Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی سیاست نئے موڑ پر

نوازشریف اور زرداری ایک ہو گئے تو الیکشن ملتوی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں ، کسی کی بھی قسمت بدل سکتی ہے،پی پی سندھ میں غیر مقبول ہو چکی ، کوئی اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے اسکی حیثیت میں شبہ نہیں 
صلاح الدین حیدر
جمعہ کو جب یہ سطور آپ کی زیر نظر ہوں گی، اسی دن پاکستان میں شاید ایک نئی تاریخ لکھی جائے یا پھر ملک کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو۔ عدالت کے فیصلے کے بارے میں پیش گوئیاں یا تبصرہ نہ صرف نامناسب بلکہ جاہلانہ عمل ہے۔ حکمران پارٹی کے تحت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر عدالتِ عظمیٰ جیسے بلند پایہ ادارے کی تضحیک ہی نہیں کی بلکہ انتہائی نازیبا اور بے تُکے الفاظ میں مذاق بھی اُڑایا۔ آج وہ سب (جس میں دانیال عزیز، طلال چوہدری اور مریم اورنگزیب شامل ہیں) اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ دانیال عزیز کو 5 سال کے لیے نااہل قرار دیدیا گیا اور جوڑی دار طلال چوہدری کو اس سے بھی زیادہ سخت سزا ملنے کی توقع ہے۔ مریم اورنگزیب کی بھی باری جلد آجائیگی۔ 6 جولائی کو سپریم کورٹ سے نواز شریف کو باعزت بری کردیا جاتا ہے تو پھر وہ اور سارا خاندان ہیرو ہی نہیں بلکہ بادشاہ بن جائے گا۔ نواز شریف ضدی اور بدلہ لینے والے انسان ہیں، مگر عام تصور یہی ہے کہ نواز، مریم، کیپٹن صفدر کو سزا ہوجائیگی۔وہ عدالت اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے بار بار پوچھنے کے باوجود بھی اتنے بڑے اثاثے بنانے کے ذرائع بتانے سے انکاری رہے۔ ظاہر ہے کسی بھی مہذب معاشرے میںجرم کی سزا لازم ہے۔ 
کیا فیصلہ آتا ہے، پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔لوگوں کی سانسیں رُک گئی ہیں۔یہی حال ظاہر ہے بیرونِ ممالک رہنے والے پاکستانیوں کا ہوگا۔ فیصلہ جو بھی آئے، ملک کی تاریخ اور رخ موڑنے کا موجب ہوگا۔ انتخابات صرف 3 ہفتے دُور ہیں۔ تو کیا (ن) لیگ بغیر نوازشریف کے الیکشن میں حصہ لے گی، اگر نہیں تو پھر کیا بائیکاٹ ہوگا؟ نواز شریف نے اب تک اداروں سے رشتہ جوڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انتہائی جارحانہ طرز اختیار کررکھا ہے، جو کسی بھی طرح سود مند نہیں۔ جس طرح کا رویہ انہوں نے 28 جولائی 2017 سے نااہل ہونے کے بعد اختیار کیا، وہ یقینا انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں، سارے کے سارے مبصرین اس پر متفق ہیں۔ اختلافی نوٹس صرف (ن) لیگ کے حمایتیوں کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ فیصلے کے بعد کیا ہوگا؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ حالات گڑبڑ ہوسکتے ہیں، لیکن سڑکوں پر لڑائی جھگڑا یا ایوب خان اور بھٹو مخالف جیسی تحریکوں کا زمانہ تو خیر اب نہیں ہے، احتجاج جگہ جگہ ہوسکتا ہے مگر جلاؤگھیراؤ جو ماضی کا حصہ رہا ہے، اب شاید نہ ہوسکے۔ فوج اور عدلیہ کا کردار اہم ہوچکا ہے۔ دونوں ہی ایک ترقی پسند پاکستان کے خواہش مند ہیں۔
جب تک تشدد نہ ہو اور حکومتی اداروں کو نقصان نہ پہنچے، تحریک کسی بھی قسم کی ہو خود بخود دم توڑ دیتی ہے، اپنی موت آپ مر جاتی ہے، اسی لیے عوام کو کسی قسم کا خوف نہیں۔ (ن) لیگ کے چانسز روز بہ روز کم ہوتے جارہے ہیں لیکن معدوم نہیں ہوئے۔آج بھی نواز لیگ پنجاب پر گرفت رکھتی ہے لیکن عمران خان کے عزم کو نظر انداز کرنا بھی بے عقلی ہوگی۔ ایک خاص نکتہ جس کی طرف اکثر تجزیہ نگار اشارہ کرتے ہیں، وہ یہ کہ کہیں نواز شریف اور زرداری ایک نہ ہوجائیں، ایسا ہوا تو پھر الیکشن ملتوی ہونے کے چانسز میں اضافہ ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ابھرنے کے مواقع بھی بہت کم ہیں،سندھ میں ضرور بلاول گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جلسے کرتے پھر رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا اثررسوخ بہت زیادہ ہے۔ گریٹرڈیموکریٹس الائنس (جس کی سربراہی پیر پگارا جیسے زیرک سیاست دان کررہے ہیں) نے اب تک کوئی خاص رنگ نہیں دکھایا۔پیپلز پارٹی سندھ میں بھی غیر مقبول ہوچکی ہے لیکن اپوزیشن کوئی نہیں، اس لیے اس کی جیت میں شبہ نہیں۔ 
عمران خان ویسے تو بہت پُراعتماد ہیںلیکن انتخابات بھی کسی لاٹری یا جوئے کی طرح ہوتے ہیں۔ کسی کی بھی قسمت بدل سکتی ہے۔ ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق زرداری اور نواز شریف کسی دوست کے گھر ملاقات کرچکے ہیں۔ دونوں ہی کو شکست کا خطرہ ہے۔ اگر واقعی دونوں اکٹھے ہوگئے،گو ایسا ممکن تو نہیں لگتا لیکن سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں، تو پھر عمران کے لیے نتائج اپنے حق میں رکھنا اچھا خاصا مشکل ہوجائے گا، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ بہرحال پاکستان کی سیاست نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں