Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزارت خارجہ … وسائل،مسائل اور کارکردگی

***محمد مبشر انوار***
سفارت کاری ،زمانہ جاہلیت میں بھی،دو ملکوں کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے اور سفارت کار کو ہمیشہ سے ایک مخصوص استثنی حاصل رہا ہے حتی کہ دو دشمن ریاستوں کے مابین بھی استثنی کا یہ حق سفارت کار کو حاصل رہتا ہے اور سفارت کار کی تکریم میزبان ملک پر لازم رہی ہے،ماسوائے اکا دکا واقعات کے جہاں سفارت کار سے نہ صرف بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا ہووگرنہ بالعموم سفارت کار کی تکریم ہی کی جاتی رہی ہے۔ دور جدید یا مہذب دور میں سفارت کاری کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جب براہ راست’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا قانون بہت حد تک ختم ہو چکا ہو اور کسی بھی دوسری ریاست کو ناکوں چنے چبوانے یا گھٹنوں کے بل جھکانے کے دیگر طور طریقے وضع ہو چکے ہوں۔ ریاستوں کو داخلی عدم استحکام(امن و عامہ اور معاشی )کے ذریعے کمزور کیا جا سکتا ہو،ان کے قائدین پر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہو،متعلقہ افسر شاہی کے ذاتی مفادات کے عوض ان کو خریدا جا سکتا ہو،ثقافتی یلغار سے دوسری ریاست کی تہذیب و تمدن کا جنازہ نکالا جا سکتا ہو،غرضیکہ بے شمار ایسی سمتیں ہیں،جہاں نقب لگا کر دوسری ریاست کو کھوکھلا کیا جا سکتاہو،ایسی صورت میں ایک بیدار مغز سفارت کاراپنی ریاست اور اسکے اکابرین تک ایسی تمام تر اطلاعات بہم پہنچا سکتا ہے اور ان گھناؤنی حرکات کے سد باب سے آگاہ کر سکتا ہے۔ ریاستی اکابرین ان مسائل کے قبل از وقت معلوم ہونے پر نہ صرف ان کا توڑ کر سکتے ہیں بلکہ اس کا جوابی وار بھی کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ریاست سے وفادار ہوں،ریاستی مفادات کو ترجیح دیتے ہوں نہ کہ ذاتی مفادات کے عوض ریاستی مفادات کو داؤ پر لگا نے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار ہوں۔ مفادات کی اس دنیا میں یہ سفارت کار ہی ہیں جو دوسری ریاست میں بیٹھ کر اپنے وطن کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے،میزبان ملک کے ساتھ ہر قسم کے تجارتی و دفاعی و ہنر مندافرادسے متعلق امو ر پر اپنی نگاہیں مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے وطن کی متعلقہ پراڈکٹ کو میزبان ملک میں درآمد کرواتے ہیں۔ مزید برآں کسی بھی دوسرے ملک میں تعینات یہ سفارتکار ،دشمن ملک کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ نئے تعلقات ،ان تعلقات کی مختلف جہتیں ان کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے اپنے ملک کو جوابی پالیسی کے ساتھ ساتھ میزبان ملک کو بھی اپنے وطن سے تعلقات اور مفادات سے متعلق آگاہ کرتے ہیں تا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید مضبوطی و گہرائی آئے۔ 
سفارت کاری انتہائی کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے کہ اس میں سفارت کار ،کانہ صرف میزبان ملک کے مفادات سے آگاہ ہونا ضروری ہے بلکہ میزبان ملک کے رسم و رواج،عوامی رجحان ،تاریخ اور تاریخی حوالے وغیرہ کے متعلق جانکاری ،کامیاب سفارتکاری کے لئے انتہائی اہم اور ضروری تصور ہوتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں دفاع کے بعد جس وزارت کو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہ وزارت خارجہ ہے،جہاں تاریخ کے ماہر ین،متعلقہ ملک کی تاریخ ازبر کئے ہوتے ہیں اور اپنی حکومتوں اور سفارتکاروں کو مذکورہ ملک کی تمام اہم باتوں سے روشناس کرواتے ہیں،ان ممالک میں متعین ہونے والے سفارتکاروں کی تربیت کرتے ہیں،بدلتی ہوئی صورتحال میں،ہمہ وقت انہیں کمک پہنچانے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں تا کہ دیار غیر میں بیٹھے ان کے سفارت کار ہر صورت ملکی مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔ اس مقصد کے لئے ترقی یافتہ ممالک نے باقاعدہ تھنک ٹینکس بنا رکھے ہیںجہاں دنیا بھر کے مختلف خطوں میں ہونیوالے واقعات کے پس منظر،پیش منظر اور آنے والی متوقع تبدیلیوں پرمسلسل سوچ و بچار کیا جاتا ہے اور اپنے سفارتکاروں کو تفصیلی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ ان تھنک ٹینکس کے علاوہ کیرئیر سفارتکاروں کی ایک بڑی کھیپ ان ممالک کے پاس موجود ہوتی ہے جس کا ایک تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے کہ کس طرح ترقی یافتہ ممالک اور ابھرتی ہوئی طاقتیں ریاستی مفادات کے حصول میں سرگرم عمل ہیں۔ چین کے کیرئیر سفارتکاروں کی تعداد تقریباً 5,000، ہندوستان میں 4,000، ترکی میں 4,000سے زائد ،انڈونیشیا میں 4,000سے زائد جبکہ پاکستان میں کیرئیر سفارتکاروں کی تعداد انتہائی کم صرف 500کے قریب ہے۔ صرف انڈونیشیا میں ہر سال 100نئے سفارتکاروں کی بھرتی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد فقط 20-25ہے،پاکستان کے ان 500سفارتکاروں میں سے تقریباً 150ہمہ وقت اسلام آباد موجود رہتے ہیںاور ریاست پاکستان کو صرف 350سفارتکاروں کی بیرون ملک خدمات میسر ہوتی ہیں۔ کسی بھی سفارت خانے میں مختلف سطحوں پر اپنے فرائض سرانجام دینے والے ان سفارتکاروں یا وزارت خارجہ کے نو آموز افسروں کی تربیت بھی دوران پوسٹنگ ہوتی رہتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیںاور اس کے باوجود ہم جیسے تجزیہ نگاروں سے سخت سست بھی سنتے رہتے ہیںمگر اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ ایسانہیں کہ سارے آفیسرز ہی تندہی سے کام کرتے ہیں اور ریاستی مفادات کا تحفظ ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں،بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کئی ایسے مواقع،جہاں ریاستی مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر بھی ذاتی مفادات کشید کئے جا سکتے ہوں،ان سے نہیں چوکتے جبکہ اکثریت قومی خدمت کے جذبے کے تحت ریاستی مفادات کا تحفظ کرتی ہی نظرآتی ہے۔ 
بالعموم ان سفارتکاروں کا شکوہ و شکایت بڑا حقیقی ہوتا ہے کہ مقابلے کی اس دنیا میں جہاں باقی اقوام کے پاس ضرورت سے زیادہ افراد میسر ہیں،پاکستان اپنے محل وقوع اور اہمیت کے اعتبار سے ،اس تعداد سے کہیں زیادہ کیرئیر سفارتکاروں کا متقاضی ہے کہ جس طرح باقی ممالک اپنی سفارت کاری کے ذریعے اپنی ریاستوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں،دنیا بھر کے باقی ممالک کی تاریخ اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق پس منظر،پیش منظر اور متوقع تبدیلیوں سے مفادات کشید کرنے کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں،وہ سہولت پاکستانی سفارتکاروں کو میسر نہیں۔ در حقیقت پاکستانی سفارتکاروںکو جو عملہ بھی دستیاب ہوتا ہے اس کی اہلیت پر بھی بے شمار سوالیہ نشانات ہوتے ہیں کہ حکومتی بزرجمہر فقط اپنے علاقے یا حلقے کے بیروزگاروں کو ،روزگار فراہم کرنے کے لئے ،ان کی اہلیت یا دلچسپی جانے بغیرایسی جگہوں پر تعینات کر دیتے ہیں جو بجائے فائدہ مند ہونے کے الٹا کام کا بوجھ بڑھا دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے افسران اس امر سے بھی شاکی ہیں کہ ان کا بیشتر وقت بالعموم فائلوں کا پیٹ بھرنے،کاغذات کو متعلقہ فائل میں لف کرنے /کروانے میں ہی گذر جاتا ہے اور وہ حقیقی طور پر اس تحقیق سے دور رہتے ہیںجو انہیں پروفیشنل زندگی میں درکار ہوتی ہے،جس سے وہ مختلف ممالک میں ہونے والی سیاسی ،سماجی ،معاشی تبدیلیوں پر حکومت وقت کو قبل از وقت آگاہ کر کے وطن عزیز کے لئے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کر سکیں۔سفارتی تعلقات آج کے دور میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام تر ممکنہ وسائل اس وزارت کو مہیا کرتے ہیں،تا کہ اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ کر سکیں جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر مگر جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین ملک میں (موجودہ اعدادوشمار)واضح کرتے ہیں کہ اس وزارت اور اس میں کام کرنیوالوں کو نہ تو مذکورہ وسائل میسر ہیں اور نہ ہی وہ ماحول جس میں کام کر کے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کما حقہ کر سکیں لیکن اسکے باوجودکہ تمام تر تنقیداور سخت سست سن کر بھی پاکستان کے یہ سپوت اپنی مقدور بھر کوششوں میں مصروف عمل،ریاست کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے یہ واضح ہے کہ پرکشش مراعات کے باوجود ہمارے وزارت خارجہ کے بابو ،سو فیصد نتائج دینے سے قاصر ہیں ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں