Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر عملدرآمد روک دیا گیا، قبضے واپس کرنے کا حکم

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے عابدہ پروین سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ (فائل فوٹو)
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف شروع کیا گیا آپریشن اور اس کے لیے نافذ کیا گیا پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 اب ایک بڑے آئینی اور قانونی تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے
جمعرات کے روز لاہور ہائی کورٹ میں اس آرڈیننس پر سخت سوالات اٹھنے کے بعد اب عدالت نے اس پر عمل درآمد ہی روک دیا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پنجاب حکومت سڑکوں کی بحالی، تجاوزات کے خلاف مہم اور زمینوں پر قبضے کے خاتمے جیسے اقدامات کو اپنی گورننس کا مرکزی بیانیہ بنا رہی تھی۔ حکومتی مؤقف یہ تھا کہ ریاست اب کمزور اور مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑی ہے اور برسوں سے زیرِ التوا مسائل کو فوری حل کیا جا رہا ہے۔
اسی تناظر میں قبضہ مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا اور اسے قانونی تحفظ دینے کے لیے یہ نیا آرڈیننس نافذ کیا گیا۔
حکومت کے مطابق مہم کے ابتدائی دنوں میں ایک ہزار سے زائد قبضہ کے کیسز نمٹائے گئے اور ہزاروں ایکڑ سرکاری و نجی زمین واگزار کرائی گئی، بالخصوص لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں کارروائیوں کے دعوے سامنے آئے۔
آرڈیننس کے تحت ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جائیداد پر قبضے کی شکایت موصول ہونے پر 90 دن کے اندر فیصلہ کریں اور قبضہ ثابت ہونے کی صورت میں فوری طور پر جائیداد اصل مالک کے حوالے کر دی جائے۔
تاہم ابتدا ہی سے قانونی ماہرین اس آرڈیننس پر سوال اٹھاتے رہے کہ آیا انتظامی افسران کو دیے گئے یہ اختیارات آئین اور رائج عدالتی نظام سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ یہ خدشات گزشتہ ہفتے اس وقت کھل کر سامنے آئے جب لاہور ہائی کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے واضح کیا کہ جائیداد سے متعلق تنازعات روایتی طور پر دیوانی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور انتظامیہ کو عدالتی نوعیت کے اختیارات دینا ایک متوازی نظامِ انصاف قائم کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
اب اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کیس کی سماعت کے دوران پنجاب پراپرٹی اونرشپ آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے عابدہ پروین سمیت دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر ابتدائی سماعت کے بعد تمام اعتراضات دور کر کے فل بینچ بنانے کی سفارش بھی کر دی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس قانون کے ذریعے کچھ لوگوں کو تمام اختیارات سونپنے کی خواہش پوری کی جا رہی ہو۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کوئی معاملہ سول کورٹ میں زیرِ سماعت ہو تو ریونیو افسر کس بنیاد پر قبضہ دلا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے سول عدالتوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
عدالت کے حکم پر چیف سیکریٹری پنجاب بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں کیوں موجود نہیں، جس پر بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انہیں خود بھی بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود وہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکریٹری سے مخاطب ہو کر کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ نے خود یہ قانون بھی نہیں پڑھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ قانون کیوں بنایا گیا اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈپٹی کمشنر کسی کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے تو اس قانون کے تحت متاثرہ شخص کے پاس اپیل کا کوئی مؤثر حق باقی نہیں رہتا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکریٹری پنجاب سے مخاطب ہو کر سخت ریمارکس دیے اور کہا کہ ’یوں لگتا ہے آپ نے یہ قانون پڑھا ہی نہیں۔ اگر یہ قانون اسی طرح لاگو ہونا ہے تو پھر جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کروایا جا سکتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ قانون بنایا ہی کیوں گیا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی معاملہ سول کورٹ میں زیرِ سماعت ہو تو ریوینیو افسر کس بنیاد پر قبضہ دلا سکتا ہے۔ عدالت کے مطابق اس آرڈیننس کے ذریعے سول عدالتوں کے اختیارات اور شہریوں کے بنیادی شہری حقوق کو عملاً ختم کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے مزید ریمارکس میں کہا کہ قانون میں یہ شق ضرور شامل ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے پر سٹے دے سکتی ہے، مگر عملی طور پر صورتحال یہ بن رہی ہے کہ موبائل فون کالز پر لوگوں کو طلب کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر پیش نہ ہوئے تو قبضہ ختم کر دیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب جعلی رجسٹریاں اور جعلی دستاویزات بننا ایک حقیقت ہے تو محض شکایت کی بنیاد پر کسی کو درخواست گزار مان لینا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے نہ صرف آرڈیننس پر عمل درآمد روکا بلکہ اس کے تحت دیے گئے قبضے بھی واپس کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو فل بینچ کے سامنے رکھا جائے تاکہ اس قانون کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت اس بات کا اشارہ ہے کہ عدالت تیز ترین انصاف کے نام پر متوازی نظام قائم کرنے کے حق میں نہیں۔ اب تمام نظریں فل بینچ کی آئندہ سماعت پر مرکوز ہیں، جو یہ طے کرے گی کہ پنجاب حکومت کا یہ آرڈیننس برقرار رہتا ہے یا اسے آئینی حدود سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا جاتا ہے۔

شیئر: