Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری میرج ذرا سی تگ و دو کے بعد ارینجڈمیں تبدیل ہوگئی، ثروت

عنبرین فیض۔ ینبع
کہتے ہیں اولاد انسان کی زندگی کا کل اثاثہ ہوتی ہے۔ بلاشبہ اولاد اپنے والدین کی ذات کا تسلسل ہی نہیں بلکہ ان کی امیدوں اور خواہشوں کا سب ے بڑا مرکز بھی ہوتی ہے اس لئے والدین اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں ہر لمحہ فکر مند نظر آتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے خواہاں رہتے ہیں۔ والدین وہ ہستیاں ہیں جو اپنی اولاد کیلئے اپنی زندگی کی تمام خوشیاں قربان کردیتے ہیں، دن رات ایک کر کے اپنے بچوں کی خوشی اور راحت کا سامان کرتے ہیں۔ یوں کہنا چاہئے کہ والدین کی پوری زندگی ہی بچوں کے گرد گھومتی ہے ۔ ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچو ں کی تعلیم مکمل ہوجائے اورمعاشرے میں وہ بہتر سے بہتر مقام حاصل کرلیں۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی اچھی تربیت کی جائے تو وہ والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ دنیاوی طور پر بھی نیک اولاد والدین کیلئے راحت کا سامان ہوتی ہے۔ اولادبلا شبہ ، اللہ تعالیٰ کا عطا فرمایا ہوا تحفہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی اولاد کی تربیت صحیح طور پر کر پاتے ہیں۔
ہوا کے دوش پر اردو نیوز کی آج کی مہمان ثروت رحمن ہیں۔ وہ اپنی دلفریب مسکراہٹ اور مخصوص انداز گفتگو کے باعث سہیلیوں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہیں۔ جلد ہی لوگوں میں گھل مل جاتی ہیں۔ ثروت رحمن کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کے والدکا تعلق آگرہ سے تھا جبکہ والدہ کا آبائی شہر لکھنوتھا ۔ ثروت رحمن گھر میں سب سے بڑی ہونے کے ناتے والدین کی لاڈلی اور چہیتی رہیں۔ ابتداءسے لے کر یونیورسٹی تک کی تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی۔ بی اے آنرز کی ڈگری لی ۔والد کی وفات کے وقت تمام بہن بھائی زیر تعلیم تھے لہٰذا گھر کو سپورٹ کرنے کیلئے انہیں ملازمت کرنی پڑی ۔ یوں مشکل وقت ضرور آیا مگر پھر گزر بھی گیا۔ 
محترمہ ثروت کے والدویسے توکاروباری شخصیت تھے ۔ والدہ گو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں مگر ہوم مینجمنٹ یعنی گرہستی میں ان کاکوئی جواب نہیں ۔ بڑے ہی رکھ رکھاﺅ والی خاتون ہیں۔ وہ آج بھی بڑوں کے ساتھ بچوں کی بد تمیزی کسی طور برداشت نہیں کرتیں۔ ادب و آدب کے معاملے میں انتہائی سخت ہیں۔بچپن میں ان کی جانب سے ہمیںجو کچھ سکھایا جاتا ، لفظ بہ لفظ ازبر ہوجایا کرتا تھا۔ والد بھی تربیت کے معاملے میں کافی سخت تھے۔ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا الگ ہی انداز تھا یعنی” کھلاﺅسونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے “ کے مصداق صد فیصد عمل پیرا تھے۔ہمارے و الد محبت کرنے والے شفیق باپ تھے۔ خاص کر مجھ سے ان کا دلی لگاﺅ بہت تھا۔ ان کی باتیں آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں۔
اسے بھی پڑھئے:حق کی حقانیت جاننے کے لئے ایمان ضروری ہے ، فرحین
میری سبھی بہنوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ سب ہی کراچی میں مقیم ہیں۔ میرے بعد والی بہن نزہت کے شوہر ایک ادارے میں میں اچھے عہدے پر فائز ہیں جبکہ سب سے چھوٹی بہن بھی اپنے گھر میں خوش ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں کے ہوچکے ہیں۔والد کے انتقال کے بعد بھائی کا گھر ہی ہم سب بہنوں کا میکابن گیا۔ والدہ بھی بھائی کے ساتھ ہی مقیم ہیں۔ آج میں جب پاکستان جاتی ہوں، والدہ کیلئے اپنے ہاتھ سے ان کی پسند کی ڈشیں بناتی ہوں۔یوں تو بھابھیاں، میری والدہ کی بہت خدمت کرتی ہیں لیکن ہم بہنوں کا بھی فرض ہے کہ اپنی والدہ کی خدمت کریں۔ 
ایک سوال پرمحترمہ ثروت رحمن نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر جہاں زور دیا جاتا ہے وہاں ان پر گھرداری کے حوالے سے بھی کافی سختی کی جاتی ہے تاکہ بچیاں کسی بھی کام میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ میری والدہ بھی گھر داری کے معاملے میں کافی سخت رہیں۔ سب بہنوں کی ڈیوٹی لگتی تھی کہ فلاں دن فلاں ا مور کی تمام تر ذمہ داری فلاںبہن پر عائد ہوتی ہے ۔ اس دور میں امی ہمیں بتاتی تھیں کہ آج فلاں ڈش تیا ر کرنی ہے ۔ اس طرح ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ سیکھ ہی لیا۔ چھٹی والے دن تو ایک، ایک ڈش تینوں بہنوں کو سونپ دی جاتی تھی پھر مقابلہ ہوتا کہ کس نے اچھا کھانا تیار کیا ہے۔ اس طرح مقابلے بازی ہوتی ، ذائقے دار ،مزے مزے کے کھانے بنتے۔ والد صاحب انعام دیتے۔ یوں مسابقتی ماحول میں ہم سب بہنیں امور خانہ داری میں منجھ گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں سسرال میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
جہاں تک سوال بچپن کا ہے ، وہ بڑا ہی اچھا گزرا۔ بچپن کا دور اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر درختوں پر چڑھتے اور دیگر شرارتیں کرتے گزارا۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ پڑوس کے گھر میں آم کا درخت ہوتا تھا جس کی ایک شاخ ہمارے گھر کی دیوار پر لٹکا کرتی تھی۔ ہم دیوار پر چڑھ کر کیریاں توڑ ا کرتے اور مزے لے کر کھاتے تھے۔ اسی طرح محلے کے گھروں کی گھنٹی بجاکر بھاگ جاتے تھے ۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر گڑیا گڈے کی شادی کرواتے ۔ یہ سارے کام کرتے ہوئے ہمارابچپن گزر گیا۔ آج احساس ہوتا ہے کہ بچپن ہی ہماری زندگی کا سب سے سہانا دور تھا ۔ معصوم شرارتیں ، معصوم باتیں یاد کرکے خود ہی مسکراہٹ لبوں پر پھیل جاتی ہے۔ 
محترمہ ثروت سے جب ان کی شادی کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں کہ یوں تو میری شادی کو’ لو میرج “کہا جاسکتا ہے لیکن یہ کچھ تگ و دو کے بعد ارینجڈ میرج میں تبدیل ہوگئی۔ میںشادی کے فوراً بعد سعودی عرب آگئی ۔ یہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی جو چند دن بعد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ وقت بہت کٹھن وقت تھا۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ثروت کافی جذباتی نظر آئیںتاہم سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ذہنی طور پر کافی پریشان رہنے لگی تھی پھر واپس کراچی چلی گئی۔
1997ء میںدوبارہ ریاض آنا ہوا ۔ بڑی بیٹی امل کی پیدائش نے ہماری خوشیوں کو دوبالا کردیا۔ دوسری بیٹی کا نام نوال رکھا۔ دونوں بیٹیاں بیلجیئم کے شہر برسلز میں بالترتیب ماسٹرز اور بیچلرز کررہی ہیں۔ بیٹا سعد الرحمن ابھی چھوٹا ہے ۔ ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے ، اے لیول میں مصروف ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی ابتیہال 8ویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔ 
میں خود کو خوش نصیب تصور کرتی ہوں کہ میرے بچے ما شاءاللہ، تعلیمی میدان میں اتنے آگے ہیں۔ یہ سب میرے شوہر کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ خاص طور پر بیٹے پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ والدین کی محنت کا ثمر ہوتا ہے کہ بچے لائق اور فرمانبردار نکل جائیں۔ دوسری صورت والدین کیلئے بڑے دکھ کی بات ہوتی ہے۔ ثروت نے بتایا کہ میرے ساس سسر کا تعلق یوں تو ہندوستانی شہر بہار سے ہے لیکن کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ میرے شوہر کے تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ سب سے بڑے بھائی کراچی میں مقیم ہیں جبکہ دوسرے دیور دمام میں ملازمت کرتے ہیں۔ بہن بھی کراچی میں رہتی ہیں ، تیسرے دیور کراچی میں اپنا بزنس کرتے ہیں۔ سسر کا انتقال ہوچکا ہے۔ جب بھی کراچی جانا ہوتا ہے، وہاں بہت اچھا وقت گزرتا ہے۔ سارا خاندان اکٹھا ہوجاتا ہے۔ خوب باتیں ہوتی ہیں، دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے یوں مہینہ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے۔ 
باتوں کے دوران ثروت کے شوہر نوید رحمن بھی وہاں آگئے۔ انہوں نے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری جامعہ کراچی سے حاصل کی ہوئی ہے۔ کراچی میں ہی مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے پھر بیرون ملک تربیتی کورس کے سلسلے میں جاتے رہے۔ 1992ءمیں قسمت مہربان ہوئی، ریاض کی ایک بڑی کمپیوٹر فرم میں ملازمت اختیار کر لی۔ آج کل ریاض ہی کی ایک ٹیلی کام آئی ٹی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ نوید الرحمن نہ صرف ریاض شہر میں کافی سوشل ہیں بلکہ کراچی میں بھی ان کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے۔ انہیں نہ صرف شعر و ادب سے کافی دلچسپی ہے بلکہ میوزک انڈسٹری سے بھی گہرا تعلق رہا تاہم چند ناگزیر وجوہ کی بناءپر اس شوق کو خیرباد کہنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا محور صرف اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کو دو ں تاکہ ان کی تر بیت بہترین ہوسکے اور مجھے بعد میں کوئی ملال نہ ہو۔ 
محترم نوید نے کہا کہ اللہ رب العزت کے کرم سے سعودی عرب میں بڑی اچھی اور پرسکون زندگی گزر ہی ہے۔ جہاں تک مستقبل کا سوال ہے تواس کے بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کل کیا ہوگااور کیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ویسے تو میں نے ”لَو میرج“ کی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرا انتخاب غلط نہیں تھا۔ شریک سفر نے میرا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ ثروت میرے مزاج کو سمجھتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے۔ گھریلو سکون اور خوشحال زندگی کے پنپنے کیلئے یہ ہم آہنگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ والدین میں ذہنی ہم آہنگی ہو تو بچے بھی آپس میں ایک د وسرے کے ساتھ دوستانہ سلوک کرتے ہیں۔ان کے درمیان پیا ر و محبت کاجذبہ جنم لیتا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ یوں سمجھئے کہ گھر میں خلوص و محبت کی پھوار برستی ہو تو زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میری ا ہہلیہ میرے گھر والوں کا بہت احترام کرتی ہیں جو مجھے بہت پسند ہے۔ اس پر ثروت نے ہنستے ہوئے کہا کہ نوید میری اور میری شادی کی سالگرہ منانا نہیں بھولتے۔ اس کے لئے بڑا اہتمام کرتے ہیں۔میرے شوہر تحفہ دینے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بلا شبہ تحفہ وہ شے ہے جو میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور ان میں محبت کے جذبے کو پروان چڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے ۔ تحفہ ایک دوسرے کے دل میں گھر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یوں تو زندگی میں لاکھ دکھ اور پریشانیاں ہوتی ہیں تاہم اگر انسان چھوٹی چھوٹی خوشیاں دامن میں سمیٹتا رہے تو زندگی خوشیوں سے معمور ہوسکتی ہے۔
ادب کے حوالے سے ایک سوال پرمحترمہ ثروت نے جواب دیا کہ شعرو شاعری کا شوق تو نوید کو بہت ہے مگر اتفاق سے مجھے بھی شاعری پسند ہے۔میں اکثر فارغ اوقات میں مطالعہ بھی کرتی ہوں اور شعرو شاعری بھی ۔ ناصر کاظمی کی نظم آپ کی نذرکر رہی ہوں:
تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شام جدائی
میں اس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہاتھا
میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کاتارا بھی روتا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
سنناٹے میں جیسے کوئی
 دور سے آوازیں دیتا تھا
یادوں کی سیڑھی سے ناصر
رات اک سایا سا اترا تھا
آخر میں ثروت نے کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہمارے ملک کے حالات مزید بہتر ہوجائیں اور ملک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے۔ یہ میری ہی نہیں ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے۔
 

شیئر: