Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرسی پر نماز ، جواز و عدم جواز کی فقہی تحقیق

 بلاعذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، قیام ورکوع وسجدہ فرائض ہیں اور بلا عذر اِن میں سے کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوتی
مفتی محمدشعیب اللہ خاں ۔بنگلور
     آج کل مساجد میں کرسیوں کا رواج عام ہورہا ہے اورلوگ عذر سے یا بلاعذر کے کرسیوں کو نماز کے لیے استعمال کررہے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کرسی پر نماز پڑھنے کا رواج ابھی ابھی چند سالوں سے شروع ہوا ہے، اس سے پہلے بھی لوگ بیمار ہوتے تھے اور اعذار اُن کو بھی لاحق ہوتے تھے مگر کبھی لوگوں کو کرسی پر نماز کی نہیں سوجھی۔
          اکثر دیکھنے میں آیا ہے اور سنا بھی جاتا ہے کہ لوگ اچھے خاصے ہیں، چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے کی قوت پوری طرح رکھتے ہیںاور اپنے گھروں سے چل کر آتے ہیںمگر نماز کے وقت خود ہی کرسی کھینچ کر اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں تکاسل وتغافل ہے اور نماز کی اہمیت سے وہ بے خبر ہیں لہٰذا ان کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
          اور اس سے انکار نہیں کہ بعض اللہ کے بندے واقعی عذر اور شدید مجبوری میں کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا یہ عذر شرعی اور معقول ہوتا ہے، اور آج کل قویٰ کی کمزوریوں اور نئی نئی قسم کی بیماریوں نے اصحابِ اعذار کی بھی بہتات کردی ہے۔
          الغرض! ایک جانب دین سے غافل اورلاپرواہ لوگ ہیں جو بلاوجہ و بلا عذر محض تن آسانی ولاپرواہی سے اور غفلت وسستی کی بنا پر یا محض شوقیہ یا فاخرانہ طور پر نماز کے لیے کرسیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں، تو دوسری جانب ان حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر و خوف اور احکام الٰہی کی عظمت وجلالت موجود ہے اور وہ بھی کرسیوں کا استعمال کرتے ہیںمگر اس وجہ سے کہ وہ واقعی معذور ومجبور ہیں۔
          اس صورتحال میں علماء ومفتیان کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اس سلسلے میں صحیح وغلط اوراچھے وبرے کی تمیز بتائیں اور شریعت کی روشنی میں اُس کے احکام کو واضح کریں اور شریعت کے وصف امتیازی ’’اعتدال‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی قسم کے لوگوں کی بے اعتدالیوں پر تنبیہ کے ساتھ ساتھ واقعی عذر رکھنے والوں کے لیے شریعت کی عطا کردہ سہولتوں کو پیش کریں تاکہ اصحاب اعذار اِن سے منتفع ہوسکیں۔
          زیر نظر تحریر اسی مسئلے کی تحقیق کے لیے لکھی گئی ہے اور اس میں ہم نے اس کے دونوں پہلوؤں کو واضح کیا ہے تاکہ افراط و تفریط کی راہوں سے الگ اعتدال کے راستے پر قائم رہیں۔ واللہ اعلم۔
 

مکمل مضمون روشنی7ستمبر کے شمارے میں پڑھیں

 
 

شیئر: