Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الاھواز حملے کو نیا رخ دینے کا چکر

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایرانی حکومت چند روز قبل الاھواز میں مسلح حملے کو قومی مسئلہ قرار دینے اور اسے ایرانی قوم کے وقار کو مجروح کرنے کی علامت بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ ایرانی حکومت چاہتی ہے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا کر تمام عوام کو اپنے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے طور پر استعمال کرلے۔ ایرانی حکومت کو الاھواز شہر میں واحد مسلح آپریشن کے حوالے سے کچھ اورمقاصد حاصل کرنا ہیں۔ یہ واقعہ دہشتگردی کا ہے۔ ہمارا علاقہ دہشتگردی کے واقعات سے اٹا ہوا ہے۔ مصر کے صحرائے سینا، اردن، عراق، سعودی عرب اور تیونس وغیرہ میں دہشتگردی پر دہشتگردی ہوئی چلی جارہی ہے۔ ایرانی حکمرانوں کو اس سے بڑے خطرے کی بو آرہی ہے۔ کئی ماہ سے ایران کی اقتصادی ناکہ بندی ایرانی حکمرانوں کیلئے سب سے بڑا درد سر بنی ہوئی ہے۔ تیل کے سودوں پر پابندی اور ڈالر کے استعمال کی ممانعت کے بعد حکومت ایران زیادہ دکھ میں مبتلا ہوگئی۔ ایرانی حکمراں اپنے عوام کو اپنے خلاف جانے سے روکنے کیلئے مختلف حیلے بہانے اور ترکیبیں لڑا رہے ہیں۔ ایران کے اقتصادی بائیکاٹ سے ایرانی عوام اپنے حکمرانوں کے مدمقابل آئیں گے۔ امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ماضی میں جو اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا تھا اور اس موقع پر ایرانی عوام نے اپنی حکومت کا ساتھ دیا تھا ،اب ایسا نہیں ہوگا۔ صورتحال مختلف ہے۔ایرانی حکمراں اُسو قت اپنے عوام کو کسی حد تک یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ ایران کا اقتصادی بائیکاٹ اسے کمزور کرنے کی سازش ہے۔ اس مرتبہ اقتصادی ناکہ بندی 2بڑی عوامی تحریکوں کے بعد ہورہی ہے۔ ایرانی عوام 2009ءکے دوران ”سبز تحریک “ کے عنوان سے بڑے شہرو ںمیں احتجاج کرتے ہوئے نکلے تھے۔ انہوں نے انتخابات میں جعلسازی کےخلاف مظاہرے کئے تھے۔ گزشتہ سال ایرا نی عوام دوبارہ ایرانی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شہروں اور متاثرہ قصبوں ودیہاتوں کی سڑکوں پر نکل آئے۔ 
حسن روحانی کی حکومت نے چیخنا چلانا شروع کردیا ہے کہ اھوااز پر حملہ اسرائیل،امریکہ اور خلیجی ممالک کا منظم حملہ ہے۔ یہ ممالک ایران کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ ایرانی حکمرانوں کے یہ دعوے من گھڑت ہیں۔ اس قسم کے حملے سے ایرانی نظام متزلزل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی حکمراں سیاسی پروپیگنڈہ کرکے 80ملین ایرانیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں یہ کہہ کر دھمکا رہے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا ہدف ہیں۔ ایرانی حکمراں اس سے قبل رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا تجربہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے تقریباً5برس قبل شام میں وسیع مداخلت کے آغاز میں اس قسم کی حرکت کی تھی۔ انہوں نے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے یہ ڈھونگ رچا تھا کہ ایران شام میں شیعہ زیارت گاہوں اور مقبروں کی حفاظت کیلئے فوج بھیج رہا ہے اور شامی نظام کا دفاع ایران کے امن و استحکام کے دفاع جیسا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شام میں مداخلت نہ کی گئی تو دہشتگرد تنظیم داعش ایران میں گھس آئےگی۔ اگر عراق، شام، لبنان اور غزہ میں داعش کو لگام نہ لگائی گئی تو وہ ایران کا رخ کریگی۔ نتیجہ کیا ہوا ؟مذکورہ علاقوں میں ایرانی مداخلت بڑھتی چلی گئی۔ بیرون ملک سیاسی نظام کے دفاع پر مجبور کئے جانے والے ایرانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ پاگل جنگ ایرانی حکومت سے اربوں ڈالر خرچ کرا بیٹھی۔ ایسے عالم میں یہ خطیر رقم خرچ کی گئی جب ایران خطرناک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ رفتہ رفتہ ایرانوں پر حقیقت منشکف ہوئی تو وہ حکمرانوں کےخلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایرانی مظاہرین نے خارجی جنگوںمیں شرکت پر احتجا ج کیا۔ انہوں نے حزب اللہ ، بشار الاسد اور حماس پر دولت کاضیاع بند کرنےکا مطالبہ کیا۔ جہاں تک اھواز کے حملے کا تعلق ہے تو یہ ایرانی حکمرانوں کیلئے غیر متوقع نہیں تھا۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی سفیر نے اس پر جو تبصرہ کیا وہ حقیقت کا غماز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکمرانوں کو اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ لینا چاہئے۔ انکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تشدد، تشدد کو جنم دیتا ہے۔ ایرانی حکمراں ہی بحرین ، یمن ، عراق، شام ، لبنان اور غزہ وغیرہ میں دہشتگردوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ وہی تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اب یہ چال ان پر الٹ گئی۔ اگر ایرانی حکومت تشدد کی بیخ کنی کے سلسلے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ مذکورہ ممالک میں تشدد پسند جماعتوں کی سرپرستی سے دستبردارہوچکی ہوتی۔ القاعدہ جیسی تنظیموں کے مطلوبین کو حوالے کرنے سے انکار نہ کرتی۔ خالد اسلام بولی جیسے دہشتگرد کا جشن نہ مناتی۔ الخبر ٹاورز میں دھماکہ کرنے والوں کا اعزاز نہ کرتی۔ انہیں ایران میں رہائش کی سہولت نہ دیتی ۔جب تک ایران دوسروں پر لعنت ملامت کے حوالے سے تشہیری مہم چلاتا رہیگا ،تب تک ایران کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہیگا۔ خطے میں عسکری مہم جوئی،انتہا پسند تنظیموں کی حمایت اور پڑوسی ممالک میں مداخلت کے حوالے سے ہٹ دھرمی سے ایران کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: