Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستقبل کی سیاست

***محمد مبشر انوار***
17اگست2018بروز جمعہ المبارک ،عمران خان22 سالہ طویل جدوجہد کے بعد،پاکستان کے22کروڑ عوام کی پارلیمان سے22ویں وزیر اعظم منتخب ہو گئے ،عمران اپنی جدوجہد کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری نے اس انتخاب کے متعلق جو سوال اٹھایا وہ واقعتاً انتہائی اہم ہے اور یقین واثق ہے کہ اس سوال کا جواب عمران کے پاس فی الوقت نہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اور عمران کی طرز حکومت اس سوال کا جواب بخوبی دے گی ۔ بلاول کے سوال کے مطابق عمران نے اس انتخاب کی کیا قیمت ادا کی ہے،کے جواب میں جو دو ممکنہ آراء ہو سکتی ہیں کہ اولاً غیر جمہوری قوتوں نے حقیقتاً یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ملکی سیاست کو حقیقی جمہوری پٹڑی پر چڑھا کر ،کرپشن کے خلاف روبہ عمل ہونا چاہتے ہیں یا وہ عمران کو اقتدار دے کر اس غبارے میں سے بھی ہوا نکالنا چاہتے ہیں،تا کہ اپنی ناگزیریت کو مسلم کر سکیں؟ میری اپنی دانست میں مؤخرالذکر کا امکان زیادہ ہے کہ جس طرح کا کھیل اس وقت کھیلا جا رہا ہے،اس میں اس کا امکان زیادہ ہے ،اس کی وجہ  ہارون الرشید کا ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ خبر دینا کہ سابق نا اہل وزیر اعظم کو پمز میں یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اگر وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو نئے وزیر اعظم کے آنے سے پہلے پہلے انہیں باہر بھیجا جا سکتا ہے۔ اس خبر کے بعد (اگر سچ ہے) تو یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اس وقت بھی (ہمیشہ کی طرح)پس پردہ مقتدرہ ہی سیاست کے کھیل کو چلا رہی ہے اور مسلم لیگ ن کا یہ بیانیہ ،کہ ان کی قیادت کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے،وزن رکھتا ہے۔  ا س پس منظر میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘  ٹوٹ چکا  ہے۔ تو وہ بری طرح غلط فہمی کا شکار ہے،جس کابینہ کا اعلان کیا گیا ہے۔اس میںاکثریت ایسے وزراء کی ہے جو اس سے پہلے بھی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں بلکہ زیادہ تر پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں۔ ایسی کابینہ تشکیل دینے کے بعد بھی اگر عمران یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کلی طور پر ان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے تو اس سے بڑا دھوکہ خود کو نہیں دیا جا سکتا۔دوسری طرف اس میں بلاول کے سوال کاجواب بھی موجود ہے کہ عمران نے اپنی ’’سلیکشن‘‘ کی کیا قیمت ادا کی ہے۔ ابھی تو یہ ابتداء ہے ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا،کہ اقتدار کا یہ سنگھاسن انتہائی نازک شاخ پر قائم ہوا ہے اور اسے قائم رکھنے کیلئے عمران اور بہت سے سمجھوتے کرتے نظر آئیں گے،یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان سمجھوتوں میں وہ عوام سے کئے گئے وعدے کیسے پورے کر پائیں گے؟؟
علاوہ ازیں جس انقلاب کا دعوی عمران پچھلے22 سالہ سیاسی کیریئر میں کر تے رہے ہیں،کیا وہ اس کی تعبیر دینے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ انصاف ،تعلیم،صحت اور پانی جیسے بنیادی مسائل کا حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟راستے کی رکاوٹوں کو کس طرح دور کر سکیں گے کہ ان بنیادی سہولتوں کے لئے قوانین پہلے ہی موجود ہیں مسئلہ ہمیشہ سے ان پر عمل درآمد کا رہا ہے۔ کیا عمران بگڑی ہوئی افسر شاہی کو لگام ڈال سکیں گے؟گو کہ اپنے انقلابی پروگرام کے لئے انہیں نئی قانون سازی کرنے کی ضرورت پڑی تو کیا یقینی طور پرسادہ اکثریت کی بنیاد پر نئے قوانین تشکیل دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو گالیکن اس پر عملدرآمد کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکے گا،اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔ اس وقت تو اہم ترین مرحلہ پہلے سو دنوں میں اپنی ترجیحات اور سمت کے تعین کا ہے،نئی ٹیم کی تشکیل کا ہے کہ عمران اپنے دعوے میںکس قدر مخلص ہیںاور یہی عمل ہے جو آنے والے دور کی نشاندہی کرے گا۔  معاشی بحران بلا شبہ انتہائی سنگین ہے مگر اطلاعات ایسی ہیں کہ دوست ممالک تعاون پر آمادہ ہیں اور اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لئے مددکرنے کے لئے تیار ہیں لیکن کیا یہ واقعی صرف مدد ہو گی یا اس کے بدلے میں کوئی فرمائش بھی ہو گی،جیسا کہ 2013کے انتخابات کے نتیجے میں ہوا تھا؟
بطور وزیر اعظم عمران کو مکافات عمل کا سامنا تو پارلیمنٹ میں کرنا ہی تھا کہ زخمی’’شیر‘‘ ایسے موقع کو کیونکر ضائع کرتا ؟مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی نے عمران کی تقریر کے دوران جو کیا،وہ قابل فہم تھا کہ ان سے اس کی توقع کی جا رہی تھی اور جواباً جو تحریک انصاف کے اراکین نے شہباز شریف کی تقریر کے دوران کیا،وہ حزب اقتدار کے لئے قطعاً مناسب نہیں تھا کہ ابھی انہیں آئے ایک دن بھی نہیں ہوا اور ان کے لئے یہ موقع تھا کہ وہ ماحول کو ٹھنڈا رکھنے اور اپنی حکومت کے لئے نرم گوشے کے حصول میں پہل کرتے مگر یہ ہو نہ سکا اور اب قرین قیاس یہی ہے کہ اس پارلیمنٹ کے دور میں طرفین سے ہلڑ بازی کا مشاہدہ ہوتا رہے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تحریک انصاف برداشت،روا داری،تہذیب میں پہل کرتی اور شہباز شریف کو تقریر کرنے کا بھر پور موقع فراہم کر کے مستقبل میں اپنے لئے آسانیاں پیدا کر لیتی۔
دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری کی پہلی تقریر نے سب جہاندیدہ سیاست دانوں کو دیوار سے لگا دیا،پر اعتماد طریقے سے حقیقی سیاسی تقریر کو سب نے نہ صرف خاموشی سے سنا بلکہ بلاول بھٹو کو داد بھی دی۔ بلاول اور پیپلز پارٹی کی سیاسی بالغ نظری کا اس سے زیادہ بین ثبوت اور کیا ہو گا کہ ملک میں ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کے اعتراف کے باوجود نتائج تسلیم کر کے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں اور اس کے خلاف مؤثر قوانین و تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے جمہوری عمل کو جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری نے حقیقتاً میلہ لوٹ لیا،میں پہلے بھی یہ لکھتا رہا ہوں کہ بلاول میں بات کرنے کا ڈھنگ،قائل کرنے کی صلاحیت اور امور پر گرفت اس عمر میں ہی قابل رشک ہے اور وہ اپنے تمام ہم عصر و ہم عمرسیاستدانوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آصف علی زرداری انہیں سیاست کرنے میں فری ہینڈ دیں تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کر لیں۔ اس امکان کو ابھی بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتاکہ جس تیزی کے ساتھ مسلم لیگ ن پنجاب میںسمٹ رہی ،ممکن ہے کہ بلاول کی محنت سے پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ اپنی حیثیت حاصل کر سکے ۔ یہ بات یقینی ہے کہ پیپلز پارٹی،  بھٹو والی پارٹی تو دور کی بات،بے نظیر والی مقبولیت بھی حاصل نہ کر پائے مگر یہ ضرور ہے کہ اپنی واضح موجودگی کا احساس دلا سکے،نیز سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بلاول واقعتاً بھٹو والی پالیسوں کا اجراء کرنے میں کامیاب ہو گئے،کارکنان (جو تھوڑے بہت بچے ہیں)کو عزت دینے میں کامیاب ہو گئے،تو یہ کوئی نا ممکن امر بھی نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے احیاء میں کامیاب نہ ہوں۔ بہر کیف بلاول کی تقریر کے دوران جو رویہ پارلیمنٹ میں دیکھنے کو ملا،وہ نہایت دلکش تھااور یہی خواہش ہے کہ پاکستان میں اس سیاسی کلچر کا احیاء ہو،جو اقوام عالم میں ہماری عزت و پہچان بن سکے،نہ کہ وہ رویہ جو قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی تقاریر کے دوران دیکھنے کو ملا۔وہ ہماری شناخت و پہچان بنے ۔ فی الوقت مستقبل کی سیاست میں شائستگی،رواداری، برداشت،تحمل وغیرہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں