Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی وہ ہے جو بتائے بغیر نظر آئے

***وسعت اللہ خان ***
  حالانکہ میڈیا کا کام قاری ، سامع اور ناظر کو باخبر رکھنا ہے۔مگر پاکستان میں ایک عام آدمی ملٹی چینل دنیا سے پہلے جس قدر باخبر تھا آج درجنوں طوطا مینا چینلوں اور اخبارات کی موجودگی میں اسی قدر بے خبر ہے۔کنوئیں کا مینڈک بننے کا جہاں نقصان ہے وہیں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی خیالی جنت میں اطمینان سے پاؤں پسارے آلکسی کے مزے لے سکتے ہیں اور فرض کرسکتے ہیں کہ  کنوئیں کے باہر بھی سکھ چین ہے۔
  اس وقت مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کی ایک تہائی آبادی ( ستاسی ملین نفوس ) جنگوں سے براہِ راست متاثر ہے۔لیبیا ، یمن ، عراق اور شام میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو جاری جنگ کی تباہ کاری سے بچ گیا ہو۔ ایک کروڑ 35 لاکھ شامی ، 82 لاکھ عراقی ، 2 کروڑ 11 لاکھ یمنی اور 24 لاکھ لیبیائی ہر طرح  کی انسانی امداد کے مستحق ہیں۔
شام اور عراق کی فی کس آمدنی میں گذشتہ پانچ برس کے دوران بالترتیب  23 اور28 فیصد کمی ہوئی ہے اور سالانہ قومی آمدنی بالترتیب چودہ اور سولہ فیصد تک سکڑ گئی ہے۔
مشرقِ وسطی کے چار ممالک میں جاری بحران کے سبب گزشتہ  7 برس کے دوران علاقائی معیشت کو کم ازکم  ساٹھ ارب ڈالر کا بلا واسطہ نقصان پہنچا ہے۔
یہ نقصان اس  دباؤ  کے علاوہ ہے جو جنگ زدہ ممالک کے ہمسائیوں کو پناہ گزینوں کی بھاری تعداد میں آمد کے سبب برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔مثلاً اردن جو کہ پہلے ہی ایک غریب ملک ہے۔اسے سالانہ جو بھی آمدنی ہوتی ہے اس کا 25 فیصد پناہ گزینوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہو رہا ہے۔ 
گو شامی پناہ گزینوں کی شکل میں ترکی اور لبنان کے متعدد زمینداروں اور کاروباریوں کو سستی افرادی قوت میسر آ گئی ہے مگر سستی افرادی قوت کا نقصان یہ ہوا کہ مقامی مزدوروں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی۔ پچھلے7 برس کے دوران10 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں پر اخراجات کے سبب تیل کی قیمت میں کمی کے جو فوائد لبنانی معیشت کو حاصل ہونے تھے وہ نہ صرف غتر بود ہوگئے بلکہ قومی آمدنی میں لگ بھگ تین فیصد سالانہ کی کمی کے سبب پچھلے 6 برس میں مزید2 لاکھ لبنانی انتہائی غریب طبقے میں شامل ہو گئے۔
اگر جنگ سے بلاواسطہ متاثر ہونے والوں پر اتنا دباؤ ہے تو سوچئے کہ جنگ سے براہِ راست متاثر ہونے والے کس کیفیت میں ہوں گے ؟ لبنان  میں اس وقت جو شامی پناہ گزین ہیں ان میں بے روزگاری کا تناسب بانوے فیصد تک ہے۔شام کی آدھی آبادی (12 ملین ) اس وقت اندرون یا بیرونِ ملک دربدر ہے۔اسی طرح عراق  میں ڈھائی ملین انسان اندرونِ ملک راندہِ درگاہ ہیں۔لیبیا میں گھروں سے نکلنے والوں کی تعداد4 لاکھ 35 ہزار ہے۔ان میں تین لاکھ پناہ گزینوں کی عمر 15برس سے کم ہے۔
مگر امید کی کرن باقی رہتی ہے۔۔ اس وقت مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کے نیم دائرے میں واقع جو 4 ممالک جنگوں کی لپیٹ میں ہیں وہ چاروں تیل کی پیداوار والے ممالک کہلاتے ہیں۔کچھ زیادہ کچھ کم۔
تیل چونکہ نقد آور دولت ہے لہذا ایسے ممالک کی اقتصادی بحالی بھی غیر تیل ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ممکن ہے۔جیسے1990-91ء میں عراقی قبضے سے نکلنے کے بعد کویتی معیشت کی مکمل بحالی میں 7 برس اور 2003ء  میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد قبل از جنگ سطح  کی معاشی بحالی میں ایک برس کا عرصہ لگا۔لبنان کو تیل کی دولت میسر نہیں لہذا اسے ستر کی دھائی سے نوے تک جاری رہنے والی پندرہ سالہ خانہ جنگی کے سماجی و اقتصادی اثرات سے نکلنے میں  بیس برس لگ گئے۔
تاہم تیل کی عالمی قیمت بھی اگر مسلسل اتار چڑھاؤ  رہے تو پھر آئل سیکٹر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور معیشت کے دیگر شعبوں کو قابل برآمد سطح تک لائے بغیر صرف تیل سے معاشی بحالی کی تھیوری نہیں چلے گی۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جمہوری فضا میں آمرانہ فضا کے مقابلے میں ترقی کی شرح زیادہ تیز ہوتی ہے۔اگر عرب ا سپرنگ کے سبب عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں جنگیں نہ ہوتیں  تو آج شاید خطے کی سالانہ قومی آمدنی کی اوسط شرح  7.8 فیصد سالانہ تک پہنچ جاتی ( یعنی چین کی سالانہ شرحِ نمو کے برابر)۔
عالمی بینک کا خیال ہے کہ مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کی عرب بربر معیشتوں کو اگر تیل کی محتاجی سے آزاد کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا مقصود ہے تو جلد یا بدیر ایسا نظام اختیار کرنا ہی ہوگا جس میں عام آدمی بھی قومی ترقی کا کلیدی پرزہ بن سکے۔
  نظام کو  بچانے کے طور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ نہ بدلیں تو جس طرح ایک مرحلے پر آ کر فورتھ جنریشن اینٹی بائیوٹک بھی مریض پر کوئی اثر نہیں کر پاتی اسی طرح  ایک خاص مرحلے کے بعد کوئی  بھی مصنوعی  کوشش نظام کو سہارا دینے میں ناکام ہو جاتی ہے۔
یوں سمجھئے کہ پانی 100 درجہ سینٹی گریڈ پر ابلنے لگتا ہے اور اس حد کے بعد اسے جتنا گرم کیا جائے گا وہ ہرگز نہیں ابلے گا بلکہ تیزی سے وہ اپنی ماہیت تبدیل کرتے ہوئے بھاپ بن کر اڑنے لگے گا۔یہ بات ایک پرائمری سکول کا بچہ بھی جانتا ہے۔
اس اعتبار سے سعودی عرب میں وقت ، حالات اور بدلتی دنیا کی نزاکتوں کو محسوس کرتے ہوئے پچھلے ڈیڑھ برس سے  تبدیلیوں کا جو عمل شروع ہوا ہے اور جس طرح نئی نسل کو رفتہ رفتہ بااختیار اور سٹیک ہولڈر ہونے کا بتدریج  احساس دلایا جا رہا ہے وہ ایک خاصا حوصلہ افزا عمل ہے۔کوئی بھی دولت یا وسیلہ دائمی نہیں ہوتا۔تیل بھی ایک دن ختم ہو جائے گا۔اس کا احساس کرتے ہوئے ویژن2030 کی منصوبہ سازی کا اگر دیگر علاقائی حکمتِ عملیوں کے معیار سے موازنہ کیا جائے تو سعودی عرب یقیناً ایک ٹرینڈ سیٹر ملک نظر آتا ہے۔اس ویڑن کی کامیاب تکمیل  آس پاس کی دیگر معیشتوں کے لئے بھی تبدیل پسند سوچ  پر عمل پیرائی کی ایک نئی راہ کھول سکتی ہے۔
 

شیئر: