Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسام میں شہریت کا مسئلہ

معصوم مراد آبادی
    آسام کے اُن40 لاکھ مسلمانوں میں زبردست خوف وہراس پھیلا ہوا ہے جن کی شہریت مشتبہ قرار دے دی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ نیشنل رجسٹر آف سٹی زن (این آر سی) سے باہر رہ گئے ان40 لاکھ لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے اور کسی ایک باشندے کو بھی این آر سی سے محروم نہیں رکھاجائے گا  لیکن اس کے باوجود اس مسئلے کاسیاسی استحصال کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ حکمراں بی جے پی کے لیڈران جو زبان بول رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ چالیس لاکھ آسامی باشندے سرحد پار دھکیل دیئے جائیں گے۔
    آسام میں غیر ملکی دراندازوں کی شہریت ختم کرنے کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ تنازع 80کی دہائی سے چل رہا ہے اور اس کی خاطر آسام میں خون خرابہ بھی ہوچکا ہے۔ آسام کو غیر ملکی تارکین وطن سے پاک کرنے کی تحریک وہاں کے طلباء کی ایک تنظیم آسو (آل آسام اسٹوڈنٹ یونین) نے 1979 میں شروع کی تھی اور اسی تحریک کے نتیجے میں آسام کے نیلی علاقے میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا تھا جو آج بھی تاریخ کے صفحات میں سرخ الفاظ سے تحریر ہے۔ یہ تحریک 6سال تک چلتی رہی اور اس میں سرگرم حصہ لینے والے طلباء بعد کو آسام میں اقتدار میں بھی آئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پرفل کمار مہنتا کا نام سب کو یاد ہے۔  14اگست1985 کو اس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی نے’ آسو‘ اور دیگر طلباء تنظیموں کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس میں یہ طے پایا کہ 1971کے بعد آسام آنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کی پہچان کی جائے اور انہیں صوبے سے باہر نکالا جائے۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیمیں بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کو درانداز اور ہندوؤں کو پناہ گزین قرار دیتی ہیں۔ این آر سی کی تازہ سرگرمی کا آغاز 2015میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک آئی اے ایس آفیسر پرتیک ہجولا کو این آرسی اپ ڈیٹ کرنے کا کام سونپا۔ اپنی نوعیت کی انوکھی سرگرمی میں صوبائی حکومت کے ایک لاکھ سے زیادہ ملازمین نے حصہ لیا اور اس پر سرکاری خزانے سے 1200کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ این آر سی کے تحت جمع کی گئی دستاویزات کی تعداد اتنی تھی کہ انہیں آسانی سے پانچ سو ٹرکوں میں بھرا جاسکتا تھا۔
    حکومت کا دعویٰ ہے کہ این آر سی کے تحت طلب کئے گئے شہریت کے دستاویزات کی جانچ پڑتال میں خاصی احتیاط برتی گئی ہے لیکن اس کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ بڑے مضحکہ خیز ہیں۔ مثال کے طورپر ایک ہی خاندان کے والدین کو تو آسام کا شہری تسلیم کیاگیا ہے لیکن ان کی اولادوں کو غیر ملکی درانداز قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی خاندان کے بچوں کو شہری تسلیم کیاگیا ہے لیکن ان کے والدین کو درانداز قرار دے کر شہریت سے محروم کردیاگیا ہے۔ مشتبہ شہری قرار دیئے گئے لوگوں میں ریاست کے بعض اہم افراد اور یہاں تک کہ سابق فوجی بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ این آر سی کے حتمی ڈرافٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد آسام میں زبردست افراتفری کا ماحول ہے اور لوگ اپنی شہریت کے ٹھوس دستاویزات لے کر در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ لیکن حکومت کو ان کی کوئی پروا نہیں بلکہ وہ اس پر ووٹ بینک کی سیاست کھیلنے میں مصروف ہے۔ یہ مسئلہ آسام سے دہلی تک زبردست ہلچل کا سبب بنا ہواہے۔ حکمراں بی جے پی کے لیڈروں کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ اسی موضوع پر کئی روز تک راجیہ سبھا کی کارروائی متاثررہی اور آخر کار وزیرداخلہ کو یہ کہنا پڑا کہ ہرشخص کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا پورا موقع فراہم کیاجائے گا۔
     حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ یہ کہہ رہے ہیں کہ این آر سی سے باہر کئے گئے40 لاکھ لوگوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہیں شہریت ثابت کرنے کا پورا موقع دیاجائے گا۔ لیکن دوسری طرف حکمراں بی جے پی کے صدر امت شاہ سے لے کر نچلی سطح کے کارکن تک جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ انتہائی بے ہودہ اور دھمکی آمیز ہے۔ اسی زبان درازی کی وجہ سے آسام کے مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلاہوا ہے۔ صوبائی حکومت کو صورت حال کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے۔ اسی لئے ریاست میں نظم ونسق برقرار رکھنے کے لئے مرکز سے اضافی فورس طلب کی گئی ہے اور امتناعی احکامات بھی نافذ کردیئے گئے ہیں حتیٰ کہ ترنمول کانگریس کے ان 6ممبران پارلیمنٹ کو بھی آسام میں داخل نہیں ہونے دیاگیا جو غیر ملکی قرار دیئے گئے آسامی مسلمانوں سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔
    حکمراں بی جے پی کی اچھل کود کا اصل سبب یہ ہے کہ اس پارٹی نے پہلے 2014 کے عام انتخابات میں آسام سے غیر ملکی باشندوں کو باہر کرنے کا وعدہ کیا تھا اور پھر 2016میں آسام کا اقتدار سنبھالنے کے بعد صوبائی وزیراعلیٰ نے ’ڈیٹکٹ، ڈلیٹ اور ڈپورٹ ‘ کے عنوان سے ایک خصوصی مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد آسام کی آبادی میں غیر ملکی باشندوں کی نشاندہی کرکے ان کا نام ووٹر لسٹوں سے خارج کرنا اور انہیں سرحدپار دھکیلنا تھا۔ اب جب کہ این آر سی کے حتمی ڈرافٹ میں چالیس لاکھ باشندوں کو مشتبہ شہری قرار دے دیا گیا ہے تو بی جے پی کو اپنا مقصد پورا ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان چالیس لاکھ باشندوں کا مستقبل کیاہوگا۔ کیونکہ بنگلہ دیش پہلے ہی یہ اعلان کرچکا ہے کہ یہ اس کے شہری نہیں ہیں۔ برسہا برس سے آسام میں آباد یہ شہری جن میں اکثریت بنگلہ زبان بولنے والوں کی ہے، دراصل آس پاس کی ریاستوں سے یہاں آکر بسے ہیں جن میں پڑوسی ریاست مغربی بنگال کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہرچند کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے ان باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ لوگ اپنا گھر بار، زمین جائیداد اورکاروبار چھوڑ کر ہرگز دوسری ریاستوں میں نہیں جائیں گے۔ ان چالیس لاکھ لوگوں کی شہریت کو مشتبہ قرار دینے کے بعد ایک ایسا انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے جس کی حالیہ انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سنگین ترین مسئلے سے کیسے نپٹتی ہے؟۔
مزید پڑھیں:- - - - -نئے وزیراعظم عمران خان کے نام

شیئر: