Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات،جمہوریت کی فتح

بڑی پارٹیوں سے بیزاری کے بعد عوام عمران خان تک جاپہنچے، قوم اب ان کے طرز حکومت کو دیکھنے کی منتظر
سجاد وریاہ 
پارلیمانی نظامِ جمہوریت میں انتخابات کو فیصلہ کن مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔انتخابات کا وقت ِمقررہ پر انعقاد ،انتخابی مشینری کو جدید تکنیکی سہولتوں کی دستیابی ،انتخابی عملے کی تربیت اور شفاف انتخابی طریقہ کار ہی دراصل وہ عوامل ہیں جو انتخابات کے عمل اور نتائج پر عوام ،مبصرین اور میڈیا کا اعتماد کا بحال کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔پاکستان کی جمہوری تاریخ کا المیہ ہے کہ یہ آمریت کے جھٹکوں کامسلسل شکار رہی ہے۔جمہوری سفر کے دوران ،جمہوریت کی سست رفتار ٹرین کئی بار اپنے ٹریک سے اُتر چکی ہے۔ ہر بار عوامل اور اسباب مختلف ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنایا جاتا رہا۔کئی نعرے بھی لگتے رہے کہ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘اور3 سالہ ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کی باتیں۔یہ سب شکوک وشبہات بالآخر دم توڑ گئے۔الیکشن کا کامیاب انعقاد ہو چکا ہے ،اس کامیاب انعقاد کے پیچھے سیاسی جماعتوں کی بالغ نظری،میڈیا کی کامیاب جدوجہد ،الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا بہت مثبت اور شاندارکردار ہے۔ان اداروں کی قابلِ ستائش کارکردگی کے ساتھ ساتھ فوج کے مثبت کردار کو نہ سراہنا بھی بددیانتی ہی تصور کیا جائے گا۔ فوج نے نہ صرف کسی مہم جوئی سے احتراز کیا ہے بلکہ جمہوری سفر کے تسلسل اوراداروں کی بالا دستی کے لئے ہر ممکن تعاون اور مدد فراہم کی۔
میں سمجھتا ہوں کہ جمہوری اقداروروایات کو پروان چڑھانے اور سیاسی بلوغت کے مطلوبہ معیار تک پہنچنے میں ابھی وقت درکار ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی کلاس کی نالائقی سرِفہرست ہے ۔پچھلے 30سالوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں نے زیادہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مال بنانے میں صرف کیا ہے۔اس میں پیپلز پارٹی،ن لیگ ،ایم کیوایم سب کسی نہ کسی حد تک ملوث رہی ہیں۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں میثاقِ جمہوریت کے بعد ہی کوئی ان کے جمہوری رویوں میں بہتری اور استحکام نظر آیالیکن بد قسمتی سے انہوں نے میثاقِ جمہوریت کو ’’میثاقِ کرپشن‘‘سمجھ کر خوب لوٹ مار کی ،جس سے عوام میں ان کے لئے لاتعلقی اور نفرت کا اظہار سامنے آیا۔ملک کو مقروض اور کمزور کیا گیا ۔اس طرح جمہوریت کو ان بڑی پارٹیوں کا گٹھ جوڑ سمجھا گیا ،جس سے جمہوری روایات اور جمہوریت کو نقصان پہنچا۔ان دو بڑی پارٹیوں سے بیزاری کے بعد عوام کسی نجات دہندہ کی تلاش میں عمران خان تک جا پہنچے جس نے ان کو مسلسل جدوجہد سے سیاسی شعور عطا کیا ۔پچھلے 5سالوں میں تحریک انصاف ایک طاقتور اپوزیشن جماعت کے طور پر اپنا وجود بھر پور طریقے سے منوانے میں کامیا ب رہی ہے۔عالمی اور ملکی میڈیا اسکی موجودگی کا برملا اظہار واضح طور پر دیکھتا رہا ہے۔ نوازشریف پانامہ پیپرزکے بعد مسلسل سیاسی زوال کا شکار رہے اور بالآخر جیل جا پہنچے۔اس ساری صورتحال کا تحریکِ انصاف نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعت بن چکی ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر بات کی جائے توبہت حد تک اس انتخابی عمل کو مُنظم اور غیر جانبدارانہ کہا جاسکتا ہے۔ اِکادُکا دھاندلی اور لڑائی جھگڑوں کے واقعات انفرادی سطح پر دیکھنے میں آئے لیکن دھاندلی کی کوئی منظم سازش بظاہر نظر نہیں آئی۔الیکشن کے دن کے آغاز میںہی
 عوام بہت پُرجوش نظر آئے لیکن دوپہر کی گرمی میں رش نسبتاـــکم رہا۔سب سے حوصلہ افزا یہ پہلو بھی ہے کہ بلوچستان میں بھی عوام نے بھر پور طریقے سے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پُرامن اور مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بلوچستان میں شاید امن و امان کی صورتحال کا مسئلہ درپیش ہو ۔
اس ضمن میں قابلِ تحسین بات یہ رہی کہ فوج،سیکورٹی ایجنسیاں اور نگران حکومت ،انتخابات کو پُرامن اور شفاف کرانے میں کامیاب رہی ہیں۔الیکشن کمیشن کی درخواست پر چونکہ پاک فوج ایک معاون کا کردار ادا کررہی ہے،تمام انتظامات کو انتہائی احسن طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔فوج چونکہ پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر تعینات تھی جس کی وجہ سے کوئی بدمزگی اور امن وامان کی صورتحال کا کوئی بڑا اور قابلِ ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔بظاہر عوامی،جمہوری اور صحافتی حلقے مطمئن اور پُراعتماددکھائی دیتے ہیں۔کراچی میں موجود ایک نامور مبصر اور ماہر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی سے بات کی اور وہاں جاری الیکشن کے عمل کے بارے میں پوچھا ،ان کے مطابق بہت ہی پُرامن اور منظم انتخابات کا انعقاد ہوا۔جب میں نے پوچھا کہ فوج کسی دھاندلی میں ملوث دکھائی دیتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ پری الیکشن ان کے کچھ اقدامات اور انتظامات کو اگر دھاندلی کہا جائے تو الگ بات ہے لیکن آن گراؤنڈ ایسا کچھ بھی نہیں اور نہ ہی دھاندلی کا شور مچانے والے اس کا کوئی ثبوت پیش کر سکیں گے۔ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق چھوٹی موٹی خامیوں کے ساتھ الیکشن کا کامیاب انعقاد ہوچکا ہے ۔پی ٹی آئی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات افتخار چوہدری سے بات کی، وہ بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر مطمئن دکھائی دئے۔انہوں نے نگران حکومت ،الیکشن کمیشن اور فوج کو شاندار انتظامات پر خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف شاندار فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ 
اس وقت حتمی سیٹوں کی تعدادبتانا قبل ازوقت ہے لیکن ایک رائے یہ قائم کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں مقابلے بعد تحریک انصاف زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔تحریک انصاف کے حق میں عوامی سطح پرایک فضا بنی ہوئی ہے جوکہ اس کے لئے فائدہ مند رہے گی۔سرکاری ذرائع کے مطابق بھی عمران خان جیت رہے ہیں۔عالمی میڈیا سمیت انڈین میڈیا عمران کو ہاٹ فیورٹ قرار دے رہا ہے جس سے بظاہر یہی تاثر قائم ہو رہا ہے کہ اگلی حکومت عمران بنائے گا ۔دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی اکثریت سے حکومت بناتے ہیں یا آزاد ممبران بھی آن ملیں گے ۔تحریکِ انصاف ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں اپنی اندرونی گروپنگ اور مفاداتی تقسیم کی وجہ سے کئی غلطیاں کر چکی ہے ورنہ واضح دوتہائی اکثریت کی فتح اس کی منتظر تھی۔اب یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ جو پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کے طور پر آئے، وہ جیت رہے ہیں جس سے پی ٹی آئی کا نقصان ہوالیکن جو عوامی لہر تحریکِ انصاف کے حمایت چلی ہے، وہ مخالفین کو بہاتی دکھائی دیتی ہے۔اس وقت تو ہر طرف تحریک انصاف کی جیت کی خبریں اور تجزیے ہیں لیکن ابھی چند گھنٹوں میں ’’دھاندلی بریگیڈ‘‘اپنی تمامتر توانائیوں کے ساتھ سامنے آجائیں گے۔شکست کو جسٹیفائی کریں گے۔تحریک انصاف نے کے پی کے میں فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کو شدید جھٹکا دیا ہے۔کراچی میں ایم کیو ایم ،سندھ میں پی پی اور پنجاب میں ن لیگ کو بیک فُٹ پر دھکیل دیا ہے ۔ اس سارے عمل سے یہ لگتا ہے کہ ان تمام پارٹیوںکے خلاف عوام نے بھر پور ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
آج جمہوریت کی فتح کا دن ہے ،ہم تمام پارٹیوں اور کارکنان کی جمہوری اور سیاسی جدوجہد کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں اورانکی جیت پر مبارک پیش کرتے ہیں ۔پی ٹی آئی اور عمران خان کو بالخصوص مبارک کہ وہ وزیرِاعظم پاکستان بن رہے ہیں ۔امید کرتا ہوں کہ قوم سے وعدوں اور اپنے منشور کے مطابق ملک کو مشکل حا لات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔قوم ان کے اقدامات اور طرز حکومت کو دیکھنے کی منتظر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں