شہزاد اعظم
ہماری دادی نے ایک مرتبہ انتباہ کیا تھا کہ ”پوتے جی!ایک بات کہہ رہی ہوں، گرہ سے باندھ لینا کہ کسی کا نقاب کھینچنا یا اسے بے نقاب کرنا انتہائی گھٹیا، بے ہودہ اوراخلاق و تہذیب سے گری ہوئی حرکت ہے“یہی وجہ ہے کہ دل چاہنے کے باوجود آج تک ہم اس حقیقت کے چہرے سے نقاب نوچ ہی نہیں سکے کہ آخر پہلی اور تیسری دنیا کے ممالک میں اس قدر فرق کیوں ہے کہ ہمارے ہاں کی حقیقت اُن کے گمان میں بھی نہیں ہوتی جبکہ اُن کے خواب و خیال اور توہمات ہمارے ہاں ناقابلِ تردید حقائق کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔وہ جو کچھ کرتے ہیں، ہمیں بے انتہا اچھا لگتا ہے اور ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ انہیں انتہائی برا لگتا ہے۔وہ بھونکتے ہیں تو ہمیں ”ترنم“ سنائی دیتا ہے اور ہم نغمہ بار ہوتے ہیں تو اُنہیں ”بھونک“ سنائی دیتی ہے۔یہ تو ”تفاوتِ عملی“ ہے جسے ہم آسان زبان میں”کرتوتی فرق“بھی کہہ سکتے ہیں۔ایک فرق” بصری و حسی“ ہے یعنی ”نظر اور احساسات“ کا فرق۔یہ کیسا فرق ہے، اس کی وضاحت ایک واقعے سے خود بخود، بآسانی، فوراً، فٹافٹ،آن کی آن میں، یک لخت یا یکدم ہوجائے گی۔واقعہ یہ ہے کہ مملکت آنے سے قبل ہم کراچی میں سانس لیتے رہے۔ وہاں ہر10برس میں ایک آدھ مرتبہ ہی ساحل کا رخ کرنے کا دل چاہتا تھا۔ایسے ہی ایک مرتبہ پُرزور اصرار پرخاندان کے تمام شادی شدہ ، غیر شادی شدہ ، منگنی یافتہ اور منگنی کے ”خدشات “ میں گھِرے سبھی اعزہ کو لے کر ہم سارا دن گزارنے کے لئے صبح ہی صبح کلفٹن پہنچ گئے۔ وہاںساحل پر جا بجا بکھرا ہواکچرا ، نوکیلے پتھر،ادھ کھلی پنڈلی پر چمٹنے والی بلبلہ نما ”جیلی فش“، ایسے میں کوئی چیز دیکھنے کو دل ہی نہیں چاہااور گھر یاد آنے لگا کہ یہاں نہ آتے تو گھر میں چائے بنواتے اور اس میںڈبو ڈبو کر بسکٹ کھاتے۔اسی دوران ہم قریب ہی نصب لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر کے بعد اٹھ کر ساحل کی طرف جانے لگے تو ہمارے خاندان کی بعض ”شخصیات“ نے ہماری جانب اشارہ کر کے قہقہے لگانے شروع کر دیئے۔ہم نے سیخ پائی کے عالم میں اپنی بہن سے دریافت کیا کہ کیا ہوا، جواب ملا کہ آپ کی پینٹ اور قمیص پر کیچڑلگا ہوا ہے۔تب ہمیں احساس ہوا کہ یہ بینچ پر بیٹھنے کی” سزا“ ہے۔ان حالات نے ہمیں بیزار کر دیااور ہم سارا دن گزارنے کی بجائے ایک گھنٹے میں ہی واپس لوٹ آئے ۔ پھر یوں ہوا کہ ایک مرتبہ پہلی دنیا کے کسی ساحل پرایک گھنٹہ گزارنے کا موقع ملا۔ واہ کیا بات تھی، صاف شفاف پانی کہ اس میں تیرتی یا تہ میں پڑی ہوئی چیز بھی چِلا چِلا کر دعوتِ نظارہ دیتی سنائی اور دکھائی دے۔انتہائی ستھراساحل ، بلور جیسی چمکتی ریت ، ایسا ماحول کہ ہمیں صرف ایک گھنٹہ ملا تھا مگر دل چاہ رہا تھا کہ کاش! ساری زندگی ساحل پر ہی گزر جائے۔بس ایک بات ہے کہ وہاں عورت کا نہ تو خیال رکھا جاتا ہے، نہ اسے اہمیت دی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں تو یہ عالم ہے کہ سڑک کے کنارے اگر کوئی خاتون بس وغیرہ کے انتظار میں کھڑی ہو تو درجنوں کار وں والے ، اسکوٹروں والے، موٹر سائیکل والے رُک رُک کر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ ”آئیے! ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں“ مگر وہ خود ہی بس میں جانے پر مصر ہوتی ہے۔ اسکے برخلاف پہلی دنیا کی عورتیںبے چاری گرمی سے بے حال، سڑک کے کنارے کھڑی ہر آتی جاتی گاڑی یا موٹر سائیکل کو ہاتھ کے اشارے سے”ہیلپ، ہیلپ“ کہہ کرروکنے کی کوشش کرتی ہیں مگر 100میں سے کوئی ایک گاڑی ہی رکتی ہے۔
گزشتہ دنوں کا واقعہ ہے کہ ہماری دنیا کی ایک خاتون نے پہلی دنیا پہنچ کر جدید ملبوسات کے لئے فیشن شوز میںماڈلنگ شروع کی۔ چند ماہ تک تو بڑی دلجمعی سے ریمپ پر کیٹ واک کی مگر پھر اس نے اچانک ماڈلنگ کی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک انٹر ویو کے دوران جب اس سے کیٹ واک ترک کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں جو لباس پہن کر کیٹ واک کرتی تھی، خواتین اسے خریدنا ہی ترک کر دیتی تھیں۔ میں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو ماڈلنگ ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیا کی زیادہ تر خواتین ، پہلی دنیا کی ماڈلز کا مقابلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ یہاں ”ماڈل“ ہوتی ہیں اور ہمارے ہاں”ماں ڈل“، اس لئے ہماری خواتین اچھی” ماں“ تو ثابت ہو سکتی ہیں، اچھی ماڈل نہیں۔اسی لئے میں نے ماڈلنگ کو خیر باد کہہ کر شادی کر لی اور اب میں ”ماں“ بن کر گھر کے معاملات ”ڈیل“ کرتی ہوںاور مثالی ”ماںڈل“بن چکی ہوں ۔ کاش! ہمارے بعض سیاستداں بھی میری طرح سوچنا شروع کر دیں کہ جب سے وہ سیاست میں در آئے ہیں،ملک کا بیڑا غرق ہی ہوتا جا رہا ہے۔اس کے باوجود وہ دنیائے سیاست کو خیرباد کہنے کیلئے تیار نہیں۔انہیں بھی میری طرح سوچ لینا چاہئے کہ وہ سیاست کے ”ماں ڈل“ ہیں چنانچہ سیاسی منظر سے غائب ہو کر کہیں کونے کھدرے میں جابیٹھیں اور زندگی کے دن پورے کریں تاکہ 22کروڑ عوام چین کا سانس لے سکیں۔