Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’تاریخی تضحیک‘‘

***شہزاد اعظم***
ہمیں اپنی زندگی میں رہ رہ کر وہ واقعہ یاد آیا، ہم نے اسے لاکھ بھلانا چاہا لیکن دہ ہماری سوچوں پر حاوی رہا اور آج بھی ہے ۔ ہم اسے اپنی ماضی کی ’’ریکارڈ بک‘‘ سے کسی حرفِ غلط کی طرح مٹانا چاہتے ہیں مگر وہ ہے کہ نہ مٹتا ہے اور نہ سوچ سے ہٹتا ہے ۔کوئی بھی واقعہ اس قدر ہٹ دھرم اور ضدی کیونکر ہو سکتا ہے ، یہ جاننے کے لئے اس واقعے کو ایک مرتبہ پھر دہرانا ضروری ہے ۔
ہوا یوں کہ ہم کالج میں تھے۔ کالج ظاہر سی بات ہے کہ اسکول کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزاد فضائوں کا حامل ہوتا ہے ۔اسکول میں تو روزانہ بنیادوں پر ڈنڈے سے ہماری دھنائی ہوتی تھی مگر کالج میںہم پر ہاتھ اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ ہم خالصتاً مردانہ کالج میں زیر تعلیم تھے چنانچہ وہاں کی دیواریں ’’سریلی صدائوں‘‘ سے ناآشنا تھیں ۔ وہ کرخت مردانہ آوازیں سن سن کر سنگلاخ سی ہو گئی تھیں۔
ہمارے پروفیسر صاحب ہمیں اکثر و بیشتر یہ امر باور کراتے رہتے تھے کہ درسگاہ کوئی بھی ہو ، وہ ’’مادر علم‘‘ہوتی ہے اس لئے زندگی گزارنے کے اطوار سکھاتی ہے۔ اچھی درسگاہ وہ ہوتی ہے جہاں ایسے نوجوان پروان چڑھتے ہوں جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں مثالی خدمات انجام دینے کی صلاحیتوں سے معمور ہوںاور میں بصد افتخار یہ کہتا ہوں کہ آپ کا کالج مثالی درسگاہ ہے چنانچہ آپ کو ہر طرح کی تعلیم اور تربیت فراہم کی جائے گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اعلان کیا کہ میں آج ایک ’’بزم ادب‘‘ قائم کر رہا ہوںجس کے صدر، نائب صدر، جنرل سیکریٹری اور پروپیگنڈا سیکریٹری کے عہدوں کے لئے انتخابات ہوں گے۔ انہوں نے مذکورہ عہدوں کے لئے طلبہ سے کہا کہ وہ امیدوار نامزد کر لیں۔ ہوا یوں کہ سب نے صوتی ووٹوں سے 3 عہدوں پر تو انتخابات مکمل کر لئے البتہ صدر کے لئے معاملہ اٹک گیا۔ 250میں سے 100سے زائد طلبہ نے ہمیں صدر بنانے پر اصرار کیا اور اتنی ہی تعداد میں بخشو کو صدرکا عہدہ دینے کے لئے آواز اٹھائی گئی۔ یہ صورتحال دیکھ کر پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ صدر کے سواتمام عہدوں کے لئے بلا مقابلہ انتخاب ہو گیا ہے ۔ صدر کے عہدے کے لئے انتخابات ہوں گے۔ اس کے لئے میں دونوں امیدواروں سے کہوں گا کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور طلبہ کو ووٹ دینے پر آمادہ کریں۔ اس سے آپ کی سیاسی صلاحتیں اجاگر ہوں گی۔ ممکن ہے کہ کل کلاں کو آپ ہی ملک کے صدر یا وزیر ا عظم بن جائیں۔ اس کے لئے پہلے ہمیں دعوت خطاب دی گئی۔ ہم نے میز پر ہاتھ ٹکایا اوربولنا شروع کیاکہ ہم اگر صدر بن گئے تو ہر ہفتے باقاعدگی سے بزم ادب کا انعقاد کیا کریں گے۔ خاص موضوعات منتخب کئے جائیں گے اور ان پر تقریر کرنے یا مضمون لکھنے کی دعوت دی جائے گی۔ہم فیلڈ ٹرپ کے انتظامات بھی کریں گے تاکہ نہ صرف تفریح کا سامان مہیا ہو سکے بلکہ علم و آگہی میں بھی اضافہ ہو۔ ہم بیت بازی، ڈرامے اور دیگر ثقافتی سرگرمیوںپر بھی توجہ دیں گے۔ ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہم چندہ یا ڈونیشنزاکٹھے کریں گے اور مثبت روایات کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ 
ہمارا خطاب سن کر سب نے تالیاں بجائیں اور زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔ ہمارے بعد بخشو کو دعوت دی گئی۔ اس نے اپنی انتخابی تقریر میں نہ تو کسی قسم کا کوئی لائحہ عمل پیش کیا، نہ ہی تجاویز دیں البتہ ہماری ایسی لفظی دھنائی کرنی شروع کی کہ ہمیں اپنے اسکول کی نہایت غصیلی ، بد زبان اور ظالم مس ’’لوسی‘‘ یاد آگئی کیونکہ آج ہمیں برسوں کے بعد ان سے بھی کہیں زیادہ زہریلی تضحیک و تذلیل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ بخشو نے کہا کہ موصوف اس کالج کی میز کا سہارا لے کر انتہائی رعونت کے ساتھ خطاب فرمایا۔ ذرا سوچئے کہ اتنا ’’اکڑو‘‘ شخص ہماری بزم کا صدر کیسے ہو سکتا ہے جسے کھڑے رہنے کے لئے بھی’’پرائے سہارے‘‘ کی ضرورت پڑتی ہو۔ یہی نہیں بلکہ میرے معزز دوست فرما رہے تھے کہ ہم مطالعاتی دوروں کے لئے چندہ یا ڈونیشنز اکٹھے کریں گے۔ برادرانِ محترم! یہ شخص صدر کے عہدے پر براجمان ہونا تو دور کی بات ، صدر کہلانے کا بھی مستحق نہیں ۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ’’قومیں چندے سے نہیں چلا کرتیں‘‘اور نہ ہی خوددار قسم ’’پرائے سہارے‘‘ تلاش کرتی ہے۔مجھے تو آپ لوگوں پر بھی حیرت ہو رہی ہے کہ آپ نے موصوف کی تقریر سن کر ان کے حق میں نعرے دے مارے۔ 
بخشوکا ’’خطاب‘‘ سننے کے بعد ہمارے پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ بخشو نے انتہائی غیر معیاری اور بے کار باتیں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومیں چندے یا ڈونیشنز پر نہیں چلا کرتیں تواس کا ایک جواب برائے جواب تو یوں ہے کہ ’’ڈونیشنز‘‘ کے لفظ کو لیجئے تو یہ بھی دو لفظوں ’’ڈو‘‘ اور ’’نیشنز‘‘ کا مجموعہ لگتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہوا کہ ’’قومیں یہی کیا کرتی ہیں۔‘‘ دوسری بات یہ کہ سچ یہی ہے کہ قومیں اور ملک ہمیشہ ’’چندے‘‘ یا ’’ڈونیشنز ‘‘ پر ہی چلا کرتے ہیں۔ حکومت کو کاروبارِ مملکت چلانے کے لئے جب پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ عوام سے چندہ مانگتی ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ اس ’’چندے‘‘ کو چندہ نہیں کہتی بلکہ ’’ٹیکس‘‘ کا نام دیتی ہے۔یہی نہیں بلکہ عوام اگر ٹیکس دینے سے دامن بچانے کے لئے ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے کنی کترانے لگیں یا کسی رشوت خور انکم ٹیکس انسپکٹر سے ساز باز کر کے ٹیکس بچانے کی کوشش کرنے لگیںتو حکومت یوٹیلٹی بلز پر سرچارج کے نام سے مرضی کے ٹیکس تھوپ دیتی ہے اور اسے ’’جبری چندہ‘‘کہا جائے تو شاید غیر درست نہیں ہوگا۔حقیقت کی آنکھ سے دیکھاجائے توٹیکس اور چندے میں واضح فرق یہ ہے کہ ٹیکس جبراً وصول کیاجاتا ہے اور چندہ یا ڈونیشن اپنی مرضی سے دیاجاتا ہے ۔
بہر حال ہم نے اُس روز تہیہ کر لیا کہ سیاست سے ساری زندگی دور رہنا ہے چنانچہ ہم نے اپنا ووٹ بھی بخشو کو دے کر اسے جتوا دیا۔ آج عرصہ ہائے دراز بعد ہمیں کالج کے دور کی ’’تاریخی تضحیک‘‘ اور اپنے پروفیسر صاحب کی اس لئے یاد آئی کیونکہ چند روز قبل سابق حکومت کے ایک وزیر ، عمرانی حکومت کی جانب سے ڈیم کے لئے عوام سے چندہ مانگنے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ملک چندوں سے نہیں چلا کرتے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور تجزیوں کے لئے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں
 

شیئر: