Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”کمہار پہ بس نہ چلے، گدھی کے کان اینٹھو“

 
ابو غانیہ۔جدہ
ہمارے بزرگوں نے کئی دہائیوں قبل ایک بات بیان فرمائی تھی جوبعدازاںزباں زدِ عام ہو کر” کہاوت“ بن گئی مگر ہم اسے کہاوت نہیں کہیں گے کیونکہ ہم بزرگوں کا ادب کرتے ہیں اور بزرگ کہا نہیں کرتے بلکہ فرمایا کرتے ہیں اس لئے کوئی کچھ بھی کہے مگر ہم یہی کہیں گے کہ بزرگوں کی ایک ”فرماوت“ہے کہ ”کمہار پہ بس نہ چلے، گدھی کے کان اینٹھو“۔ہمارے ہاں کسی بھی زیادتی یا ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہو یاکسی سے معمولی تو تکار ہو جائے تو اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک دو یا جتنی ہمت و جرا¿ت ہو، بس یا بسیں جلا دی جاتی ہیں۔زیر نظر تصویر اسی ”فرماوت“ کی ”حقیقی عکاسی“ ہے۔
جیسے ہر کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی حقیقت یا واقعہ ضرور ہوتا ہے اسی طرح اس ”فرماوت“ کے پسِ پشت بھی ایک مجازی واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ آج سے کئی صدیوں قبل کسی ترقی پذیر ملک کے متوسط طبقے کا ایک سفید پوش رہا کرتا تھا۔ اس کے بچے تو پانچ تھے مگر بیوی صرف اور صرف ایک۔آب و ہوا اس ملک کی بھی گرم خشک تھی۔ اس سفید پوش کے ہمسائے میں ایک ”سیاہ پوش“ ہا کرتا تھا۔اس کے چار بچے تھے اور چار ہی بیویاں تھیں۔ روپے پیسے کی فراوانی تھی۔ امارت کا یہ عالم کہ اس ”سیاہ پوش“ نے اپنی ہر بیوی کو علیحدہ سے ایک گھڑا لے کر دے رکھا تھا۔شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں یہ چاروں بیگمات اپنے صحن میں نیم کے پیڑوں کے نیچے رکھی گھڑونچیوں کے پاس پیڑھا بچھا کر بیٹھ جاتیں اور خادمائیں انہیں ہاتھ کے پنکھے جھلتی رہتیں۔ بار بار وہ خادمہ سے کہتیں کہ پانی پلاﺅ۔ وہ گھڑے سے ٹھنڈا پانی مٹی کے پیالے میں انڈیل کر بیگم صاحبہ کو تھما دیتی۔یوں چاروں سوکنیں عیش کیا کرتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر اس سفید پوش کی اکلوتی زوجہ ضد کرتی کہ مجھے بھی گھڑا لا کر دو۔ سارا دن گرم پانی پینے کو ملتا ہے۔جس زندگی میں ٹھنڈا پانی بھی میسر نہ ہو وہ زندگی بھی بھلا کوئی زندگی ہے؟
بیوی کی روز روز کی چق چق سے تنگ آکر آخر کار سفید پوش نے ایک پیسہ مہینے کی کمیٹی ڈالی۔دس ماہ کے بعد اس کی 3آنے یعنی 12پیسے کی کمیٹی نکلی۔ وہ سیدھا کمہار کے پاس پہنچ گیا اور اس سے 10پیسے میں ایک گھڑا خرید کر گھر پہنچا اور درووازے پر زورداراندازمیں دستک دی۔ پانچوں بچوں نے بھاگ کر دروازہ کھولا اور گھڑا دیکھ کر انہوں نے خوشی کے مارے چیخیں مار دیں۔ بیگم صاحبہ کھولی سے نکلیں اور گھڑا دیکھ کر پہلے تو مسکرائیں اور پھر خاوند کی حاتم تایانہ نظریں دیکھ کر شرما سی گئیں۔سفید پوش گویا ہوا کہ ”زوجہ! میں تیرے لئے آسمان سے تارے تو توڑ کر لا نہیں سکا البتہ خون پسینے کی کمائی سے یہ گھڑا خرید کر لایا ہوں، اسے قبول کر لے۔ بیگم نے کہا کہ اجی!چھوڑئیے بھی، مجھے تو ویسے ہی آپ کی محبت پہ بھروسہ ہے۔آپ کی محبت کو گھڑے کے صداقت نامے کی ضرورت نہیں تھی۔بہر حال لے آئے تو شکریہ،باندی آپ کے ہمیشہ زیرِ بارِ احسان رہے گی۔
اگلے ہی روز بیگم صاحبہ نے کنویں سے جا کر گھڑے میں پانی بھرا اور کھولی میں لے جا کر رکھ دیاکہ شام تک ٹھنڈا ہوجائے گا تو پی کر پیاس بجھائیں گے مگر یہ کیا، شام ہوئی تو گھڑا خالی ہوگیا اور کھولی میں زمین پر بچھی دری تربتر ہوگئی۔ سفید پوش جیسے ہی گھر آیا، بیگم صاحبہ نے غصے میں بولنا شروع کر دیاکہ ”آئے تھے بڑے محبت کے دعویدار، تمہاری طرح گھڑا بھی دغا باز نکلا، پانی بھر کے رکھو تو مجھے تو ایک کٹورہ نصیب نہیں ہوتاالبتہ کھولی کے فرش پر بڑے طمطراق سے بکھر کر مجھے منہ چڑاتاہے۔سفید پوش نے فوراً ہی گھڑا اٹھایااور کمہار کے پاس لے جا کر کہا کہ یہ گھڑا ٹپکتا ہے۔ اس پر کمہار مونچھوں کو تاﺅ دیتے ہوئے بولا کہ خبر دار، میرے فن میں کوئی نقص نکالنے کی جرا¿ت نہ کرنا۔ صاف کیوں نہیں کہتا کہ تجھے گھر میں گھڑا رکھنے کی تمیز ہی نہیں۔پانی سے بھر کر گھڑے کو زمین پر پٹخ دیا ہوگا اسی لئے ٹپکنے لگا۔ابے اس گھڑے کے لئے گھڑونچی درکار ہوتی ہے۔پہلے گھڑونچی خریدنے کے قابل ہوجاتا، اس کے بعد ہی گھڑا خریدنا چاہئے تھا۔خیر تو میرے دوست ”سیاہ پوش“ کا ہمسایہ ہے، اس لئے کہہ رہا ہوں، گھڑا چھوڑ جا، وقت ملے گا تو نیا بنا دوں گا۔اس کے بعد سفید پوش ہر دوسرے دن نیا گھڑا لینے کی امید پرکمہار کے پاس جاتا اور وہ بہانہ بنا کر اسے ڈانٹتا اور یہ کمزور اور بے بس ہونے کے ناتے ایک لفظ نہ بول پاتا، وہ ڈانٹ سن کر الٹے قدموں چلا آتا۔ایک دن سفید پوش کمہار کی ڈانٹ سن رہا تھا کہ گھر کے دروازے پر بندھی اس کی گدھی نے ڈھینچو، ڈھینچو کرنا شروع کر دیا۔ کمہار کو بے حد غصہ آیا، اس نے گدھی کو ڈنڈے سے مارنا شروع کیا۔ وہ گدھی نہایت خوددار اور انا پرست تھی، اس نے کمہار کو دولتی ماری۔ یہ منظر دیکھ کر سفید پوش کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کراسے اپنے دل کی بھڑاس میں کچھ کمی محسوس ہوئی۔ دو رووز بعد پھر جب وہ گھڑا لینے کی امید سے کمہار کے پاس گیا تو اس نے حسب سابق اسے ڈانٹا اور کہا کہ مجھ پر مسلط ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، جب فالتو وقت ہوگا، نیا گھڑا بنا دوں گا۔ سفید پوش اپنا سا منہ لے کر واپس جارہا تھاکہ اچانک اسے کمہار سے بدلہ لینے کا خیال آیا اور اس نے گدھی کا کان زور سے پکڑ کر مروڑ دیا۔ گدھی نے ڈھینچو کی آواز نکالنا شروع کی، کمہار نے اسے پھر مارا اور گدھی نے جواباً اس پر دولتی جھاڑ دی۔اب سفید پوش نے معمول بنا لیا کہ جب اسکی زوجہ گھڑے کی ضد کرتی یا اسے کمہار کی زیادتی کا خیال آتا تو وہ دوڑ کر جاتا اور کمہار کی گدھی کا کان اینٹھ کر بھاگ جاتا اور دور کھڑے ہو کر منظر دیکھتا کہ کمہار گدھی کو مارتا اور وہ جواباً دولتی مار کر اسے زخمی کر دیتی۔
ایک روز سفید پوش کی زوجہ نے گھر میںگھڑا نہ ہونے پراپنے خصم کو خوب ڈانٹا۔ سفید پوش زوجہ سے ڈرتا تھا، وہ اسکے سامنے کچھ بول نہیں سکاچنانچہ اس نے اپنا غصہ اپنی 8سالہ بچی کو مار کر نکالا۔ یہ منظر دیکھ کر زوجہ نے کہا کہ کیا ہو گیا ہے تمہیں، کمہار پر بس نہیں چلتا تو گدھی کے کان اینٹھ آتے ہو، میرے سامنے چوں کرنے کی ہمت نہیں تو بچی بے چاری کو مارنا شروع کر دیتے ہو۔
بس یہی وہ دن تھا جب یہ ”فرماوت“ وجود میں آگئی کہ ”کمہار پر بس نہ چلے، گدھی کے کان اینٹھو۔“اب اس ”فرماوت“ کو پیش نظر رکھ کر ذرا زیر نظر تصویر پر غور کیجئے۔ ہمارے وطن عزیز میں حالت یہ ہے کہ وعدہ کیا گیا کہ رمضان مبارک میں سحری اور افطاری کے دورران لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی اور ہو یہ رہا ہے کہ ان دو اوقات میں لوڈ شیڈنگ باقاعدگی سے کی جارہی ہے۔اسی طرح عوام نے مطالبہ کیا کہ بجلی آ نہیں رہی مگر بل بھاری بھرکم آ رہے ہیںکچھ خیال کیا جائے۔ جواباً بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا۔لوگوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی جائے، ہم دو کی بجائے ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔اس کا ردعمل یہ ہوا کہ مہنگائی اتنی بڑھا دی گئی کہ لوگوں کو ایک وقت کی روٹے کے بھی لالے پڑنے لگے۔بعض اداروں کے ملازمین نے کہا کہ مہنگائی حد سے بڑھ گئی ہے، تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے جواب میں لوگوں کو ملازمتوں سے ہی فارغ کیا جانے لگا۔انجام یہ ہوا کہ عوام نے سمجھ لیا کہ صاحبانِ اختیارپر ان کا بس نہیں چلتا چنانچہ انہوں نے صاحبانِ بے اختیار کی چلتی بسیں جلانی شروع کر دیں۔ان کا خیال ہے کہ ملک کے کرتا دھرتا ہم جیسے سفید پوشوں کی نہیں سنتے مگر جب ٹرانسپورٹرزاپنی بسیں جلنے پر چلائیں گے تو ان کی آواز ضرور سنی جائے گی اس طرح شاید ہمارا بھی بھلا ہوجائے۔اس کو کہتے ہیں کہ ”کمہار پہ بس نہ چلے،گدھی کے کان اینٹھو۔“زیر نظر اسی حقیقت کی منہ بولتی تصویر دکھائی دے رہی ہے ناں؟
 
 

شیئر: