Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اخلاق ،سب سے بڑی قوت

غلطی کا ہو جانا باعث تعجب نہیں مگر اپنی غلطی کا ادراک واعتراف کرنا ، اپنی غلطی مان لینا، آج کے دور میں یہ باعث تعجب بات ہے
* * * *عبد المالک مجاہد ۔ ریاض * * *

گزشتہ سے پیوستہ

    اخلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ہر اچھی بات، ہر نیکی، لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی، چہرے پر مسکراہٹ ، اچھی ہمسائیگی اختیار کرنا اور صرف اپنوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں حتی کہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا، یہ سب چیزیں عمدہ اخلاق میں شامل ہیں۔
    ایک عورت بلی کو رسی سے باندھ دیتی ہے۔ وہ خود اسے کھانے پینے کی کوئی چیز دیتی ہے نہ کھلا چھوڑتی ہے کہ وہ ادھر ادھر سے اپنا رزق خود تلاش کر لے۔ اس ظالم خاتون نے اسے بھوکا رکھا، بلی بھوک کی وجہ سے مر جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظالم عورت کو حیوان پر ظلم کرنے کی بدولت جہنم میں ڈال دیا۔
    ثمامہ بن اُثال ریاض کے قرب و جوار میں واقع یمامہ کا حکمران تھا۔ اللہ کے رسولکا شدید دشمن، بعض صحابہ کو قتل کرنے کابھی مرتکب تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ اسے جب بھی موقع ملا اللہ کے رسولکو بھی معاذ اللہ اس صفحہ ہستی سے ختم کر دے گا۔ ایک مرتبہ وہ عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے مدینہ طیبہ کی حدود سے گزرا تو علاقے میں گشت کرنے والے مجاہدین اسے گرفتار کر کے مدینہ لے آئے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ یمامہ کا حاکم ہے۔ یہ گھڑ سوار دستے ہر وقت مدینہ کی حدود میں گشت کرتے رہتے تھے۔ کوئی مشکوک آدمی نظر آتا تو اس سے سوال و جواب کرتے، اگر مطمئن نہ ہوتے تو اسے مدینہ لے آتے۔ اللہ کے رسولکو بتایا گیا کہ یمامہ کا حاکم قیدی بن کر مسجد نبوی کے ستون سے بندھا ہوا ہے۔
    اس کے متعلق فیصلہ3,2 دن کے بعد ہوتا ہے۔ اس دوران اس کی ضیافت کی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولکے حکم پر اسے خوب دودھ پلایا جاتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے:محمد()! جتنا پیسہ طلب کروہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر قتل کرو گے تو قتل کا بدلہ لیا جائیگا۔ وہ بدتمیزی بھی کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ 3 دن تک مسلمانوں کے اخلاق و کردار کا مشاہدہ بھی کرتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی سنتا رہا۔
    3 دن کے بعد اللہ کے رسولاپنا فیصلہ سناتے ہیں: جاؤ ثمامہ! ہم کوئی معاوضہ لیے بغیر تمہیں معاف کر کے رہا کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام کو حکم دیا: اس کی رسیاں کھول دو۔ وہ آپ کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ قریبی جوہڑ میں جا کر غسل کرتا ہے اور اپنے اسلام لانے کا اعلان کردیتا ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں وہ اللہ کے رسولسے کیا کہہ رہا ہے:
     وَاللّٰہِ! مَا کَانَ عَلَی الأَرْضِ وَجْہٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْھِکَ 
     ’’اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر میرے لیے آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ چہرہ کسی کا نہیں تھا۔‘‘
    مگر جب آپ کے اعلیٰ اخلاق اور حسن تعامل سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تو کہتا ہے:
    }  فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْھُکَ أَحَبَّ الْوُجُوہِ کُلِّھَا إِلَيَّ  { ۔
    ’’اب آپ کا چہرہ اس روئے زمین پرمیرے لیے تمام چہروں سے زیادہ محبوب بن چکا ہے۔‘‘
    آپ کا دین اور آپ کا شہر میرے لیے دنیا کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ دین اور شہر تھا مگر اب آپ کا دین اور آپ کا شہر میرے لیے محبوب ترین ہو چکا ہے۔
    اسلام نے اپنے ماننے والوں کی کیسی تربیت کی ہے؟ آئیے ذرا اس حدیث پر غور کرتے ہیں:
    }ٔ اَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ سُرُورٌ تُدْخِلُہُ عَلٰی مُسْلِمٍ أَوْ تَکْشِفُ عَنْہُ کُرْبَۃً أَوْ تَطْرُدُ عَنْہُ جُوعًا أَوْ تَقْضِي عَنْہُ دَیْنًا{۔
    ’’ اللہ کے ہاں سب سے زیاہ پسندیدہ عمل کسی مسلمان کو خوشی پہنچانا ، یا اس کی کسی مشکل کو دور کر دینا، یا اس کی بھوک مٹا دینا، یا اس کا قرض اتار دینا ہے۔‘‘
    ایک دن رسول اللہکی خدمت میں ایک بدوی آتا ہے۔ آپ نے اس کی ضروریات کو پورا کر دیا۔ وہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتا ہے:
    }ٔ اللّٰھُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا{ ۔
    ’’اے اللہ مجھ پر اور محمدپر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا۔‘‘
    وہ تو بدو تھا۔ اسے کیا معلوم کہ رحمۃ للعالمین اپنی امت کے کتنے خیر خواہ تھے اور ان کے لیے کتنی دعائیں کرنے والے تھے۔ اللہ کے رسولنے اس بدو کی بات سنی تو مسکرا دئیے۔ فرمایا:
     لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا
    ’’ تو نے تو اللہ کی وسیع رحمت کو سکیڑکررکھ دیا ہے۔‘‘
    اللہ کے رسولنے صحابہ کرام کے ساتھ تعامل میں نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ارشاد ربانی ہے:
    ’’اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں،آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے ہاں سے تتر بتر ہو جاتے۔‘‘(آل عمران 159)۔
     سیدنامعاویہ بن حکم السلمیؓ ایک مرتبہ مسجد نبوی شریف میں اللہ کے رسولکی اقتدا ء میں نماز پڑھ رہے تھے۔اسی دوران ایک صحابی کو چھینک آ گئی۔ ہمارے قارئین کے لیے یہ بات نئی نہیں ہو گی کہ اسلامی آداب میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کسی مسلمان کو چھینک آئے تو وہ ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہتا ہے۔ سننے والا اسے دعا دیتا ہے اور کہتا ہے: یَرْحَمْکَ اللّٰہُ  یعنی اللہ تم پر رحم فرمائے۔
    اس کے جواب میں چھینک مارنے والا کہتا ہے: یَھْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ’’ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے معاملات کو سدھار دے۔‘‘ لیکن اگر کسی کو دوران نماز چھینک آ جائے تو نماز کا ادب یہ ہے کہ چھینک مارنے والا آہستہ سے الحمدللہ کہے اور اس کے ساتھ کھڑے ہوئے نمازی اسے جواب نہ دیں۔
    سیدنا معاویہ بن حکم السلمی کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا۔ انہوں نے چھینک مارنے والے کو بلند آواز سے کہا: یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم فرمائے) دیگر صحابہ کرام نے معاویہ کو کن انکھیوں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ معاویہ نے ان کو اونچی آواز میں کہا: ہائے میری ماں مجھے گم پائے میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟!
    صحابہ کرام نے جب محسوس کیا کہ معاویہ تو بولتے چلے جا رہے ہیں تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کو زور زور سے اپنی رانوں پر مارنا شروع کر دیا۔ معاویہ کو بھی سمجھ آ گئی کہ وہ مجھے خاموش کروانے کے لیے اپنے ہاتھ رانوں پر مار رہے ہیں تو وہ خاموش ہو گئے۔
    جب اللہ کے رسولنے سلام پھیرا تو پھر اگلی بات ہم سیدنا معاویہ بن حکم السلمی ہی کی زبان سے سنتے ہیں۔ ذرا الفاظ پر غور کیجیے، کیا خوبصورت محبت بھرا انداز ہے۔ فرماتے ہیں: ( فَبِأَبِي ھُوَ وَأُمِّي) ’’میرے ماں باپ اللہ کے رسولپر قربان ہوں۔‘‘ ( مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا مِنْہُ) ’’ان سے بڑھ کر خوبصورت طریقے سے سمجھانے والا معلم میں نے نہ ان سے پہلے نہ ان کے بعد کبھی دیکھا۔‘‘
     پھر اللہ کے رسول کا حسن اخلاق یوں بیان کرتے ہیں: ( فَوَ اللّٰہِ! مَا قَھَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي)’’ اللہ کی قسم! آپ نہ تو مجھ سے ناراض ہوئے ، نہ مجھے کوئی جسمانی سزا دی، نہ ہی مجھے برا بھلا کہا‘‘  ،بس اتنا ارشاد فرمایا:ساتھی! نمازوں میں لوگوں کے لیے کوئی بات کرنا جائز نہیں، بلکہ ان میں صرف تسبیح و تکبیر اور قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
    قارئین کرام! یہ ہے اللہ کے رسول کا اخلاق اور اپنے ساتھیوں کو سمجھانے کا انداز،اسی لیے صحابہ کرامؓ بھی اللہ کے رسولکے ساتھ بے حد محبت کرتے تھے۔
    ایک عام سا بدوی اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کر رہا ہے:( مَتَی السَّاعَۃُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ) ’’اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ قیامت کب آئے گی؟‘‘
    آپ نے جواب دینے کے بجائے اس سے ایک سوال کر دیا:( مَا أَعْدَدْتَ لَھَا؟) ’’ساتھی! یہ بتاؤ تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کچھ کر رکھی ہے؟‘‘یا دوسرے الفاظ میں تمہارے نامہ اعمال میں کیا کیا خیر کے کام ہیں کہ تم قیامت کے بارے میں پوچھ رہے ہو کہ وہ کب آئے گی؟ اُس نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میں نے اس دن کے لیے کثرت سے نمازیں، روزے اور صدقات تو تیار نہیں کر رکھے، (وَلٰکِنِّي أُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ) ’’ مگر ایک خوبی میرے دامن میں ضرور موجود ہے کہ میں اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اللہ کے رسولنے اسے جوجواب دیا وہ سننے اور یاد رکھنے کے لائق ہے، فرمایا: (أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ) ’’قیامت کے دن تم اسی کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو۔‘‘
    ایک نوجوان اپنی گاڑی پر سفر کر رہا تھا۔بارشوں کا موسم تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی بارش ہوئی تھی۔ سڑک پر کہیں کہیں پانی جمع تھا۔ اس نوجوان نے غور ہی نہ کیا، سڑک کے کنارے بنے ہوئے گھروں کے سامنے کچھ لوگ بیٹھے غالباً موسم کا نظارہ کر رہے تھے۔ اِدھر یہ نوجوان بڑی تیزی سے گاڑی بھگاتا ہوا ان کے سامنے سے گزرا۔ گاڑی کے پہیوں سے پانی کے چھینٹے اڑے تو سامنے دیواروں تک جا پہنچے۔ سڑک کنارے بیٹھے ہوئے ایک شخص کے صاف ستھرے کپڑوں کا ستیاناس ہو گیا۔ دیگر لوگوں کے کپڑوں پر بھی گندے پانی کے چھینٹے پڑے، مگر ایک کے کپڑے تو بالکل ہی خراب ہو گئے۔
    میرے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ حادثہ آپ کے ساتھ یا میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ عموما ًیوں ہوتا ہے کہ گاڑی چلانے والااپنے دھیان میں وہاں سے گزر جاتا ہے اور اسے اندازہ تک نہیں ہو پاتا کہ اس کی گاڑی لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کر چکی ہے۔ گاڑی چلانے والے نوجوان نے سنا کہ سڑک کنارے لوگ اسے زور زور سے گالیاں دے رہے ہیں۔ برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ گاڑی والے کی غلطی تھی جو انجانے میں ہو گئی۔ اسے معلوم نہیں ہوا کہ میں کسی غلطی کا مرتکب ہو رہا ہوں۔
    اس نے گالیاں سنیں، لوگ اسے کوس رہے تھے۔وہ ذرا آگے بڑھا، گاڑی کو ایک سائڈ پر روکا، نیچے اترا اور سیدھا ان لوگوں کے پاس چلا گیا: بھائیو! مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے دیکھا نہیں تھا۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ اس نے اپنے ہاتھ ان کے سامنے جوڑ دئیے۔
    اب دیکھئے! ان لوگوں کا رد عمل کیا تھا؟ انہوں نے اس کی معذرت کو نہ صرف قبول کیا اور اسے کھلے دل سے معاف کیابلکہ کئی ایک نے اسے گھر آنے کی دعوت دی۔ کسی نے کہا: آئیے چائے پیتے ہیں، کسی نے کہا: چلیے! کھانے کا وقت قریب ہے مل کر کھانا کھاتے ہیں۔
    قارئین کرام! یہ اعلیٰ اخلاق ہی ہے جس کی بدولت ہم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ دیکھئے! غلطی کا ہو جانا باعث تعجب نہیں، انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں، مگر اپنی غلطی کا ادراک واعتراف کرنا ، اپنی غلطی مان لینا، آج کے دور میں یہ باعث تعجب بات ہے۔ تو صاحبو !غلطی ہوجانے کی صورت میں کیوں نہ ہم کھلے دل سے اپنا قصور تسلیم کر لیں۔ مخاطب سے معذرت کر لیں، اس سے معافی مانگیں۔ ا س طرح معاشرے میں صحت مند رجحانات پیدا ہوں گے۔
    امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے۔ ان سے ایک شخص نے عرض کیا: شیخ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ فرمانے لگے: تم جب اپنے گھر سے نکلواور تمہاری نظر کسی بھی شخص پر پڑے تو اسے اپنے آپ سے بہتر اور افضل سمجھو۔
    اللہ کے رسول کی مبارک زندگی ہمارے لیے باعث مثال اور قابل اتباع ہے۔ وہ لوگ جو اعلیٰ اخلاق سے دوسروں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں، وہی کامیاب و کامران ہیں۔ صفوان بن امیہ بن خلف مکہ مکرمہ کا امیر ترین شخص تھا۔ جتنا امیر تھا اتنی ہی شدت سے اسلام کا دشمن تھا۔ بدر میں سیدنابلالؓ پر مظالم ڈھانے والا اس کا باپ امیہ اور بھائی علی سیدنا بلال ؓاور انصاری ؓصحابہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔
    فتح مکہ کے موقع پرصفوان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے کہ اس کو زندہ یا مردہ حالت میں پیش کیا جائے۔ یہ اسلحہ کا ڈیلر اور اسلام کے خلاف بے پناہ خرچ کرنے والا تھا۔ مکہ فتح ہوا تو جدہ بھاگ گیا۔ صفوان کا چچا زاد بھائی عمیر بن وہب اللہ کے رسولکی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے لیے امان طلب کرتے ہیں جو عطا فرما دی گئی۔آپ نے فرمایا: عمیر! جاؤ صفوان کو لے آئو، اسے معاف کر دیا جائیگا۔ انہوں نے عرض کی:اللہ کے رسول! صفوان بڑا آدمی ہے، اس کے جرائم بھی بہت زیادہ ہیں۔اسے اعتبار نہیں آئیگا کہ اس جیسے مجرم کو بھی معافی بھی مل سکتی ہے۔آپ کوئی نشانی عطا فرما دیں۔ آپنے اپنا وہ عمامہ مبارک جسے آپ نے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت پہن رکھا تھاسیدنا عمیرؓ کے حوالے کر دیا۔    یہ لمبا واقعہ ہے کہ کس طرح سیدنا عمیرؓ اپنے چچا زاد بھائی صفوان کو مکہ لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صرف اتنی بات عرض کروں گا کہ جب سیدنا عمیر ؓنے صفوان کو بتایا کہ میں تمہارے لیے امان لے کر آیا ہوں تو صفوان کو اعتبار نہ آیا۔ اس نے کہا: ہو سکتا ہے مجھے دھوکے سے مکہ بلوا کر قتل کر دیا جائے۔
    جنگی جرائم کے سبب اس کے دل میں مختلف خیالات تھے ،خوف اور ڈر تھا۔ اس کی زبان پریہ الفاظ آ ہی گئے: (إِنِّي أَخَافُ عَلٰی نَفْسِي ) ’’مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘  سیدنا عمیر ؓ نے میرے پیارے نبی کے بارے میں جو الفاظ کہے انہیں پڑھ لیں۔ کہنے لگے: ( ھُوَ أَحْلَمُ مِنْ ذَاکَ وَأَکْرَمُ) ’’وہ تمہاری سوچوں کے برعکس کہیں زیادہ بردبار ، حوصلہ مند اور کریم شخصیت ہیں۔‘‘
    صفوان اس شان سے مکہ واپس آتا ہے کہ گھوڑے پر سوار ہے۔ اللہ کے رسولبیت اللہ شریف کے صحن میں تشریف فرما ہیں ۔ اُس نے آپکو مسجد کے صحن میں بیٹھے دیکھا تو سواری کو روک دی۔ سواری پر بیٹھے بیٹھے پوچھا: محمد! () یہ عمیر بن وہب میرے پاس آیا ہے اور کہتا ہے کہ آپ ()نے مجھے امان دی ہے، کیا یہ سچ ہے؟ اسے اعتبار جو نہیں تھا۔ ارشاد ہوا: ہاں،ابو وہب! عمیر سچ کہتا ہے۔کہنے لگا: اچھا، پھر آپ () مجھے 2ماہ کی مہلت دیں، میں اچھی طرح سوچ لوں ۔ رحیم و شفیق، سراپا عفو و کرم اور اعلیٰ اخلاق والے پیارے رسولارشاد فرماتے ہیں:( اِنْزِلْ أَبَا وَھْبٍ) ’’ابو وہب! تم گھوڑے سے نیچے اترو ‘‘  تم 2ماہ کی بات کرتے ہو ہم تمہیں4 ماہ عطا کرتے ہیں۔
    صفوان غزوہ حنین میں محض تماشا دیکھنے کے لیے اپنے ماں جائے بھائی کلدہ بن حنبل کے ساتھ چلا گیا تھا۔ مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بے حد و حساب مال غنیمت مسلمانوں کو ملا۔ اللہ کے رسولصفوان کو بھی مؤلفۃ القلوب کے تحت اونٹ اور بکریاں عطا فرماتے ہیں۔ اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو دیکھ سکے۔
    اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اپنے الفاظ ہیں: اللہ کی قسم! میں اللہ کے رسولسے شدید بغض رکھتا تھا، مگر آپ نے مجھے بار بار مال عطا فرمایا۔ آپ مسلسل مجھے مال دیتے رہے حتیٰ کہ میرے دل ودماغ سے آپ کی نفرت ودشمنی جاتی رہی اور آپ میری نگاہوں میں کائنات کی محبوب ترین ہستی بن گئے۔ صفوان جسے 4 ماہ کی مہلت ملی تھی،اس کے غور فکر کی مدت سکڑ گئی اور وہ محض 3 ہفتوں میں اسلام قبول کر لیتا ہے۔
    قارئین کرام! میں نے اللہ کے رسولکی سیرت کو جتنا بھی پڑھا ہے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ کے رسولنے اپنے اعلیٰ اخلاق سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اوران کے دلوں پر حکمرانی کی۔ معاف کرنا اور اپنے مد مقابل کی تعریف کرنا ایسی صفات ہیں کہ لوگ ہمیشہ کے لیے آپ کے اسیر بن جائیں گے اور آپ مقبولیت کے اعلیٰ مراتب حاصل کر لیں گے۔
مزید پڑھیں:- - - - -آئیے کریں وفا والے سجدے ،حیا والے سجدے

شیئر: