Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوری مگر درست فیصلے

***محمد مبشر انوار***
سیاست ممکنات و امکانات کا کھیل ہے مگر اس کھیل میں سیاستدان کے فوری مگر درست فیصلے کامیابی کی ضمانت بنتے ہیںوگرنہ سیاستدان کے نصیب میں سوائے پشیمانی و ہاتھ ملنے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تاریخ پر نظر دورائیں تو ایسے سیاستدانوں کی تعداد معدودے چند ہے جنہوں نے نہ صرف سیاست کے کھیل کو صحیح طریقے سے سمجھا بلکہ اس کو مروجہ قواعد و ضوابط کے ساتھ کھیلتے ہوئے خیرہ کن کامیابیاں حاصل کیں۔سیاست دان کی دوسری منفرد صفت غلطیوں سے سیکھنے کی ہے کہ ایک طاق سیاست دان کسی بھی صورت غلطیوں کو نہ صرف دہرانے سے باز رہتا ہے بلکہ ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے بہتر لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں اترتا ہے اور یہی بہتر لائحہ عمل اس کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ پاکستان میں ایسے سیاستدانوں پر نظر دورائیں تو چند ایک سیاست دان ایسے نظر آئیں گے جنہوں نے نہ صرف اپنی غلطیوں سے سیکھا بلکہ مستقبل میں بہتر لائحہ عمل کے ساتھ اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلا۔ ہر چند کہ سیاست دان بھی انسان ہی ہیں اور بعینہ ایک عام انسان کے وہ بھی غلطیوں سے مبرا نہیں لیکن ایسے سیاست دان جو اپنی غلطیوں سے نہ سیکھیں اور مسلسل غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہیں،انہیں سیاست دانوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں گزشتہ صدی کے دوران جن سیاستدانوں نے اپنی سیاست کا لوہا منوایا،ان میں سر فہرست بابائے قوم محمد علی جناح کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں جگمگاتا نظر آتا ہے۔ غلطیاں ان سے بھی ہوئیں لیکن ایک تو ان کی سیاسی بصیرت دوسرے ان کی اخلاقی ساکھ ایسی تھی کہ حریف بھی اسے تسلیم کرنے میں عار نہیں سمجھتے ۔ قائد اعظم اپنی سیاسی بصیرت کے بل بوتے پر،جو اُن کی ایک خداداد صلاحیت تھی،کبھی فیصلہ کرنے میں جلد بازی کا شکار دکھائی نہیں دئیے اور نہ کبھی فیصلہ کر کے اس سے پیچھے ہٹے بلکہ وہ فرمایا کرتے کہ فیصلہ کرنے کے بعد اس کو ٹھیک ثابت کرنا چاہئے نہ کہ اس فیصلے سے سر مو انحراف کیا جائے۔ انحراف کرنے میں سیاست دان کی سیاسی بصیرت داؤ پر لگتی ہے جس کا خمیازہ اسے اپنی سیاسی زندگی میں بہر صورت بھگتنا پڑتا ہے ۔ 
پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی چھاپ انتہائی گہری ہے مگر وہ بھی سیاسی فیصلوںمیں شدید غلطیاں کر کے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ان کی سیاست کی چھاپ ہنوز پاکستانی سیاست میں موجود ہے گو کہ آج پیپلز پارٹی کی سیاست عوامی سیاست نہیں رہی مگر آج بھی اس کا وجود پاکستانی سیاست میں بہر طور موجود ہے۔ دوسری طرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی میں ان کی سب سے بڑی غلطی غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ تھا،جس کو بعد ازاں محترمہ تسلیم کرتی رہیں کہ یہاںوہ زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے لیکن ضیاء الحق نے محترمہ کی اسی خود اعتمادی کافائدہ اٹھایااور ملک میں غیر جماعتی انتخابات کروا کر ایک ایسی سیاسی اشرافیہ پیدا کی جو ہنوز پاکستانیوں پرمسلط ہے،جس کے نزدیک اصول و ضوابط نام کی کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔ ان کے نزدیک اہمیت صرف اور صرف اقتدار کی ہے اور اس کیلئے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں وگرنہ وہ ریاست کے وجود کو ہی تہس نہس کرنے سے گریز نہیں کریں گے ،یہی کچھ اس وقت پاکستانی سیاست میں ہو رہا ہے کہ ایک ’’تاجر‘‘ سوائے تجارت کے اور کیا کر سکتا ہے؟اس کے نزدیک آج ریاست بھی ایک ’’سودے‘‘ کے حیثیت اختیار کر چکی ہے،جس کی سالمیت کی ضمانت بعوض اپنی غلطیوں،اپنی کرپشن و غیر قانونی اثاثہ جات کی معافی پر ہی ،دینے کو تیار ہے نہ کہ اپنے اثاثہ جات کی صحیح اور مستند منی ٹریل کی فراہمی سے خود کو بے گناہ ثابت کر ے۔ 
اس پس منظر میں پاکستانی افقِ سیاست پر جو ایک سیاسی پارٹی بچتی ہے،اس کے قائد کی سیاسی بصیرت بھی بارہا دیکھی جا چکی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ فی الوقت موجودہ صورتحال میں کوئی دوسرا آپشن بظاہر نظر نہیں آتا اور خان اپنی تمام تر غلطیوں کے اقتدار میں جزوی طور پر آتا دکھائی دیتا ہے۔ جزوی طور پر اس لئے کہ جو پرفارمنس سیاست میں بطور سیاست دان متوقع ہوتی ہے،خان اڑھائی دہائیوں سے وہ پرفارمنس دینے میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔سیاست میں ،فوری اور صحیح فیصلہ کرنے میں بری طرح ناکام مگر ہر مرتبہ قسمت یاوری کر رہی ہے اور وہ تمام بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جو معیار خان نے سیاست میں اپنے لئے طے کئے تھے ،آج وہ ان سے کوسوں دور ہے،بالخصوص جس طرح تھوک کے حساب سے ایلیکٹ ایبلز پارٹی میں جمع کئے جارہے ہیں ،ان سے صرف ایک ہی مقصد واضح نظر آتا ہے کہ کسی طرح اقتدار مل جائے۔ ایسا اقتدار حاصل کرنے کے بعد خان کیا اصلاحات کر پائے گا،جب اس کی دونوں جیبوں میںکھوٹے سکے اور صرف ایسے ایلیکٹ ایبلز ہوں گے،جن کا مقصد حیات ہی فقط اقتدار میں آ کر لوٹ مار کرنا ہو؟جس سہانے خواب کا سپنا خان نے اپنے ابتدائی ایام میں دکھایا تھا اور جس پر اس کے جانثاروں نے لبیک کہاتھا،آج وہ سارے جانثار پارٹی کی پچھلی صفوں میں حیران ہی نہیں تذبذب و بے چینی کا شکار دکھائی دے رہے ہیںجبکہ کچھ سر پھرے ایسے ہیں جو ببانگ دہل خان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہیں بالخصوص اس وقت جب کسی دوسری پارٹی کا ’’لوٹا‘‘’’ریلو کٹا‘‘ تحریک انصاف کا رکن بنتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارٹی کے اندر جو رسہ کشی و کھینچا تانی جاری ہے،وہ بذات خود ایک تماشہ ہے کہ قائد کی ناک کے عین نیچے کس طرح دھڑے بندیاں جاری ہیںاور کیسے پارٹی کے سینیئررہنما اپنے اپنے دھڑے کو مضبوط کرنے میں جتے ہیں۔ کس کس طرح کے غلط فیصلے خان سے کروائے جارہے ہیں کہ خان جن ساتھیوں کو مخلص اور جانثار سمجھ رہا ہے وہ کس طرح اس کی شخصیت کو بیچ رہے ہیں؟انتہائی اہم ترین وقت پر جب پارٹی کی  سینیئر قیادت کو انتہائی مخلصانہ طور پر نہ صرف خان بلکہ پارٹی کا دست و بازو بننا چاہئے تھا ،خان کے اعتماد کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ خواہ وہ نگران وزیر اعظم کا معاملہ ہو یا نگران وزرائے اعلیٰ کا،ہر دو جگہوں پر خان کو ایسے مشوروں سے نوازا گیا،جس پر خان کو بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی۔بات یہیں تک رہتی تو بھی کوئی مضائقہ نہ تھا مگر ایسے مشوروں نے خان کی ذاتی حیثیت کو جس بری طرح متاثر کیا ہے،وہ ناقابل بیان ہے۔ درحقیقت کسی بھی سیاست دان کیلئے یہی وہ وقت ہوتاہے جب اس کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی معلومات کس قدر ہیں اور وہ ملکی معاملات کے حوالے سے کس قدر آشنا ہے۔ان معاملات میں خان کی ذاتی حیثیت بری طرح بے نقاب ہو گئی ہے کہ خان کی ذاتی معلومات ان اہم ترین معاملات پر کتنی کم ہیں اور اس کے ساتھی اسے کس طرح استعمال کررہے ہیں؟کیا یہ واقعات خان کی آنکھیں کھولنے کیچلئے کافی نہیں کہ وہ انتخابات میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ خود سے تجزیہ کر لے کہ اُس کے ساتھی اِس کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟وگرنہ انتخابی ٹکٹس کی تقسیم میں بھی خان اسی طرح استعمال ہو گااور فوری و صحیح فیصلے نہ کرنے کی پاداش میں ملک و قوم کو پھر دھرنوں کا عذاب سہنا پڑے گا!!!
 

شیئر:

متعلقہ خبریں