Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیدنا یوسف علیہ السلام کے 3 خواب

برے خواب کی تعبیر جس میں شر ہوتا ہے جلدہی ظاہر ہوجاتی ہے اور اچھے خواب کی تعبیر کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں خیر ہوتا ہے اور دیر پا ہوتا ہے
 
* * *سید لطف اللہ قادری فلاحی۔بہار* * *
    سورۂ یوسف مکی سورۂ ہے۔ قرآن مجید کی بارہویں سورہ ہے۔ اس میں111 آیات اور12رکوع ہیں۔ یہ قرآن مجید کے بارہویں اورتیرہویں پارے میں ہے۔ اس سورہ کا نام یوسف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں سید نا یوسف علیہ السلام کے واقعات اورحالاتِ زندگی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
    سیدنا یوسف علیہ السلام کی جائے پیدائش اورجائے سکونت فلسطین میں حِبرون تھی، جس کا دوسرا نام الخلیل ہے اور یہ شہر دنیا کا قدیم ترین شہر ہے اورآج بھی فلسطین میں آباد شہر ہے اورمسلمانوں کی اکثریت کا شہر ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بعد کو کسی وقت اپنے خاندان کوالخلیل سے کنعان لے کر آئے تھے اوریہیں آباد ہوئے۔
    حضرت یوسف علیہ السلام30سال کی عمر میں ملک مصر کے فرما ں روا بنے اور80سال تک بلا شرکت غیرے پورے مصر پر حکومت کرتے رہے۔ حکمراں بننے سے پہلے9,8سال قید خانہ میں رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یادسویں سال حضرت یعقوب علیہ السلام کوپورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلالیا۔110سال کی عمر میں وفات پائی۔وصیت کے مطابق انہیں فلسطین میں نابْلس کے مقام پر دفن کیا گیا۔ نابْلس جس کو پہلے سکّم کہتے تھے،بیت المقدس سے30میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس کے 2، ڈیڑھ میل کے فاصلے پر وہ کنواں ہے جس میں بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کوڈالا تھا اوراس کے قریب ایک احاطہ بنا ہوا ہے جس میں حضرت یوسف  اورحضرت یعقوب علیہم السلام کی قبریں ہیں۔
    نبی اکرم نے سید نا یوسف علیہ السلام کی شان میں فرمایا تھا : الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف علیہ السلام بن یعقوب بن اِسحٰق بن ابراہیم۔ حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اِسحق علیہ السلا م کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ نبوت ورسالت کی سلسلۃِ الذہب (سونے کی زنجیر ) کتنا اعلیٰ واشرف تھا یہ خاندانِ نبوت۔
    سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب:
    ارشادِ ربانی ہے:
    ’’ ہم آپ کے سامنے بہترین قصہ بیان کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اوریقیناآپ اس سے پہلے بے خبروں میں تھے۔ یاد کرو جب یوسف( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا:اباّ جان !میں نے خواب دیکھاہے کہ11 ستارے ہیں اور سورج اورچاند ہیں ، میں نے انہیں اپنے آگے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ باپ نے کہا : اے میرے پیارے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کونہ سنانا ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی چال چلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔ اوراِسی طرح تیرا رب تجھے منتخب کرے گا اورتجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائیگا اورتیرے اوپر اور آلِ یعقوب پراپنی نعمت اِسی طرح پوری کرے گاجس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ابراہیم اوراِسحق پر کرچکا ہے۔ یقیناتیرا رب علم والا اورحکمت والا ہے۔‘‘ (یوسف6-3)۔
    چند اہم پہلو:
    «  پہلا سوال:
    حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کب دیکھا؟ امام رازی رحمہ اللہ علیہ (604-544ھ)  فرماتے ہیںکہ انہوں نے یہ خواب بچپن میں دیکھا۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا جب ان کی عمر 7 سال تھی۔ ’’خواب یہ تھا کہ 11بڑی لاٹھیاں دائرہ کی شکل میں زمین میں جمی ہوئی ہیں پھر ایک چھوٹی لاٹھی ہے جو11 بڑی لاٹھیوں کونگل جاتی ہے ‘‘۔ انہوں نے اس خواب کا ذکر اپنے والد حضرت یعقوب ؑ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔
    پھر اس خواب کے بعد جب ان کی عمر 12 سال کی تھی تو خواب دیکھا کہ سورج، چاند اور 11ستارے ان کوسجدہ کررہے ہیں۔ انہوںنے اس خواب کا ذکر بھی سب سے پہلے اپنے والد سے کیا ، تب بھی والد نے ان سے کہا کہ اس کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش رچنے لگیں۔
     کہا جاتاہے کہ یوسف علیہ السلام  کے اس خواب کے درمیان اوران کے بھائیوں کے انجام کے درمیان کی مدت 40 سال  یا یہ بھی کہا گیا کہ80 سال تھی۔ حکماء اور دانش وروں کا قول ہے کہ برے خواب کی تعبیر جس میں شر ہوتا ہے جلدہی ظاہر ہوجاتی ہے اور اچھے خواب کی تعبیر کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں خیر ہوتا ہے او ردیر پا ہوتا ہے۔
    «  دوسرا سوال:
    وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب سب سے پہلے اپنے والد سے ہی کیوں بیان کیا ؟
    در اصل حضرت یوسف علیہ السلام بچپن ہی سے سلیم الطبع، نہایت سعادت مند اور فرما ں بردار تھے۔ اس میں ان کی سعادت مندی، نیک نیتی اورسلیم الطبعی جھلک رہی ہے کہ سب سے پہلے اس خواب کا ذکر انہوںنے اپنے والد محترم سے کیا۔ اس طرح کا خواب کوئی اوچھی طبیعت کا آدمی دیکھتا تو سب سے پہلے اپنی بڑائی کا ڈھول دوسروں میں پیٹتا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا تو انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ خواب ، خوابِ پریشان کی نوعیت کا نہیں بلکہ اہمیت رکھنے والا خواب ہے۔اس وجہ سے انہوںنے اس کو سب سے پہلے اپنے والد صاحب کے سامنے پیش کیا جن پر ہر پہلو سے ان کوسب سے زیادہ اعتماد تھا۔
    « تیسرا سوال:
    11ستاروں اورسورج اورچاند سے کون مراد ہیں؟ 11 ستاروں سے مراد، حضرت یوسف علیہ السلام کے11سوتیلے بھائی ہیں اور سورج وچاندسے مراد، ان کے والد ین ہیں۔
     علامہ زمخشری نے حضرت یوسف علیہ السلام کے 11بھائیوں کے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہیں:پھودا، روبیل، شمعون، لاوی، ربالون،یشجر، دینہ، دان ، نفتالی ، جاد، آشر۔ ان میں 7 حضرت یعقوب ؑ کی بیوی ’’ لیا‘‘ سےہیں اور آخری 4 ’’ زلفہ‘‘ اور بلہہ ‘‘ سے ہیں۔ جب ’ ’لیا ‘‘ جوکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی خالہ زاد بہن بھی تھیں، کا انتقال ہوگیا تو پھر انہوں نے ان کی بہن ’’راحیل‘‘ سے نکاح کرلیا جن سے حضرت یوسف علیہ السلام اوربن یامین پیدا ہوئے۔
    «  چوتھا سوال :
    وہ 11ستارے کون تھے؟ آسمان پر ستارے تو بے شمار ہیں، ان میں سے وہ خاص 11کون سے ستارے تھے جوسجدہ ریز ہوئے۔ صاحب کشاف علامہ زمخشری رحمہ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی رسول اللہ کے پاس آیا اورپوچھا کہ اے محمد! اُن ستاروں کے بارے میں بتاؤ جن کویوسف علیہ السلام نے دیکھا تھا۔ رسول اللہ خاموش رہے، اِسی اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اورآپ کوان ستاروں کے نام بتائے۔ آپ نے یہودی سے فرمایا: اگر میں بتادوں توکیاتُو مسلمان ہوجائیگا؟اس نے کہا ’’ جی ہاں‘‘۔ آپ نے ستاروں کے نام بتائے جومندرجہ ذیل ہیں:
    جربان، الطارق، الذیال ، قابس، عمودان، الفلیق، المصبح، الضروح ، الفرغ، وثاب، ذوالکنیفین۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کودیکھا اورسورج وچاند کودیکھا جوآسمان سے اترے اور ان کوسجدہ کیا۔ یہودی نے کہا:بخدا یہی ان کے نام ہیں۔
    امام رازی رحمہ اللہ علیہ اس کوتحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جان لو، ان میں سے زیادہ تر نام تصنیف شدہ کتابوں میں مذکور نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی حقیقتِ حال سے زیادہ واقف ہے۔
    «  پانچواں سوال:
    یہ ہے کہ سورج اورچاند کا ذکر ستاروں کے بعدکیوں آیا؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ سورج اورچاند کوستاروں پر افضیلت حاصل ہے اس لیے ان کے شرف اور بلند مقام کوخاص طور پر ذکر کرنے کیلئے بعد میں ذکر کیا ، جیسے سورۂ بقرہ آیت 98میں ہے:
    ’’ جو اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کے رسولوں اور جبریل اورمیکائل کے دشمن ہیں اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔‘‘
    یہاں پر عام فرشتوں کا ذکر کرنے کے بعد جبریل ومیکائیل علیہم السلام کا ذکر خاص طور پر ان کی اہمیت کے سبب سے ہے۔
    «  چھٹا سوال:
     یہ ہے کہ اس(سورہ یوسف) آیت کریمہ میں ’’رَاَ یْتُ‘‘ کی2مرتبہ تکرار کیوں ہے؟ قفال رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ’’ پہلی ’’رَاَ یْتُ‘‘  تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوںنے ستاروں اورچاند اورسورج کودیکھا اور دوسری  ’’رَاَ یْتُ‘‘  اُس بات پر شاہد ہے کہ ان کوا ن کے آگے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔
    حضرت یوسف  ؑنے جس وقت یہ خواب دیکھا اُسوقت ان کی عمر 12سال تھی اور یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ وہ نہایت سنجیدہ اوربا ادب لڑکے تھے۔ آیت میں ’’رَاَ یْتُ‘‘  کی تکرار کا ایک نکتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوںنے اپنے والد ماجد سے کہا :میں نے خواب میں11ستاروں اورسورج و چاند کودیکھا ، یہ کہہ کر تھوڑا انہوں نے توقف کیا کیونکہ آگے جوبات وہ کہنے جارہے تھے وہ والد ماجد کے مقام ومرتبہ سے اعلیٰ بات تھی۔ غالباً بے ادبی کا خیال آیا ہواس لیے تھوڑی دیر رکے پھر کہا کہ میں نے انہیں اپنے آگے جھکے ہوئے دیکھاہے۔
    «  ساتواں سوال:
    یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر یہ کیوں فرمایا کہ اپنے بھائیوں سے اِسے بیان نہ کرنا ؟
     ایسا انہوں نے اس لیے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی، حضرت یوسف علیہ السلام سے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بے پناہ لگاؤ اور محبت سے جلتے تھے۔
    حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر ہی اندازہ لگالیا تھا کہ اس میں منصبِ نبوت پر فائز ہونے کا اِشارہ ہے اس لیے انہوںنے سب سے پہلے ان کومنع فرمادیا کہ یہ خواب اپنے سوتیلے بھائیوں سے بیان نہ کردینا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سو چا ہوگا کہ اِن کے بھائی تو ان کے دشمن ہیں ہی، خواب سن کر مزید حسد کی آگ میں جل بھن کر ان کے خلاف کوئی سازش کر بیٹھیں اور شیطان تو انسان کا کھلادشمن ہے ہی ، وہ انہیں غلط راستے پر ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
    «  آٹھواں سوال:
    یہاں پر ایک سوال ا ور ابھرتا ہے کہ بھائیوں سے خواب کوبیان کرنے سے کیوں روکا؟ کیا ان کے بھائی خواب کی تعبیر کا علم رکھتے تھے کہ خواب سنتے ہی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے۔
    حضرت یعقوب علیہ السلام نے منع اِسی لیے فرمایا کہ ان کے سوتیلے بیٹوں کویا ان میںسے کسی کو تعبیرِ خواب کا علم ہوگا۔ اہلِ تحقیق کا قول ہے کہ انہیں تعبیرِ خواب کا علم تھا۔ اگر انہیں علم نہیں تھا تو پھر حسد ، جلن اورغصہ میں اضافہ کی کوئی وجہ اس خواب کوسن کر نہ ہوتی (امام رازی تفسیر سورۂ یوسف علیہ السلام)۔
    منصبِ  نبوت:
    حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خبردی کہ تمہارا رب تمہیں نبوت کے لیے منتخب فرمائیگا۔ یہ خواب ایک شان دار مستقبل کی پیشین گوئی کررہاہے۔ اِسی کے ساتھ ساتھ وہ تمہیں تاویلِ احادیث کا علم دے گا یعنی خوابوں کی تعبیرکا علم دے گا۔ یہی علم ِ تعبیر ان کے لیے مصر کی بادشاہی اورجیل سے رہائی کاذریعہ بن گیا۔تاویل احادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ اس میں آسمانی کتابوں اورانبیائے متقدمین کے حالات کا علم بھی شامل ہے، واقعات وحادثات کے نتائج اور انجام کا بھی علم ہے، نیز اس میں معاملہ فہمی اور حقیقت کا علم بھی ہے۔اللہ تعالیٰ تمہیں نبوت دے کر تم پر اورآلِ یعقوب پر اپنی نعمت اس طرح پوری کرے گا جس طرح تمہارے دادا ، پردادا حضرت ابراہیم اورحضرت اسحاق علیہم السلام کونبوت دے کر پوری کی تھی۔
    «  ایک اور سوال:
    حضرت یعقو ب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جو بشارتیں سنائیں، کیا ان کواس کا علم قطعی تھا۔ اگران کے صحیح ہونیکا انہیں قطعی علم تھا تو پھر حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی پر غمگین کیوں ہوئے؟ کیسے انہیں شبہ ہوا کہ بھیڑیا انہیں کھا جائے گا اوران کے بھائی ان سے غفلت برتیں گے اس علم کیساتھ کہ اللہ تعالیٰ انہیں منتخب کرکے رسول بنائیگا؟
     امام رازی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر’’ کبیر‘‘ میں اس آیت کے ضمن میں اس کا جواب دیا ہے کہ ’’تمہارا رب تجھے منتخب کرے گا ‘‘ میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ بھائی سازشیں نہیں کریں گے کیونکہ اس سے پہلے ہی وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چالیں چلیں گے۔ دوسری بات یہ کہ انہیں اس کا قطعی علم تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ان مناصب عالیہ تک ضرور پہنچیں گے مگر ان کا یہ قطعی علم اس بات سے نہیں روکتا کہ انہیں اس راہ میں مشکلات در پیش نہیں آئیں گی، مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا اوروہ ان مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکل جائیں گے اور پھروہ مناصب عالیہ تک پہنچیں گے۔ اسی وجہ سے انہیں وہ خوف تھا جوایک باپ کو اپنے محبوب بیٹے کی پریشانیوں سے ہوتا ہے۔
    خواب کی  تعبیر:
    قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کوبیان کرکے اْس کی تعبیر کی تکمیل بھی بتادی کہ وہ کیسے پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ یوسف میں فرمایا :
    ’’ پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تھے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اوراپنے سارے کنبے والوں سے کہا : مصر میں داخل ہوجاؤ، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہوگے ،(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کواپنے پاس تخت پر بٹھایا اورسب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں گرپڑے، تب(یوسف علیہ السلام) نے کہا :اے میرے پیارے اباجان ! یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا ، میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا۔ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کوصحراء سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان نے مجھ میں اورمیرے بھائیوں میں رنجش پیدا کردی تھی۔ بیشک میرا رب  جو چاہے اس کیلئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے، بے شک وہ بہتر علم رکھنے والا حکمت والا ہے۔ اے میرے رب ! تونے مجھے حکومت بخشی اورخواب کی تعبیر دینے کا علم بھی سکھایا ، زمین وآسمان کے بنانے والے! تو ہی دنیا اورآخرت میں  میرا سرپرست ہے ، میرا خاتمہ اسلام پر کر اورانجام کار مجھے نیکوں کیساتھ ملا۔‘‘
 
(جاری ہے)                                                                                                                                    
 
مزید پڑھیں:- - - -  --محرم الحرام ، تاریخ کے آئینے میں

شیئر: