Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیسے حُسن کے بغیر حَسین

شہزاد اعظم
غزل کے بغیر میں نے 40روز گزارے مگر ایک ایک لمحہ گن کر۔اس کیفیتِ انتظار کی مثال دینے کےلئے برسہابرس مجھے الفاظ میسر نہیں آسکے تھے پھر یوں ہوا کہ 2013ءآیااور میں”گوشہ¿ انتہائی نگہداشت “میں پہنچ گیا۔ وہا ںایسا لگ رہا تھا جیسے موت نے دوستی کےلئے ہاتھ بڑھارکھا ہے اور اُس کی اِس عنایت سے فرارہی میری سب سے بڑی اور آخری خواہش ہے۔میں اُس ”کاشانہ¿ اجل“ میں جب ایک ایک لمحہ گِن رہا تھا تو مجھے ایسا لگا جیسے 20برس پرانی اذیت کے تار پھر کسی نے چھیڑ دیئے ہیں، آج میں زندگی کی خواہش میں اسی کرب سے خو کو دوچار محسوس کر رہا تھا جو غزل کے40روزہ انتظارکی شکل میں میرے جذبات و احساسات کو 2دہائیوں قبل روئی کی طرح دُھنک چکا تھا۔
اس 40روزہ انتظار کے 35ویں روزمیں غزل کے مرتب شدہ پروگرام کے تحت اسی کے کمرے میں بیٹھا اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی چائے پی رہا تھا کہ اچانک ”خطِ ارضی“ یعنی ”لینڈ لائن “فون کی گھنٹی بجی۔ میں حیران تھا کہ میری تنہائیوں میںیوں ببانگِ دہل مخل ہونے کی جرا¿ت کون کر سکتا ہے ۔ ذرا توقف کے بعد میں نے فون اٹھایااور سلام عرض کیا۔ دوسری جانب سے جواب سن کر ایسا لگا جیسے میری روح کے رونگٹے جھڑے ہوگئے ہیں، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ غزل تھی جو کہہ رہی تھی ”و علیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ “۔ یہ بتاﺅمرے شاعر اس طویل فراق میںمجھے کب کب یاد کیا؟ میں نے کہاکہ سوال یوں پوچھئے کہ اس فراق میں مجھے کب کب بھلایا تاکہ میں جواب دے سکوں کہ وہ لمحہ ابھی تک تو میری زندگی میں آیا نہیں۔ غزل نے کہا کہ میں نے اتنے عرصے کے بعد ملاقات کے موقع پر اپنے شاعر سے ”ڈریس کوڈ“دریافت کرنے کے لئے فون کیا تھا، پھولوں کے زیور کے علاوہ اور کیا ہونا چاہئے؟ میں نے کہاکہ بال ”اونیئن “ ڈیزائن میں بنائیے، کارچوبی ساڑھی ہونی چاہئے، پیروں میں پنسل ہیل ، گلاب کی خوشبواور...... غزل نے کہا کہ آگے میں بیان کر دیتی ہوں کہ ”خیالوں میں آپ کا ساتھ،ہاتھوں میں آپ کا ہاتھ، دل میں آپ کی یاداور غزل کو داد، یہ سب بھی اس ”فیشن کوڈ“ کے لئے ناگزیر ہیں ناں؟ 
اسے بھی پڑھئے:کم سے کم آنکھ میں کاجل نہ لگایا ہوتا
اُس روز یوں ہوا کہ انتظار کے لمحات تمام ہوگئے۔ رات کے 9بج رہے تھے۔میں عروس البلاد کے ہوائی اڈے پر کھڑا اپنی عروس کی آمدکا انتظار کر رہا تھا۔ بیرون ملک سے آنے و الے مسافروں کی ٹولیاں ہنستی، گاتی،مسکراتی، چہچہاتی، بہلتی، بہلاتی لاﺅنج سے باہر نمودار ہو رہی تھیںمگر میری نگاہیں انہیں درخوراعتنا نہیں جان رہی تھیں کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری غزل سر سے پاﺅں تلک عبائے میں مستور ہوگی، اس میں سے صرف اس کی آنکھیں جھانک رہی ہوں گی جنہیں صرف میں ہی پہچان سکوں گا کیونکہ مسافروں کے اس جم غفیر میںصرف وہی آنکھیںایسی ہوں گی جو میرے تعاقب میں ہوں گی۔کچھ مزید انتظار کے بعد میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جو آج بھی میرے ذہن میں ”یادوں کے عجائب گھر“میں فلک بوس تصویر کی طرح آویزاں ہے۔نازک صنف میں ڈھلی” حقیقی غزل“اپنے شاعر کی ”داد بار آنکھوں“ کو تلاش کرکے ، سامان کی ٹرالی کو دھکیلتی اپنی والدہ کے ہم قدم میری جانب چلی آ رہی تھی۔اس کے چہرے پر نقاب تھا ،اس کے باوجود آنکھیں بتا رہی تھیں کہ غزل اپنے شاعر کو دیکھ کر مسکرا رہی ہے اور اس کے جذبات پر گرنے والی شبنم کے قطرے آنکھوں سے فرار ہو رہے ہیں۔وہ قریب آئی تواس کی والدہ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مصافحہ کیا۔ میں نے امی کے بعد بیوی سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس نے ”ٹھینگا“ دکھایا اور کہا کہ:
 ”سرِ بازار چھوڑو چھیڑ مہ جبینوں سے“
دنیا دیکھ رہی ہے، ہرکسی کوتو یہ معلوم نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے محرم ہیں، شریک حیات ہیں، آپ شاعر ہیں، میں غزل ہوں، آپ کاگزرا ہوا کل ہوںاورآنے والا پل ہوں،جہاں اتنا انتظار کیا وہاں کچھ دیر اور سہی۔اس دوران امی جان کی معنی خیز نظریں مجھے اس انداز میں کرید رہی تھیں جیسے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کسی خزانے کی اُمید میں بنجر زمین پر کدال چلا رہے ہوں۔معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے غزل سے دریافت کیا کہ یہ کہئے! لندن میں دن کیسے گزرے؟غزل نے کہا کہ میں سیدھی سادھی آدمی ہوں، سیدھی بات کرنا جانتی ہوں، آپ ہم سے سیدھا سوال کیوں نہیں کرتے کہ یہ بتاﺅ میرے بغیر لندن میںوقت کیسے گزرا۔ تو جناب عرض ہے کہ جیسے آفتاب کے بغیر دن، ماہتاب کے بغیر رات،سیاہی کے بغیر تاریکی، چمک کے بغیر روشنی، آسمان کے بغیر زمین، حُسن کے بغیر حَسین، پانی کے بغیر دریا، روانی کے بغیر سفر، بینائی کے بغیر نظراسی طرح شاعر کے بغیر غزل۔ 
میں نے کہا:میں نے شاعر ہوکر بھی اس قدر تشبیہات و ا ستعارات ” کسی “کی غزل میں نہیں دیکھے ، اس نے کہا کہ یہ غزل ”کسی“ کی نہیں، آپ کی ہے۔اسی اثناءمیں ٹیکسی گھر کے دروازے پر جا لگی۔میں ٹیکسی سے باہر نکلاامی کوہاتھ پکڑ کر ٹیکسی سے اُتارا، ڈکی سے سامان نکالا، پلٹ کر دیکھا تو غزل ابھی تک ٹیکسی سے باہر نہیں آئی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا تو اس نے ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ :
”مرا ہاتھ تھام لوہاتھ میں، کہ شریک ہوں میں حیات میں“
میں نے جواب برائے جواب یوں دیا:
”میں کروں گا کیا تمہیں جیت کر، کہ سکون ہے مجھے مات میں“
(باقی آئندہ)

شیئر: