Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدی کی ڈیل

نبیل نجم الدین ۔ الحیاة
”صدی کی ڈیل“ کے عنوان سے جو کہانی چل رہی ہے، اسے انتہائی صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اس ڈیل کے بعض نقوش بین الاقوامی اور عرب دنیا کے سیاسی منظر نامے پر ابھر کر آنے لگے ہیں۔ اس ڈیل کی اہم بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کو مشرقی القدس کے بجائے ابو دیس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت قبول کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ قدیم بیت المقدس اسرائیل کے کنٹرول میں رہیگا۔ اس پر اسرائیل کے سوا کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا۔ اسرائیل 3کالونیوں آری ایل ، غوش عتصیون اور معالیہ ادومیم کو چھوڑ کر پورے غرب اردن سے انخلاءکریگا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے موضوع پر کوئی گفت و شنید نہیں ہوگی۔ فلسطینی ریاست قائم ہوگی البتہ فوج اور بھاری ہتھیار رکھنے کی مجاز نہیں ہوگی۔ غزہ کی تعمیر نو کا اقتصادی منصوبہ روبعمل لایا جائیگا۔ وادی الاردن کلیتاً اسرائیل کے زیر قبضہ رہیگی۔ بیت المقدس کے اوقاف اور مقامات مقدسہ سے اردن کی ہاشمی ریاست کی تولیت ختم ہوجائیگی۔
صدی کی ڈیل پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد گریٹ کوشنر کام کررہے ہیں۔” صدی کی ڈیل“ نامی یہ منصوبہ فلسطینیوں ، مصر ، اردن کے موقف سے متصادم ہے۔ فلسطینی حکومت اور عوام اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ مصر نے واضح کردیا ہے کہ مشرقی القدس ہی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے اور رہیگا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو اپنی ڈیل کے حق میں مصرکی منظوری نہیں ملی۔ مصر 4جون 1967ءکی سرحدوں پر 2ریاستوں کے قیام پر مبنی جامع اور منصفانہ معاہدے کے دعویدار امن فارمولوں اور مساعی کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کئے ہوئے ہے۔ مصر اُن امن فارمولوں کے حق میں ہے جن میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مشرقی القدس ہی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے۔ مصر مشرقی القدس سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ اردن کے عوام اور حکومت بھی اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی اطلاعات سے شاکی ہے۔ اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ الثانی صدی کی ڈیل کو مسترد کرچکے ہیں۔ مشرقی القدس کے مستقبل سے متعلق انہیں صدی کی ڈیل کا کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں۔ اسی طرح مقامات مقدسہ پر اردن کی تاریخی تولیت بھی ختم کرنا اسے قبول نہیں۔ علاوہ ازیں وادی اردن پر اسرائیل کا مسلسل قبضہ بھی اس کےلئے ناقابل قبول ہے۔
عرب ذرائع کا کہناہے کہ ” صدی کی ڈیل“ کی بابت خلیجی قائدین کے نقطہ ہائے نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر غزہ پٹی کی تعمیر نو کےلئے درکار فنڈ میں قطر کی شراکت پر خلیجی قائدین کو تحفظات ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خلیجی قائدین مشرق عربی میں ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام لگانے کیلئے مستقبل کی محاذ آرائیوں سے بچنے کی خاطر صدی کی ڈیل میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدی کی ڈیل کی بابت بہت ساری مغالطہ آمیز باتیں چل رہی ہیں۔ اس سلسلے میں دروغ بیانیوں سے کام لیا جارہا ہے اور ماحول کو گرد آلود کرنے کا چکر بھی چل رہا ہے۔
پہلا مغالطہ تو خود نام کے حوالے سے ہے۔ امریکی اسے” الٹی میڈٹلی ڈیل“ یعنی حتمی سودے کا نام دے رہے ہیں جبکہ عربوں نے اسے” سنچری ڈیل“ یعنی صدی کی ڈیل کاعنوان دیا ہے۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین و روایت کا مذاق اڑانے کےخلاف ہے اور جان بوجھ کر انارکی پھیلائی جارہی ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین کے اصل فریق ہونے کی حیثیت سے ”امریکہ کی صدی کی ڈیل “ کہنا پسند کرینگے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج پوری دنیا امریکی صدی کے حوالے سے مشکلات و مسائل سے دوچار ہے۔ یہ امریکی صدی ہے جس میں بین الاقوامی قوانین ، روایات اور دستاویزات کو کسی طرح کی کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔ یہ ایسی صدی ہے جس میں خارجہ پالیسیاں امریکہ کے محدود مفادات کے مطابق تشکیل دی جارہی ہے۔دوسرامغالطہ یہ ہے کہ امریکی صدی کی ڈیل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ گزشتہ30برسوں کے دوران امریکی سرپرستی میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ ،اوسلو اور وادی عربح معاہدوں کو نظر انداز کیا جارہاہے۔ چوتھا مغالطہ یہ ہے کہ امریکی صدی کی ڈیل سے یورپی یونین اور روس سمیت تمام بین الاقوامی فریقوں کو خارج کردیا گیا ہے۔
یہ خود ساختہ ڈیل 1981ءکے دوران یہودی خاندان میں جنم لینے والے گریٹ کوشنر کی تیار کردہ ہے۔ یہ صاحب ڈیموکریٹک پارٹی کے متوالے ہیں اور اسرائیل سے خصوصی تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں۔ ان کے والد مقبوضہ فلسطین میں غیر منقولہ جائدادوں کا کاروبار کررہے ہیں۔ اس خاندان کے بڑے اچھے تعلقات امریکی کمیٹی برائے اسرائیلی امور’ ’ایباک“ کے ساتھ ہیں۔ اس نوجوان نے 2009ءمیں ٹرمپ کی بیٹی سے اس وقت شادی کی جب اس نے یہودی مذہب قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے اس کے 3بیٹے ہیں۔ وہ امریکی صدر کا مشیر ہے۔ وہی مشیر جس نے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اسے اسرائیل کے سیاسی اور مذہبی حلقوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی اسے پکا حلیف سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ مذکورہ ڈیل کے نفاذ میں لگا ہوا ہے اور مسئلہ فلسطین کی ایک، ایک شق کو پس پشت ڈال کر مذکورہ ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: