Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایثار و قربانی ، اچھے مسلمان کی صفت

 فقر و فاقہ اور بخیلی میں زمین وآسمان کا فرق ہے کسی بھی شخص کا مفلس یا قلاش ہونا کوئی جرم نہیں، جرم دراصل بخیل ہونا ہے
 
* *  * عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* *  *

مسلمانوں کی تاریخ ایثار و قربانی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جب میں اپنی روشن روشن اور سنہری تاریخ کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی قسمت پر ناز بھی آتا ہے کہ میں ایک ایسے مذہب کو ماننے والا ہوں جس نے اخلاقیات کے حوالے سے بڑی عمدہ تعلیمات دی ہیں اور اس کے ماننے والوں نے نہایت روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے قائد، اپنے رہبر و رہنما اور سرور کائنات سے بہت کچھ سیکھا اور اسے اپنی عملی زندگی میں بھی اپنایا۔
     قارئین کرام! آج کے اس کالم میں ایثار و قربانی کے حوالے سے چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ مسجد نبویؐ میں شام کے وقت ایک مسافر آتا ہے ۔ مہمان کو بھوک لگی ہوئی ہے، اسے اپنی بھوک مٹانی ہے۔ جانتے ہیں یہ کس کا مہمان ہے؟ یہ اللہ کے رسولکا مہمان ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ اللہ کے رسولسب سے بڑے مہمان نواز تھے۔
    آپنے اپنی ایک اہلیہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ ایک مہمان آیا ہے، اس کو کھانا کھلانا ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہے؟ جواب میں ہماری اماں جان نے کہلوا بھیجا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ۔ قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے ذرا سوچئے ، غور کیجیے کہ یہ بیت نبوی ہے، مگر گھر میں سوائے پانی کے کچھ نہیں۔ اماں عائشہ صدیقہؓسے ایک حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ ہمارے گھر میں بعض اوقات کئی ماہ گزر جاتے، مگر چولہا جلنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ سوال کرنے والے نے پوچھ لیا: اماں جان! پھر آپ کا گزارا کس چیز پر ہوتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا:بیٹا! ہمارا گزارا پانی اور کھجور پر ہوتا تھا ۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ اُس روز بیت نبوت میں کھجوریں بھی نہیں تھیں۔ اللہ کے رسول نے صحابہ کرام کو شفقت بھری نگاہوں سے دیکھااور سوال کیا:آج تم میں سے کون میرے مہمان کی مہمان نوازی کرے گا؟ صحابہ کرام میں سے ایک صحابی سیدنا ابو طلحہ انصاری ؓکہتے ہیں: اللہ کے رسول! آپ کے اس مہمان کی میزبانی میںکروں گا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں۔ سیدناابو طلحہ انصاریؓ مدینہ کے بڑے مشہور اور امیر لوگوں میں سے تھے۔ ان کا گھر مسجد نبویؐ سے ملا ہوا تھا بلکہ اب تو وہ مسجد نبوی ؐکا حصہ بن چکا ہے۔ ان کی اہلیہ سیدہ ام سلیمؓ  بھی بڑی عظیم صحابیہ تھیں۔ گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ رات کا وقت تھا، اندھیرا پھیل چکا تھا،سیدنا ابوطلحہ نے مہمان کو ساتھ لیااور اپنے گھر آ گئے۔ مہمان کو مہمان خانہ میں بٹھایا، اپنی اہلیہ سے کہا: یہ اللہ کے رسولکا مہمان ہے ،اس کی عزت کرنی ہے۔
     مہمان کی عزت کیا ہے؟ یہی کہ اس کی تکریم کی جائے، اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے۔ اس کا مسکرا کر استقبال کیا جائے۔ اللہ کے رسولکی مشہور حدیث ہے:
    مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ۔
    ’’جو شخص اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘
    سیدناابو طلحہ اپنی اہلیہ سے پوچھ رہے ہیں:اس وقت گھر میں کھانے کے لیے کیا کچھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا : گھر میں سوائے بچوں کی خوراک کے اور کچھ نہیں۔ قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو طلحہؓ بڑے امیر آدمی تھے۔ ان کا کھجوروں کا باغ تھا، مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بعض اوقات امیر لوگوں کے ہاں بھی کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو جاتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی آپس میں مشورہ کر رہے ہیں کہ کھانا تو ایک فرد کا ہے۔ بچوں کو کیا کھلایا جائے؟
    سیدناابو طلحہؓ  سیدہ ام سلیم ؓسے کہتے ہیں: ایسا کرو کہ کھانا تیار کرو، بچوں کو بھوکا سلا دو۔ جب مہمان کھانے کے لیے بیٹھ جائے تو چراغ کو بجھا دینا۔
    حضراتِ ام سلیم اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم ایثارو قربانی کی ایک نئی داستان رقم کرنے جارہے ہیں۔سیدہ ام سلیمؓ نے کھانا تیار کرنا شروع کیا۔ رات ہو چکی تھی، بچوں سے کہا جاتا ہے کہ تم سو جاؤ۔ انہیں بھوکا ہی سلا دیا جاتا ہے۔ ام سلیم نے دستر خوان لگایا، کھانا صرف ایک ہی شخص کے لیے کافی تھا۔ شرفاء کے ہاں دستور چلا آ رہا ہے کہ میزبان بھی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ اب اگر میزبان بھی مہمان کے ساتھ کھانا کھائے گا تو مہمان تو بھوکا رہ جائے گا۔ پروگرام پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ ام سلیم چراغ درست کرنے کے بہانے چراغ بجھا دیگی۔ میزبان مہمان کے ساتھ بیٹھے گا، مگر کھانا نہیں کھائے گا۔ مہمان کو کھانا کھانے کا پورا موقع دیا جائے گا۔اس طرح وضع داری پر بھی آنچ نہیں آئے گی اور مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھا لے گا۔
    مہمان کو آوازدی جاتی ہے: کھانا تیار ہے، تشریف لائیے۔ میزبان اور مہمان دستر خوان پر بیٹھ گئے ہیں۔ اُدھر مہمان نے لقمہ منہ میں ڈالا، اِدھر ام سلیم چراغ کو درست کرنے کے بہانے بجھا دیتی ہیں۔ مقصد بڑا واضح ہے کہ مہمان کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو جائے۔ کہیں مہمان بھوکا نہ رہ جائے، مہمان کھانا کھاتا رہا۔ سیدناابو طلحہؓ نے کھانا نہیں کھایا۔ آج کی رات ابو طلحہ کا پورا گھرانہ بھو کا رہا ہے۔ مہمان کھانے سے فارغ ہو کر باعزت طریقے سے اپنے سونے کی جگہ چلا جاتا ہے۔
    صبح ہوتی ہے، سیدناابو طلحہؓ  حسب معمول اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپنے فرمایا : اللہ عزو جل فلاں مرد اور فلاں عورت کے رات والے ایثار و قربانی پر خوش ہوا اوراللہ تعالیٰ ان کے طرز عمل پر ہنس پڑا۔
    اللہ رب العزت نے ایسی ہی شخصیات کے بارے میں سورۃ الحشر ،آیت نمبر 9میں فرمایا ہے:    ’’ وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
    قارئین کرام! مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ اگر کسی شخص میں مندرجہ ذیل 2مذموم صفات پائی جاتی ہوں تو وہ نہایت بد قسمت اور اخلاق سے گرا ہوا انسان ہے۔ ایک تو مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا ۔ دوسرا مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری تنگ ظرفی، سنگدلی بے مروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہو سکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔‘‘
     قارئین کرام! میرا ذاتی تجربہ ہے کہ فقر و فاقہ اور بخیلی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ کسی بھی شخص کا مفلس یا قلاش ہونا کوئی جرم نہیں۔ جرم دراصل بخیل ہونا اور مال کی محبت میں اس حد تک آگے بڑھ جانا ہے کہ آدمی دولت کے پیچھے اندھا ہو جائے اور دولت کا پجاری بن جائے۔ یہ انتہائی قبیح خصلت ہے اور اسلام اس بد خصلت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے وسعت نظر، ہمدردی ، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
    قارئین کرام! چلیے، اب ہم اللہ کے رسولکے ایک صحابی سیدنا ثابت الدحداحؓ کا واقعہ پڑھتے ہیں۔ میں نے اس واقعہ کو اپنی کتاب سنہرے اوراق میں ’’جنت کی کھجور‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یہ واقعہ اللہ کے فضل سے بالکل درست اور صحیح ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
    جنت کی کھجور:
    یثرب کی بستی کھجوروں کی بستی تھی جو نبی کریمکی آمد کے بعد اب مدینہ النبی کہلاتی تھی۔ اس میں ہر طرف مختلف باغات تھے۔ ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان کے مختلف مالکان تھے۔ انہی باغات میں ایک یتیم بچے کا باغ بھی تھا‘ اس کے ساتھ ایک دوسرے آدمی کا باغ تھا۔ کھجوروں کے درخت اس طرح آپس میں ملے ہوئے تھے کہ آندھی اور بارش میں کھجوریں نیچے گر پڑتیں تو آپس میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا کہ یہ کس درخت سے گری ہیں۔ یتیم نے سوچا: کیوں نہ میں دیواربنا کر اپنے باغ کو علیحدہ کرلوں تاکہ ملکیت واضح ہو جائے، کسی قسم کا تنازع اور جھگڑا نہ کھڑا ہو چنانچہ اس نے دیوار بنانا شروع کی۔ جب اس نے دیوار بنانا شروع کی تو اس کے ہمسائے کی کھجور کادرخت درمیان میں حائل ہوگیا۔ دیوار اس صور ت میں سیدھی ہوتی تھی جب یہ درخت اس کو مل جاتا۔ وہ یتیم بچہ اپنے ہمسائے کے پاس گیا اور کہا: آپ کے باغ میں بہت ساری کھجوریں ہیں۔ میں دیوار بنا رہا ہوں آپ کی ملکیت میں ایک کھجور راستے کی رکاوٹ بن رہی ہے۔ یہ کھجور مجھے دے دیں تو میری دیوار سیدھی ہو جائے گی،مگر اس شخص نے انکار کر دیا۔ اس بچے نے کہا: اچھا آپ مجھ سے اس کی قیمت لے لیں تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی کر لوں۔ اس نے کہا : میں اسے بیچنے پر بھی تیار نہیں۔ یتیم نے خوب اصرار کیا، ہمسائیگی کا واسطہ دیا، مگر اس پر دنیا سوار تھی۔اسے نہ یتیمی کا لحاظ تھانہ ہمسائیگی کا پاس۔ یتیم نے کہا : کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی دیوار نہ بنائوں‘ اس کو سیدھا نہ کروں؟ ہمسائے نے کہا: یہ تمہارا معاملہ ہے، تم جانو اور تمہارا کام جانے! تمہاری دیوار سیدھی رہے یا ٹیڑھی، مجھے اس سے کوئی غرض نہیںمگر میں کھجورکا درخت فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔یتیم جب اس سے مکمل مایوس ہوگیا توخیال آیا کہ مدینہ طیبہ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں کہ اگر وہ سفارش کر دیں تو میرا کام بن سکتا ہے۔ دل میں خیال آتے ہی قدم مسجد ِنبوی کی جانب اٹھ گئے۔
    یہ قصہ باعث ِتعجب ہے کہ آپ کے صحابہؓ  کو آپ سے کس قدر محبت تھی اور آپ کے الفاظ کا کس قدر پاس تھا۔ وہ یتیم بچہ جب مسجد نبوی ؐمیں آیا تو سیدھا اللہ کے رسول کے پاس پہنچا‘ عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ فلاں آدمی کے باغ سے ملا ہوا تھا۔میں ان کے درمیان دیوار بنا رہا ہوںمگر دیوار اس وقت تک سیدھی نہیں بنتی جب تک راستے میں ایک کھجور میری ملکیت نہ بن جائے۔میں نے اس کے مالک سے عرض کی کہ وہ مجھے فروخت کر دے‘ میں نے اس کی خوب منت سماجت کی مگر اس نے انکار کر دیا ہے ۔اللہ کے رسول!میری اس سے سفارش کر دیںکہ وہ مجھے کھجورکا درخت دیدے۔ آپ نے فرمایا:جائو !اس آدمی کو بلا کر لے آئو۔
    وہ یتیم اس شخص کے پاس گیا اور کہا : اللہ کے رسول تمہیں بلا رہے ہیں۔ وہ شخص مسجد ِنبوی میں آیا ۔آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: تمہارا باغ اس یتیم کے باغ سے ملا ہوا ہے، یہ یتیم بچہ دیوار بنا کر اپنے باغ کو تمہارے باغ سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔تمہارا کھجورکا ایک درخت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ تم ایسا کرو کہ اپنے بھائی کو یہ درخت دے دو!   
    اس شخص نے کہا : میں تو نہیں دوں گا۔ آپ نے پھر فرمایا : اپنے بھائی کو یہ درخت دے دو! اس نے کہا :جی میں نہیں دے سکتا۔ آپ نے ایک بار پھر فرمایا: اپنے بھائی کو کھجورکا درخت دے دو، میں تمہیں جنت میں کھجورکے درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔اس شخص نے اتنی بڑی پیشکش سننے کے باوجود کہا: نہیں‘ میں کھجور نہیں دوں گا۔ آپ اب خاموش ہوگئے،اس سے زیادہ آپ اس کو کیاکہہ سکتے تھے!
     صحابہ کرام خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے ہیں۔ حاضرین مجلس میں سیدنا ابو دحداحؓ بھی تشریف فرماتھے۔ مدینے میں ان کا بڑا خوبصورت باغ تھا۔600کھجور کے درختوں پر مشتمل باغ اپنے پھل کے سبب بڑا مشہور تھا۔ اس باغ کی کھجوریں اعلیٰ قسم کی شمار ہوتی تھیں، منڈی میں ان کی بڑی شہرت تھی۔ مدینے کے بڑے بڑے تاجر اس بات کی حسرت اور خواہش کرتے تھے کہ کاش !یہ باغ ان کی ملکیت ہوتا۔
    سیدناابو دحداحؓ نے اس باغ کے وسط میں اپنا خوبصورت ساگھر تعمیر کر رکھا تھا۔بیوی اور بچوں کے ساتھ وہیں رہائش پذیر تھے۔ میٹھے پانی کے کنویں نے اس باغ کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔ ابو دحداح ؓنے جب اللہ کے رسولکی پیشکش کو سنا تو دل میں خیال آیا کہ اس دنیا کا کیا ہے؟ آج نہیں تو کل مرنا ہے اور پھر ہمیشہ کی زندگی ‘ عیش وآرام یا دکھوں اور آلام کی زندگی ہو گی۔ اگر جنت میں ایک کھجور کا درخت مجھے مل جائے تو کیا کہنے! وہ آگے بڑھے اور کہا :اللہ کے رسول! یہ جو پیش کش آپ نے کی ہے، صرف اسی شخص کے لیے ہے یا اگر میں اس آدمی سے اس کھجورکے درخت کو خرید کر اس یتیم بچے کو دے دوں تو مجھے بھی جنت میں کھجور کا درخت ملے گا؟ آپنے فرمایا:’’ ہاں تمہارے لیے بھی جنت میں کھجور کی ضمانت ہے‘‘۔ اب ابو دحداح ؓسوچنے لگے کہ ایسی کون سی چیز ہے جو میں اس شخص کو دے کر اس سے وہ کھجور کا درخت خرید لوںاور پھر اس یتیم کو دے دوں۔پھراچانک ہی ایک عجیب وغریب فیصلہ کیا۔ وہ اس آدمی سے مخاطب ہوئے، کہا: سنو ! تم میرے باغ سے واقف ہو جس میں 600کھجوروں کے درخت ‘ گھر اور کنواں ہے۔ اس نے کہا: مدینے میں کون ہوگا جو اس باغ کو نہ جانتا ہو!کہا: تم ایسا کرو کہ میرا سارا باغ اس ایک کھجور کے درخت کے بدلے میں لے لو۔ اس آدمی کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا۔اس نے مڑ کر ابودحداحؓ کی طرف دیکھا: پھر لوگوں کی طرف دیکھا۔ سن رہے ہو‘ ابودحداحؓکیا کہہ رہا ہے؟ابو دحداحؓ ؓنے پھر اپنی بات کو دہرایا ‘ لوگوں کو اس پر گواہ بنایا چنانچہ اس ایک کھجور کے درخت کے بدلے میں اپنا سارا باغ ،کنواں اور گھر اس آدمی کے حوالے کر دیا۔ جب اس کھجور کے درخت کے مالک بن گئے تو اس یتیم بچے سے کہا:آج کے بعد وہ کھجور کا درخت تمہارا ہے۔ میں نے تم کو تحفے میں دے دیا ہے ۔اب اپنی دیوار سیدھی بنائو۔ اب تمہارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
    اس کے بعدانہوں نے اللہ کے رسولکی طرف رخ کرکے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! کیا اب میں جنت میں کھجورکے درخت کا مستحق ہوگیا ہوں؟ تو آپ نے فرمایا:
     کَمْ مِنْ عِذْقٍ رَدَاحٍ لإَِبِیْ الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّۃِ۔
    ’’ابود حداح کے لیے جنت میں کھجوروں کے کتنے ہی جھنڈ ہیں۔‘‘
    ابو دحداحؓ گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز دیتے ہیں: ام دحداح! بیوی کہتی ہے : آپ باہر کیوں رک گئے ہیں‘ اندر کیوں نہیں آتے؟ دوبارہ آواز آئی: ام دحداح!اہلیہ بولیں: حاضر اے ابودحداح! فرمایا: اس باغ سے بچو ں سمیت باہر نکل آؤ‘ میں نے اس کو فروخت کر دیا ہے۔ ام دحداحؓ نے کہا کہ آپ نے اس کو بیچ دیا ہے۔ کس کو فروخت کیا ہے‘ کون خریدار ہے‘ کتنے میں؟ فرمایا: میں نے اس کو جنت میں ایک کھجور کے درخت کے بدلے میں فروخت کر دیا ہے۔ ام دحداحؓ نے کہا:
    اللہ اکبر! رَبِحَ الْبَیْعُ یَااَ بَا الدَّحْدَاحِ۔ 
    ’’ابو دحداح !آپ نے بڑا ہی منافع بخش سودا کیا ہے۔‘ ‘
    انہوں نے کہا:اب باغ میں داخل نہ ہونا۔ بڑا ہی فائدہ مند سودا ہوا ہے،جنت میں ایک درخت،جس کے نیچے گھڑسوار 70 برس چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ ام دحداحؓ نے بچوں کو پکڑا ‘ ان کی جیبوں کو ٹٹولا‘ جو کچھ ان میں تھا ان کو نکالا ‘ کہا: اب یہ رب کا ہوگیا ہے ہمارا نہیں‘ اور خالی ہاتھ باغ سے باہر نکل آئیں۔
    ابودحداح اور ام دحداح رضی اللہ عنہم کا یہ اقدام،یہ کارنامہ کوئی معمولی نہیں۔اللہ کے رسول کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز کو رب کی راہ میں لٹا دیا۔ اپنے آباد گھر‘ باغ‘ کنویں کو چھوڑا اور ہمارے لیے مثالیں قائم کرگئے ۔ اسے کہتے ہیں: حقیقی محب، محب ِصادق، اللہ کے رسول سے محبت کرنے والے۔
    ابو دحداح اور ام دحداح رضی اللہ عنہم!آپ دونوں پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہو۔ آپ نے کتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔ بلا شبہ آپ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔
    قارئین کرام !ریاض میں بعض خواتین نے جب اس واقعہ کو سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم ام دحداح کی اس عظیم قربانی اور ایثار سے بہت متاثر ہوئی ہیں لہٰذا ہم پاکستان میں حدیقہ ام الدحداح بنائیں گی چنانچہ گزشتہ ہفتہ شیخوپورہ میں اس عظیم صحابیہ کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی قربانی اور ایثار کو یادگار اور باعث مثال بنانے کے لیے’’ حدیقہ ام الدحداح‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس میں پھل دار درخت لگائے جا چکے ہیں۔ ان شاء اللہ ان پھلوں سے طلبہ اور اساتذہ استفادہ کریں گے اور اس عظیم صحابیہ کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:- - - - -دولت ، عزت وذلت کا معیار نہیں

شیئر: