Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی بلوغت

***محمد مبشر انوار***
جمہوری طور طریقوں اور ووٹ کی طاقت پر بننے والا ملک پاکستان عجیب مخمصے میں ہے کہ یہاں کی عوام جمہوریت چاہتی ہے۔سیاستدان جمہوریت چاہتے ہیں،فوج جمہوریت چاہتی ہے مگر جمہوریت ہے کہ کہیں نظر نہیں آتی۔ عوامی رجحان کو دیکھیں تو جو عدم برداشت،زور زبردستی،اندھی تقلید،قوانین کی خلاف ورزی غرض ایسا کیا نہیں،جو مہذب معاشروں میں قابل نفرت تصور ہوتاہے ،ان میں موجود نہیں۔ سیاستدان ہیں کہ دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر مجال ہے کہ کسی ایک جمہوری روئیے پر عمل پیرا ہوتے ہوں،پارلیمنٹ کے تقدس کی دہائیاں تو دیتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں جانا گوارا نہیں کرتے ،آئین کو سپریم تو مانتے ہیں مگر خلاف آئین قانون سازی کرتے نہ جھجھکتے ہیں نہ انہیں شرم آتی ہے۔غریبوں کی خیر خواہی کا دم بھرتے ہیں مگر اسی مقدس ایوان میں بیٹھ کراپنے اللوں تللوں کی خاطر غریب کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑنے سے باز نہیں آتے۔خادم عوام کہلانا پسند کرتے ہیں مگر عوام کو سر عام ذلیل کرنے سے زیادہ کوئی فعل عزیز نہیں۔ اتنے تضادات کے باوجود ،ملک ہے کہ ابھی تک قائم ہے۔ اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں جمہور اور جمہوریت ہمیشہ سے پابند سلاسل ہی نظر آئی ہے۔خواہ وہ آمرانہ دور رہا ہویا جمہوری آمریت کا ۔جمہور،جمہوریت اور جمہوری ادارے کبھی آزاد نہیں رہے،ان کی گھٹن کا ان دیکھا احساس ہمیشہ رہا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے 2002کی کنٹرولڈ جمہوریت کا نظارہ اور تجربہ اس ملک نے کیا یہ تو بھلا ہو ’’مذاق جمہوریت ‘‘ کا جس نے اس پابند سلاسل جمہوریت کو تھوڑی سی ہوا دی،جمہوری عمل جاری ہوالیکن ہم آج بھی جمہوریت کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔مراد جمہوریت ابھی بھی مکمل آزاد نہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج کے دور میں جہاں کوئی بھی مسلمہ نظام اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال کر نافذ العمل کر دیا جاتا ہے،ہم آج بھی جمہوریت کے ارتقائی مراحل طے کرنے پر تلے ہیں،جبکہ یہ بطور نظام مسلمہ ہے،کیوں ہم اس کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال کر اپنے ملک میں نافذ کرنے سے قاصر ہیں؟اس کا ایک لفظی جواب ہے ’’بد نیتی‘‘،ہماری سیاسی اشرافیہ کسی طور بھی اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنی من مانیوں کو ،اپنے شاہانہ مزاج کو یکسر چھوڑ نہیں سکتے۔ 
انتخاب 2018کے نتائج کسی حد تک غیر متوقع رہے۔ خدشات کے عین مطابق ہارنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے انتخابی عمل پر انگلیاں ہی نہیں اٹھائیں بلکہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں کسی حد تک 1970والی کیفیت نظر آئی کہ سیاست کے بڑے بڑے برج الٹتے نظر آئے، ان میں سب سے حیران کن صورتحال،نوجوان بلاول کی رہی جو لیاری سے بری طرح ہار گئے،مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسمعیل خان سے ہار گئے،سراج الحق دیر سے ہار گئے۔تحریک انصاف پورے ملک میں اپنی موجودگی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی،لیکن اپنی اس موجودگی کے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی،مانا کہ عمران کا آخری جلسہ کراچی غیر متوقع طور پر انتہائی غیر معمولی تھا مگر جہلم کا ایک ناکام ترین جلسہ بھی تھا۔شاہدرہ کا جلسہ بھی کچھ ایسا ہی سماں پیش کر رہا تھا۔اس پس منظر میں ایسی کامیابی یقینی شکوک و شبہات چھوڑتی ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ اداروں پر عدم اعتماد ہے۔ در حقیقت صرف میں ذاتی طور پر دکھی ہی نہیں بلکہ کرب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں کہ جب ہمسایہ ملک کی طرف دیکھتا ہوں تو وہاں اداروں کی ساکھ ،اداروں پر اعتماد،انتخابی عمل پر غیر متزلزل یقین نے کبھی ’’نگران حکومتوں ‘‘ کا وجود نہیں دیکھا،جو مسلمہ جمہوری اصولوں کے نفاذ کے باعث ممکن ہوا ہے۔ آل پارٹیز کی پریس کانفرنس میں یہ الفاظ سن کر دل خون کے آنسو رویا،جب مولانا فضل الرحمن،الیکشن کمیشن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ آپ کو ہم نے بنایا،ہم نے اختیارات دئیے،ہم نے بجٹ دیااور یہ ہے آپ کی کارکردگی؟میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ادارے کب آزاد ہوں گے؟نتائج کسی حد تک مولانا کی بات کی تصدیق کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ کئی ایک حلقوں میں دوبارہ گنتی کے عمل میں جیتا ہوا امیدوار ہارا ہے۔ایسی کارکردگی کے پیچھے کون اور کیوں ہے؟کیا ایک ادارہ/مقتدرہ اپنی ناگزیریت ثابت کرنا چاہتا ہے؟کیا مقتدرہ ’’مذاق جمہوریت‘‘ میں بندھی ہونے کے باعث پس پردہ رہ کر اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہے اور دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ یہ ملک جمہوریت کے قابل نہیں؟سوال تو اور بھی بہت سے ہیںاور ہوتے رہیں گے مگر ان انتخابی نتائج کو دیکھ کر ایک حقیقت پھر واضح ہو گئی کہ پاکستان میں کوئی بھی انتخاب آزادانہ ،منصفانہ نہیں ہوااور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا کیونکہ خرابی یکطرفہ بلکہ دو طرفہ ہے کہ ایک طرف مقتدرہ کو اپنا کھیل کھیلنے کے لئے بآسانی ہوس اقتدار کے سیاست دان میسر ہیں تو دوسری طرف عوام و سیاستدان دئیے گئے وقت میں اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے مسلسل لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ 
اس قوم کی ذہنی سوچ،قانون پر عدم اعتماد ،حق کے حصول میں محاذ آرائی ہی کو صرف ایک ایسا ہتھیار سمجھتی ہے جس نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان انتخابات میں جو بھی بے ضابطگیاں ہوئی(جوجسکی ماضی میں عدالت عظمیٰ نے تعریف کی اور جس کا فائدہ اس وقت مسلم لیگ ن کو پہنچا)یا دھاندلی کہیں(اس وقت تحریک انصاف کی دہائی)،آج انہی بے ضابطگیوں پر جب مسلم لیگ ن نے واویلا کیااور موقع پر ہی چند ایک حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی،تو نتائج بدل گئے۔ بات یہاں تک تو ٹھیک رہی اور قابل ستائش بھی کہ متعلقہ اداروں نے فوری طور پر اپنے اختیارات اور قوانین کے مطابق سائلوں کی داد رسی کر دی مگر جیسے ہی نتائج بدلنے شروع ہوئے انتخابی عملے نے ،بغیر کسی معقول وجہ کے،دوبارہ گنتی کی درخواستیں وصول کرنے اور ان پر ایکشن لینے سے انکار کر دیا۔ انتخابی عملے کے انکار میں کون سا خفیہ ہاتھ شامل تھا(ماضی کے تجربے کو ذہن میں رکھا جائے تو صرف ایک ہی ہاتھ اس میں نظر آتاہے ،لیکن کیوں)؟اقتدار کہیں بھی پھولوں  کی سیج نہیں رہا مگر اس کے چاہنے والے ہمیشہ اس کی تمنا میں ہر طرح کے مرحلوں سے گزر کر اس کا حصول چاہتے ہیں مگر قائد اعظم اور نیلسن منڈیلا جیسی ہستیاں روئے زمین پر کم دیکھنے کو ملتی ہیں جو حقیقتاً کسی نظرئیے کی جیت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتی ہیں اور کسی بھی مرحلے پر سمجھوتہ نہیں کرتیں کہ انہیں اپنے نظرئیے کی سچائی پر ایمان کی حد تک یقین ہوتا ہے مگر حالیہ انتخابات میں گو کہ عمران نے کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن یہ حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سمجھوتہ ہوا ہے!!اس سمجھوتے کے بعد کیا عمران اپنے منشور پر عمل پیرا ہو سکے گا؟کیا وہ اپنی اکثریت قائم رکھ سکے گا؟یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان جس دور میں داخل ہو رہا ہے ،ابھی بھی نظام اپنی تمام تر خرابیوں،خامیوں کے باوجود اتنی زرخیزی اپنے اندر رکھتا ہے کہ حقیقتاً جمہوری اقدار و روایات اپنا کر اقوام عالم میں سرخرو ہو سکے۔ ابھی بھی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی مہلت ختم نہیں ہوئی،جو بھی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں،ان کو جمہوری انداز میں قانون کے اندر رہتے ہوئے دادرسی کی کوشش کرنے میں ہی سیاسی بلوغت پوشیدہ ہے،جس کا تھوڑا سا مظاہرہ نظرآنے لگا ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے محاذ آرائی سے گریز کرنے کا اشارہ دیا ہے اور معاملات کو قانونی طریقوں سے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس مہلت کو مثبت طریقے اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے،سیاستدان اپنی حیثیت کو منوا کر غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے روک لیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں