Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)

***احمد آزاد۔ فیصل آباد***
پاکستان کی اپنی ایک جغرافیائی اہمیت ہے جو اسے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے ۔امریکہ ، برطانیہ ،روس اور چین سمیت دیگر بڑے بڑے اور اہم ممالک کی نظریں ہمہ وقت پاکستان پر رہتی ہیں ۔اگر یوں کہا جائے کہ ان تمام ممالک نے پاکستان کے متعلق خصوصی ڈیسک بنائے ہوئے ہیں جو پاکستان کے متعلق اہم معلومات و خبریں اپنے حکام تک پہنچاتے ہیں تو شاید غلط نہ ہو ۔پاکستان کے ہمسائے افغانستان میں جس طرح پہلے روس اور اب امریکہ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی جنگ جیتنے کی سعی لاحاصل کررہا ہے وہ پاکستان کی اہمیت کو دوچند کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کو ماضی قریب و بعید میں اک بڑی قیمت چکانی پڑی ہے ۔چین جیسی بڑی ریاست کی ہمسائیگی میں موجود ہونے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہونے کی بناء پر پاکستان چین مخالف لابی کی آنکھوں میں کھٹکنے والا ملک بن جاتا ہے ۔ہندوستان اور پاکستان شاید دنیا میں واحد ملک ہوں جو زمانۂ امن میں بھی حالت جنگ کی کیفیت میں رہتے ہیں ۔تقسیم برصغیر کے وقت ہونے والی ناانصافیوں نے دونوں ملکوں کو جنگ کی بھٹی میں دھکیل رکھا ہے اور اس ساری جنگی کیفیت کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کیے بغیر دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا ممکن نہیں ۔چین دنیا کی بڑی اور ابھرتی ہوئی معیشت کا حامل ملک ہے ۔یہ واحد ملک ہے جسے وقتاًفوقتاً اپنی ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے تاکہ معاشرتی ڈھانچہ تباہ نہ ہوجائے ۔پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات اتنے ہی پرانے ہیں جتنے عوامی جمہوریہ چین کو آزاد ہوئے عرصہ ہوا ہے ۔ماوزے تنگ کی طرف سے تھیان من کے مرکزی چبوترے پرکھڑے ہوکر ’’عوامی جمہوریہ چین ‘‘ کے قیام کے اعلان کے بعد تسلیم کرنے والا پہلا ملک پاکستان تھا ۔21مئی 1951ء میں پاکستان اور چین کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو آج بھی کتنے ہی ادوار بیت جانے کے بعد قائم و دائم ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پختگی آتی جارہی ہے ۔کتنے ہی نازک ادوار میں چین نے اپنے دوست ہونے کا حق اداکرتے ہوئے پاکستان کو سنبھالادیا اور اب بھی اپنی نوعیت کا اک بڑا اور تاریخی منصوبہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔
سی پیک(چین، پاکستان اکنامک کوریڈور)میں چین کی طرف سے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی جارہی ہے جو کہ 46ارب ڈالر ہے ۔یہ منصوبہ اک طرح سے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کہ طاقتوں کا توازن پاکستان اور چین کی جھولی میں ہوگا۔اس وقت جنگیں معاشی لحاظ سے لڑی جارہی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا جس کی معیشت مضبوط ہوگی ۔سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے ۔سی پیک میں ہمارے مفادات سے زیادہ چین کے مفادات شامل ہیں۔سی پیک کی تعمیر کے بغیر چین دنیا میں سپر پاور اور معاشی کنگ نہیں بن سکتا۔ہمارے اپنے مفادات بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ چین عرب ممالک سے روزانہ کی بنیاد پر 60 لاکھ بیرل تیل منگواتا ہے جس کا سفر 12ہزارکلو میٹرکے قریب بنتا ہے۔ جنوبی چین سمندر پر چین کیلئے بے پناہ مسائل ہیں ۔سمندری سپلا ئی لائن پر تبت،تھائی لینڈ،جاپان،کوریا،کچھ جزیرے ہیںجن کے ساتھ چین کے حالات بہتر نہیں ۔ یہ ممالک کسی بھی وقت یہ لائن کسی سازش کے تحت کاٹ دیں تو چین کی معیشت برباد ہوسکتی تھی۔ اس کا متبادل بہترین حل سی پیک کی صورت میں چین کوملا۔ جو بنیادی طور پر اس کے دوست ملک پاکستان سے جُڑا ہوا ہے ۔ سی پیک سے چین کو اپنی ضرورت کے لیے تیل گوادر کے راستے 3 ہزارکلومیٹر کے فاصلے اور محفوظ ترین راستے سے کم ترین وقت میں دستیاب ہوگا۔ چین کی مصنوعات وسطی ایشیا، افریقہ، یورپی یونین ،ترکی،روس،تاجکستان، ازبکستان اورعرب ممالک تک کم سے کم وقت وکم ترین اخراجات میں پہنچ سکتی ہیں ۔چین سے ان ممالک کی درآمدات و برآمدات سے پاکستان کو حاصل ہونے والی راہداری وصولی سے اس کی معیشت کا معیا ر دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے برابر ہو جائے گا۔او ر اس ’’سی پیک‘‘ سے جو دوسرے فائدے ہوں گے وہ الگ سے ہوں گے ۔
سی پیک کی اہمیت کے پیش نظر اس کے خلاف پہلے دن سے مختلف افواہوں اور پروپیگنڈہ کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ابھی حال ہی میں وزیراعظم کے مشیربرائے تجارت،ٹیکسٹائل ،صنعت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کے حوالے سے فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں اعتراضات کا انبار لگایا ہوا تھا جس کی تردید وزیراعظم کے مشیر نے کردی ہے ۔چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کو مسترد کردیا گیا ہے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چینی سفیر سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک پاکستان کا اقتصادی مستقبل ہے اس کی حفاظت پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔سی پیک دنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جسکی ابتدائی مالیت46 ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر 62 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ 
حال ہی میں پاکستان میں چینی سفارتخانے نے اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای ) اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ(پی ایف سی) کے زیر اہتمام ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔اس سیمینار کے مہمانانِ اعزاز میںنگران وفاقی وزیر اطلاعات بیرسٹر سید علی ظفر، سی پی این ای کے صدر عارف نظامی، سابق گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین ، دفاعی تجزیہ نگار اکرام سہگل، پاکستان میں چین کے قائم مقام سفیر لی جیان زو اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک محمد سلمان تھے۔ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے ’’مقررین نے سی پیک کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے پھیلائی جانے والی مختلف افواہوںاور پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے گیم چینجر قرار دیااور کہاکہ سی پیک کے تحت پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔32 منصوبے اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹ شامل ہیں جبکہ 20 ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگا واٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔چینی سفیر نے معیشت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ پاکستان کا آج جو جی ڈی پی ہے وہ آج سے40 سال قبل چین کا تھا۔ چین اقتصادی لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس موقع پر چین کے سفیر نے سی پیک کے تحت اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چلانے کے عزم کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ میرا خواب ہے کہ ایک دن میں اسلام آبادسے کراچی بلٹ ٹرین پر سفر کروں۔ صبح کا ناشتہ اسلام آباد اور دوپہر کا کھانا کراچی میں کھائوں۔ اسی طرح ایک سوال پر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا موازنہ چائینز کمپنیوں کے ساتھ نہ کیا جائے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر قبضہ نہیں کیابلکہ چین تجارت کرتا ہے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو ترجیح دیتا ہے۔‘‘ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس معاملے میں سنجیدگی اختیار کرے اور اپنے مشیران و وزراء کو اس حساس معاملے پر بیان بازی سے باز رکھے ۔اس طرح کے بڑے منصوبوں کے لیے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ناکہ ہر کوئی اٹھ کر اس معاملے پر بات شروع کردے ۔اگر حکومت وقت چاہتی بھی ہے کہ ماضی میں گزری حکومت کے منصوبوں پر نظرثانی کرے اور سی پیک سے جڑے ہوئے منصوبوں کے حوالے سے چین سے بات چیت کرے تو اس حوالے سے چین کے ساتھ محتاط طریقے سے بات چیت کرے اور چین کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے قومی مفادات کو سی پیک منصوبوں میں شامل کرے ناکہ بے جا افواہوں کو اڑا کر جگری دوست کو شکوک وشبہات میں مبتلا کردیا جائے ۔
 
 

شیئر: