Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند میں ہجومی تشدد پر قابو پانے کی ضرورت

کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا کہ واٹس ایپ سے جعلی خبریں کون پھیلا رہا ہے، کسی کو اسکی ضرورت بھی کیا ہے؟ ہجومی تشدد پر قابو نہ پایا گیا تو معاشرے کا تانا بانا ٹوٹ جائیگا
سید اجمل حسین
جب سے سوشل میڈیا نے معلوماتی و اطلاعاتی دنیا میں اپنی جگہ بنائی ہے انسان ’’ان سوشل‘‘ ہو گیا ہے ۔لمحہ بھر میں طول و عرض میں پھیل جانے والے پیغامات جو عوام کی بھلائی اور ایک دوسرے کی معلومات میں اضافہ کا باعث بننے چاہئیں تھے وہ ہندوستان میں مذہبی و طبقاتی تشدد کے ساتھ ساتھ ہجومی تشدد برپا کرانے کے لیے عام کیے جا رہے ہیں ۔ اگرچہ ہندوستان میں  ہجومی تشدد کاجو آغاز دہلی کی عین ناک کے نیچے اترپردیش کے قصبہ دادری کے گاؤں بسیہڑا میں ستمبر2015میں ہوا تھا وہ واٹس ایپ یا سوشل میڈیا کے کسی اور ذریعہ سے نہیں بلکہ ایک مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے کچھ شرپسندوں کے ذریعہ  کئے  گئے ۔ اس اعلان سے ہوا تھا کہ گاؤں کے محمد اخلاق سیفی نام کے ایک شخص کے گھر میں گائے ذبح کی گئی ہے ا س لیے لوگ مندر میں جمع ہو جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے سبھی واقف ہیں۔ اس وقت کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہلی کے قریب ہونے والا یہ ہجومی تشدد آئندہ دنوں میں گھر گھر کی کہانی کی طرح ہر ریاست کی کہانی بن جائیگا ۔ کچھ عرصہ تک تو اسی وحشیانہ اور حیوانی واردات کی ہی گونج رہی  پھر خاموشی بھی طاری ہوگئی لیکن ان عناصر کو جو ہندو مسلم دیوار گرنے ہی نہیں دینا چاہتے بلکہ اسے سیسہ پلائی دیوار میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں یہ خموشی کھلنے لگی اور انہوں نے ہجومی تشدد کے جذبہ کو زندہ رکھنے کے لیے  اپنے تعصب کی اس عینک کا جو پہلے صرف ہندو مسلم  میں تفریق کرنے کے لیے تھی  اس کا نمبر اور زیادہ بڑھا دیا ۔ اب ہندو مسلم کی تخصیص یاگئو کشی کا معاملہ نہیں رہ گیا بلکہ وہ عینک  دلتوں کے اور پھر ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف ہو گئی جس پر گائے ذبح کرنے، گائے کو گوشت لے جانے اور بچے چوری یا اغوا کرنے اور غیر مذہب کے لڑکے لڑکی کے تعلقات کا ذرہ برابر بھی شک ہوجائے۔اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا تصور کرنے تک سے خوف محسوس ہونے لگا ہے ۔ تازہ ترین جو واقعہ کرناٹک کے  بیدر ضلع میں ہوا س میں4 مسلم نوجوانوں کو جن میں ایک قطری شہری صلہم عیزل قبوسی بھی تھا واٹس ایپ پر پھیلائے گئے اس پیغام پر بری طرح پیٹا گیا کہ یہ چاروں بچوں کو ٹافیاں دیکر انکو اغوا کررہے ہیں۔ ان چاروں کا نہیں بلکہ صرف ایک قطری کا جو اپنے ساتھ چاکلیٹیں لایا تھا،اتنا قصور تھا کہ اس نے ایک گاؤںمیں بچوں کو کھیلتا دیکھ کر ان سے اظہار شفقت و محبت کرتے ہوئے ان کو چاکلیٹس بانٹنا شروع کر دیں۔ بس پھر کیا تھا کسی نے انہیں بچہ اغوا کرنے والا گروہ بتا دیا ۔چونکہ وضع قطع سے وہ مسلمان نظر آرہے تھے اس لیے شر پسندوں نے ان کی تصویریں بھی واٹس اپ  پر عام کردیں اور یہ لوگ جو گاؤں والوں کے ہجوم سے جان بچا کر بھاگے تھے راستے میں سڑک پر ایک بڑا درخت ڈال کر روک لیے گئے ۔اور اس بری طرح انہیں پیٹا کہ ان میں سے ایک اعظم احمد جو حیدر آباد کے ملک پیٹ کا رہائشی تھا موقع پر ہی دم توڑ گیا۔باقی تینوں کو بیدر گورنمنٹ اسپتال سے حیدرآباد منتقل کر دیا گیا۔مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو دادری سے گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کا ذخیرہ کرنے کی افواہ سے شروع ہونے والی یہ بیماری ہجومی تشدد کی  وبا کی شکل اختیار کر کے کشمیر سے کنیا کماری تک پھیل گئی۔
یوں تو ہجومی تشدد 2015سے ہی جاری ہے لیکن2018میں تو اس نے گزشتہ 3 سال کے تمام ریکارڈ توڑ د ئیے۔مجموعی طور پرستمبر  2015سے جولائی 2018تک 65لوگ ہجومی تشدد میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ان میں سے مئی2018سے جولائی2018تک محض 2 ماہ میں19افرادموب لنچنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ان میں صرف مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شر پسند اور سماج  دشمن عناصر واٹس ایپ سے افواہیں پھیلا کر ہجومی تشدد میں لوگوں کو پٹتا ہوا دیکھ کر اپنی بیمار ذہنیت کو تسکین پہنچاتے ہونگے۔ ان واٹس اپ پیغامات نے کرناٹک، تمل ناڈو،آسام ، آندھرا پردیش، تلنگانہ، ہریانہ، اترپردیش،مدھیہ پردیش ،گجرات، بہار ، جھارکھنڈ،مہاراشٹر، کیرل، جموں و کشمیر،اترا کھنڈاور تری پورہ میں ایسی تیزی سے گردش کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرر ہا کہ یہ واٹس ایپ افواہ رجحان یا جعلی اور فرضی خبریں کون پھیلا رہا ہے لیکن اس کی کسی کو ضرورت بھی کیا ہے ۔سبھی جانتے ہیںکہ2019کے انتخابات سر پر ہیں اور ایک حمام میں سب ننگے ہیں۔ کوئی کسی کو مورد الزام ٹہرا ہی نہیں سکتا کیونکہ سب اپنا الو سیدھا کر ہے ہیں۔ کون سی سیاسی پارٹی ایسی ہے جس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم تشکیل نہیں دے رکھی۔ واٹس ایپ پیغامات عام کرنے کے لیے تما م سیاسی پارٹیوں نے بھرتیاں کر رکھی ہیں اور اس کا انہیں باقاعد ہ معاوضہ ملتا ہے۔
جوں جوں لوک سبھا انتخابات قریب آرہے ہیں واٹس ایپ مہم میںبھی توسیع ہوتی رہے گی لیکن یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا اس کا کسی کو اندازہ نہیں لیکن اتنا ضرورکہا جا سکتا ہے کہ جعلی خبریں جنہیں افواہ کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کے حق میں نقصان دہ ہیں کیونکہ یہاں کروڑوں لوگ اسمارٹ فون کا استعمال کرتے ہیں اور کوئی بھی واٹس ایپ پیغام پلک جھپکتے میں ملک کے طول و عرض میں پھیل کر فضا مسموم کر سکتا ہے۔ہجومی تشدد تو اس کی ایک جھلک ہے۔ اگر اس رجحان پر فوری طور پر قابو نہیں پایا گیا تو معاشرہ  کا تانا بانا ٹوٹ جائیگا۔ ہجومی تشدد ہماری پہچان بن جائیگا۔ جنونیوں کی بھیڑ کو ہندوستانی سماج کااایک جزو لاینفک سمجھا جانے لگے  گا۔3 سال کی مدت میں کہیں سے یہ سننے کو نہیں ملا کہ ہجومی تشدد برپا کرنے والوں میں شامل کسی ایک کوبھی سزا ملی ہو جبکہ یہی بھیڑ جس کو چاہے موقع پر ’’وحشی عدالت ‘‘ قائم کر کے سزائے موت دے دیتی ہے۔ماؤرائے عدالت قتل کا یہ سلسلہ جس طرح جاری و ساری ہے۔  اسکے ملزمان کے خلاف کارروائی نہ کے برابر ہے جس سے ایسی وارداتیںکرنے اور کرانے والوںکے حوصلے روز بروز بلند ہو رہے ہیں جبھی تو2ماہ میں19واقعات رونما ہو گئے اور ہجومی تشدد میں پیش پیش رہنے والوں تک کا بال بھی بیکا  نہ ہوا۔
********
 

شیئر: