز ت نے ا پنے فضل وکرم سے اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے اور وہ سب کی ضرورت کے مطا بق نعمتیں عطا فر ما تا ہے ۔کڑو رہا نعمتیں ہیں جو اس نے اپنی مخلوق کو عطا کی ہیں اور اعلان فر ما یا:
    oاگر اللہ کی نعمتیں گنوتو انھیں شمار نہ کر سکو گے،بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے( النحل18)۔
    o اور جو بھی نعمتیں تمھیں حاصل ہیں سو وہ اللہ ہی کی جا نب سے ہیں( النحل 53)۔
    اور جن کو نعمتیں ملی ہو ئی ہیں ان کے با رے میں اعلانِ ربانی ہے :’’آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اورشگفتگی معلوم کر لیں گے۔‘‘ (المطففین24) ۔
    موسم گر ما ہویا اور کوئی موسم ہمیشہ انسانی ضرور یات میں ہوا ، پانی بنیا دی اہمیت کے حامل ہیں ۔ خاص کر جب سو رج پو رے شباب کے ساتھ جلو ہ گر ہو ،ایسے میں ہر چند منٹ کے بعد ہونٹ تر کر نے کے لیے پا نی نہ ملے تو ہر جا ندار پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان با ہر آنے لگتی ہے اور اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو تا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قر آن مجید میں پانی،ہوا اوردرختوں کا کئی جگہ ذکر فر ما یاہے :
    ’’وہی ہے جس نے تمہا رے لیے آسمان کی جا نب سے پا نی اتارا جسے تم پیتے ہو اوراس میں سے(کچھ)شجرکاری کا ہے (جس سے نبا تات،سبزی اور چرا گاہیں اگتی ہیں)جن سے تم اپنے مویشی چراتے ہو۔‘‘ ( النحل 10)۔
    پا نی جیسی نعمت کا ذکر فر ما کر رب العا لمین نے بتایاکہ تم اسے پیتے ہو باقی دوسرا پا نی تمہارے جانور پیتے ہیں اور درختوں وکھیتی کی سیرا بی بھی پا نی ہی سے ہوتی ہے۔ پا نی کی اہمیت وضرو رت کا ذکر قرآن مجید میں بہت سی جگہ مو جود ہے۔سورہ النحل، آیت60،سورہ الکہف، آیت18،سورہ رحمان،آیت6،سورہ لقمان،آ یت27اور خا ص کرقرآن نے پا نی کوانسان کی پیاس بجھا نے کاذریعہ بتا یا ہے۔
    میٹھاصاف شفاف خوش گوار اور اچھے ذائقہ کا پانی تم(انسان)پیتے ہو با قی دوسرا پانی تمہارے جانور پیتے ہیں، اسی سے پھل اگتے ہیں، پیڑ سیراب ہو تے ہیں پا نی و ہی بر سا تا ہے(قرآنی مفہوم سورہ واقعہ)۔
    قر آن مجید میں پا نی کا ذکر صراحت کے ساتھ58 جگہ آیا ہے۔ ہوا پا نی انسانی زند گی کے لیے ہی نہیں بلکہ کا ئنات کے وجو د وبقا کے لیے بھی ضروری ہے ۔
    ر ب ا لعا لمین کی پیداکر دہ نعمتوںمیں سے پانی عظیم نعمت ہے۔ اسکا کو ئی نعم البدل نہیں۔انسان کی تخلیق سے لیکر کا ئنات کی تخلیق تک سبھی چیز وں میں پا نی کی جلوہ گری ہے۔آج پوری دنیاپانی کی کمی اوربڑھتی ہوئی حرارت سے پریشان ہے۔ آج دنیا کے کئی مما لک پا نی کی حفا ظت کے لیے نئی نئی تکنیک کو اپنا رہے ہیں اور ہمارا ملک اس معاملے میں کہاں ہے اس پر کچھ لکھنا دیوار سے سر ٹکرا نا ہو گا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ جواب تو یہی ہو نا چا ہئے کہ ذمہ داری تو ہرانسان کی ہے۔ اب ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کے بجا ئے ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔ آج اور ابھی سے کر یں۔ اگر ہمیں اپنی اولادوں اور آنے ولی نسلوں سے محبت ہے تو پا نی بر باد کر نے کے بجائے پانی بچا نے کی ہرممکن کو شش شرو ع کرنی ہو گی۔پانی کی کمی کی شکا یت تو سبھی زور وشور سے کرتے ہیں،لمبی لمبی تقر یر یں کر تے و تحریریں لکھتے ہیں لیکن پا نی کی حفا ظت پرخود کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیارنہیں۔یہ ہم اپنے قد موں پر کلہا ڑی ما ر نے کا کام کر رہے ہیں ۔کسی کو سمجھاؤ تو وہ سمجھنے کو تیار نہیں ۔جس کے پاس دولت ہے وہ پا نی کو اپنی جا گیر سمجھتا ہے اور کہتا ہے پا نی استعمال کر نا ہما را پید ائشی حق ہے چا ہے ہم جتنا استعمال کریں، اسکی بحث نہ کریں میری مر ضی ایسی سوچ، ایسے بول ایک نہ ایک دن ان کے لیے مہنگے پڑیں گے۔ قدرت کی پکڑ سے کوئی نہیں بچتا ۔ا للہ کی پکڑ جب ہو تی ہے تو پھر اس پر نہ آسمان روتا ہے نہ زمین اورنا قدری کر نے وا لوں کی نعمت چھین لی جا تی ہے۔ ارشاد با ری تعا لیٰ ہے:
    ’’تو ان پر آسمان اور ز مین نہ رو ئے اورانھیں مہلت نہ دی گئی۔‘‘ (الدخان29)۔
    پانی کس طرح بر باد ہو رہا ہے۔ آج جدھر بھی نظر اٹھا کر دیکھیں پا نی کی بر با دی لوگ کر رہے ہیں۔ گھر کی صفائی اور گا ڑی کی دھلائی کر نے میں کتنا پا نی بر باد کر رہے ہیں۔ پڑو سی کو 5 بالٹی پا نی دینے میں کلیجہ پھٹ جاتا ہے لیکن اپنے تعیش میں فضول خرچی کر نے میں حاتم طا ئی کی قبر پر لات ما ر نے میں ذرا بھی نہیں شر ما تے ۔آج بیت الخلامیں فلش ( FLUSH)کے ذریعہ کتنا پا نی بر باد کیا جا رہا ہے ،ہو ٹلوں میں گرم پا نی آنے کے لیے نل کو کھلاچھو ڑ دیا جا تا ہے۔ اس میں کم ازکم50  لیٹر پا نی مفت میں بہا کر برباد کر دیا جا ر ہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطا بق شہر وں میں ہر سال29ارب مربع میٹر پانی(جسکی قیمت43کروڑ کے لگ بھگ ہے سپلا ئی کے دوران بر باد ہو تا ہے ) ۔
    دنیا پا نی کی حفا ظت کر پا نے میں ناکام نظر کیوں آرہی ہے؟ دنیا کی کوئی تکنیک پانی بنانے کی صلا حیت نہیں رکھتی ۔پا نی صرف اور صرف اللہ رب ا لعزت کا انمو ل عطیہ ہے ،اسپر کسی کی اجا رہ د اری نہیں۔ پا نی بِنا زند گی کا تصو ربھی نہیں کیا جا سکتا۔
     اس معا ملے میں ہر انسان اپنی ذمہ داری نبھا تے ہوئے پا نی کم سے کم خرچ کرے اور اسکی بر بادی کو روکنے کی کو شش کرے ۔گھروں میں پا نی کا غیر ضرو ری استعمال کم سے کم کریں ۔نلوں کے بجا ئے بر تنوں میں پانی لیکر استعما ل کریں ۔ گھر گھر جا کر پا نی بچا ؤزند گی بچا ئو کی مہم چلا ئیں۔صفائی کی طرف بھی توجہ دلا ئیں۔ علماء حضرات اپنے بیا نوں میں پا نی کی بے قدری پر لو گوںکو سمجھائیں ۔
    مسلما نوں کی ذمہ داری:
    مو جودہ صورتحال میں امت مسلمہ کے ہر فرد کا فرض بنتا ہے کہ وہ پا نی کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے سامنے ایک نمو نہ پیش کر ے ۔ اگرآج کسی کو پانی کی سب سے زیا دہ ضرو رت ہے تو وہ مسلما نوں کو ہے۔ ’’نماز‘‘جیسی اہم عبا دت کو بغیر پاک ہوئے ادانہیں کرسکتا۔ بغیر وضو کئے نماز ادا نہیں کرسکتا ۔
    دن میں 5 بار وضو کے لیے پانی کی ضرورت ہے ۔پا کی حاصل کر نے کے لیے پانی کی ضرورت ہے، بغیر پا کی عبادت کاتصور بھی نہیں کر سکتا لہٰذاآگے بڑھ کر خودپا نی کی قدر کریں، پا نی بچائو کی تحریک چلا ئیں ۔دوسروں کو بھی شا مل کریں۔احا دیث پاک میں و اقوال صحا بۂ کرام، تابعین،بزر گان دین وعلماء کے یہاں پا نی کے استعمال اور احتیاط کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔صحابہؓ  نے نبی کریم سے پو چھاکہ ایسی کون سی ( چیز )ہے جس سے انسا نوں کو منع نہیں کیا جا سکتا؟تو آپ نے فرمایا ’’وہ چیز پا نی ہے(بخاری)۔
    دوسری حدیث یوں ہے:
    3 چیزیں ایسی ہیں جو سب کے لیے عام ہیں:(1) پانی (2)گھا س(3)آگ (ابو داؤد)۔
     پانی کا بے جا استعمال خواہ وضو ،غسل کے لیے ہی کیوں نہ ہو منع ہے بلکہ احمد رضا خاں علیہ ا لرحمۃلکھتے ہیں: اس پر علما کا اجماع ہے کہ پانی میں اسراف منع ہے اگر چہ سمندر کے کنا رے پر ہو۔ پا نی میں اسراف نہ کرے یعنی حا جت شر عیہ سے زیادہ پا نی استعمال نہ کرے(صحیح مسلم ،کتا ب الطہا رت ،با ب المستحب من الماء ،فتا ویٰ رضویہ )۔
    دوسری جگہ ہے۔ اگر کسی نے در یا سے گھڑ ا بھر کر پانی ز مین پربے فا ئدہ بہا دیا تو اس نے پا نی بر بادکر دیا( فتا ویٰ رضویہ)۔
    گلا س میں بچاہوا پانی پھینک دینا گناہ ہے۔ آجکل فضول خر چی کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا ۔پانی پیا اور بچا ہوا پانی پھینک دیا ۔ احمد رضا خاں علیہ ا لرحمۃ کی خد مت میں ایک شخص حاضر تھا کہ ایک صا حب نے پانی پی کر بچا ہوا پانی پھینک دیا۔ اس پرآپ نے فر مایا:بچے ہوئے پا نی کو پھینکنا نہیں چاہئے بلکہ کسی برتن میںڈالد یتے۔ اس وقت پا نی افراط (EXCESS)ہے تو اس کی قدر نہیں، جنگل جہاں پانی نہ ہووہاں اسکی قدرمعلوم ہوتی ہے۔ اگر ایک گھو نٹ پا نی مل جائے تو ایک انسان کی زند گی بچ جائے(الملفوظ،فیضان سنت، باب پانی پینے کی سنتیں)۔
    جہاں پا نی میسر ہو وہاں پا نی پلا نا ثواب کا کام ہے۔ ایک گھونٹ پا نی پلا نے کے عوض اللہ رب العزت ایک غلام آزاد کر نے کا ثواب عطا فر ماتا ہے۔ پانی سب سے بہتر صد قہ ہے۔ گر میوں میں ہم لو گوں کو چا ہئے کہ ٹرینوں میں، اسٹیشنوں میں، بس اڈوں میں اور چو راہوں وغیرہ میں پا نی پلا نے کا ضرور انتظام کریں۔آپ دیکھیں ریلوے اسٹیشن میں براد ران وطن کی مختلف تنظیمیں مارواڑی یوا منچ،اتکل ایسو سیشن، وغیرہ وغیرہ پانی کا انتظام کرتی ہیں یہ کام مسلما نوں خاص کر نوجوانوں کو ضرور کرنا چاہئے۔ آج کے حا لات میں تو اس کی سخت ضرو رت ہے ۔ گرمی کے موسم میں پا نی وشر بت پلانا بہت ہی اچھا کام ہے، مو جب اجرو ثواب ہے ۔ بلا تفر یق مذہب وملت پانی پلانے سے دیکھیں ثواب کے ساتھ میل ومحبت کاجذ بہ ابھرے گا ۔
    اللہ کے پاس بھی سر خرو ہوں گے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام اچھا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ ر ہیں بلکہ ایک زندہ قوم کی طرح آبا دیوں میں نکلیں، معاشرے کو بیدار کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے ضرو کچھ نہ کچھ کریں۔
    پانی پلا نا بڑے ثواب کا کام ہے، حقِ مسلم بھی ہے ۔جنت میں لے جا نے والا عمل بھی ہے، اس سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔آج جو ملکی ماحول ہے اِس وقت اس بات کی سخت ضروت ہے کہ ہم خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اسکی دعوت دیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ پا نی کا انتظام کریں اور بلا تفریق مذ ہب وملت سب کو پلا ئیں پھر دیکھیں آپ کو کتنا فائدہ و سکون ملے گا ۔
کرومہر بانی تم اہل زمیں پر
خدا مہر باں ہو گا عرش بریں پر
     اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی تو فیق عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین۔
مزید پڑھیں:- - -رمضان کے بعد بھی مسجدوں کو آباد رکھیں

شیئر: