Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگوں کی بدلتی شکلیں

احمد آزاد، فیصل آباد
ماضی بعید میں جنگیں آمنے سامنے ،تلوار کی تیز دھاراورزوربازو پر لڑی جاتی تھیں ۔پھر بارود کا استعمال سیکھا گیا اور جنگ کی نوعیت کو یکسر طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ۔تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ جنگی آلات بھی تبدیل ہوتے گئے۔ وہ جنگ جو پہلے تیر و تلوارسے لڑی جاتی تھی اب بندوق اور پھر کلاشنکوف جیسی چیزوں سے لڑی جانے لگی ۔پھرانسان نے اڑان بھرنے کی صلاحیت حاصل کی اوراس کے بعد میزائل کا دور آیا اور اس نے جنگ کی نوعیت کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ۔بری ،بحری و فضائی جنگوں کی تاریخ بھی تبدیل ہوتی رہی اور جدید سے جدید آلات حرب ان جنگوں کا حصہ بنتے رہے۔بری فوج کی مدد کے لیے فضائی فوج کا اہم کردار آج بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔کوئی بھی ملک اس وقت تک اپنی بری فوج کو میدان جنگ میں کامیاب نہیں کرواسکتا جب تک اس کی مدد کے لیے اس کی فضائی فوج نہ موجود ہو ۔فضائیہ کا کام ملک کی فضائی حدود اور سرحدوں کی حفاظت کرنا، دشمن کے فضائی حملوں کو روکنا اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے طیاروں کو گرفتار کرنا یا مار گرانا ہے۔ جنگ کے دوران فضائیہ اپنی بری فوج کو فضائی حملے سے تحفظ فراہم کرتی ہے، دشمن کی فوجوں کو تباہ کرتی ہے اوردفاعی اہمیت کی مخالف تنصیبات کو نشانہ بناتی ہے۔ماضی قریب میں پاکستان میں ہورہے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنوں میں پاک فضائیہ کا کردار کلیدی نوعیت کارہا ہے اور اگر اس سے ذرا پیچھے چلے جائیں تو جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کا کردار اس قدر بہترین رہا ہے کہ فضائیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔عرب اسرائیل جنگ میں بھی پاکستانی پائلٹوں کا کردار انمٹ نقوش چھوڑے ہوئے ہے ۔فضائیہ کا اہم ہتھیار اس کے جہازسمجھے جاتے ہیں جو کہ پائلٹ کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔آپ دنیا کا بہترین جنگی جہاز بنا لیں لیکن اگر آپ کے پاس اسے چلانے والا ماہرترین پائلٹ نہیں ہے تواس جہاز کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔
جہاز کے بعد جدید ترین نوعیت کے بغیر پائلٹ جہاز(جسے ہم ڈرون کے نام سے جانتے ہیں )کا نام آتا ہے اس کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو 1849ء میں آسٹریا نے اٹلی کے خلاف غباروں کی شکل میں ڈرون سے حملہ کیا تھا ان Unmanned Balloonsکے ساتھ باردو باندھ کر اٹلی کی طرف روانہ کردیا گیا تھا جن میں سے چند ایک تو اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گئے اور بعض ہوا کے باعث واپس آسٹریا کی حدود میں آکر پھٹ گئے ۔اگرچہ یہ غبارے نما چیزموجودہ ڈرون کی تعریف پر بالکل بھی پورا نہیں اترتے لیکن اسے ہم ابتدائیہ کہہ سکتے ہیں ۔پہلی عالمی جنگ کے تھوڑی دیر بعد پہلا بغیر پائلٹ کے ائیرکرافٹ بنایا گیالیکن یہ کامیاب نہ ہوسکا ۔اس کے بعد اس پر کوششیں جاری رہیں ۔ناکامی کوکامیابی کی راہ پر سائنس دان وانجینئرز نے گامزن رکھا ۔پہلی و دوسری عالمی جنگوں میں خود کار ائیرکرافٹ /جہاز پر کئی تجربات کیے گئے ۔ 1917ء میں Kettring Bug نامی خودکار طیارہ بنایا گیا اوربرٹش رائل آرمی کی جانب سےQueen Bee کے نام سے ایک طیارہ بنایا گیا۔جرمن فوج کی جانب سے بھی اس ٹیکنالوجی پر کام کیا گیا لیکن اس سارے دورانیے میں بنائے گئے خودکار ائیرکرافٹس /جہاز موجودہ ڈرون کی تعریف پر پورا نہیں اترتے لیکن موجودہ ڈرونز انہی تجربات کی مرہون منت ہیں ۔1936ء میں پہلی دفعہ لفظ ڈرون کا استعمال کیا گیا ۔60ء کی دہائی میں امریکا کی طرف سے UAV(unmanned aerial vehicle) پروگرام پر کام شروع کیا گیا ۔1973ء تک امریکا اس بات سے انکاری رہا کہ اس نے UAVٹیکنالوجی کا استعمال ویت نام میں کیا ہے۔اسرائیل کی طرف سے 1987ء میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے ثبوت ملتے ہیں ۔1980ء سے 1990ء میں یہ ٹیکنالوجی اپنے جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہوئی ۔آج UAV(unmanned aerial vehicle)جس بلندی پر موجود ہے اس راہ پر 9/11کے بعد اسے امریکا نے ڈالا تھا ۔معلومات کو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنے اور دشمن کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے اور پھر انہیں تباہ کرنے کا کام امریکا کی طرف سے 2004ء میں کھلے عام شروع کردیا گیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان ،افغانستان ،یمن اور صومالیہ وغیرہ میں اس بغیر پائلٹ طیارے کی بازگشت عوام الناس تک پہنچی۔2004ء میں امریکا نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ڈورون حملے شروع کیے جس کے بعد پاکستان نے امریکا پر زور ڈالنا شروع کیا کہ وہ اسے یہ ٹیکنالوجی دے لیکن امریکا مسلسل انکاری رہا۔اس کے پیچھے کیا عوامل تھے وہ اک الگ تاریخ ہے لیکن اسی انکار نے پاکستان کو اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی راہ دکھلائی اور پھر پاکستان نے 2015ء میں ’’براق‘‘ نامی ڈرون سے شوال میں چھپے دہشت گرد عناصر کو کامیابی سے نشانہ بناکر اپنے آپ کو دنیا میں چوتھا ملک ثابت کردیا کہ جو اپنے ٹارگٹ کو ڈرون کے ذریعے کامیابی سے نشانہ بناسکتا ہے اس سے قبل اس ٹیکنالوجی کے حامل امریکا،برطانیہ اور اسرائیل تھے ۔
پاک ہند کشیدگی سے پوری دنیا واقف ہے ۔دونوں ملک اپنے تئیں دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ہندوستان روزاول سے ہی پاکستان دشمنی میں ہراول دستے کا کمان دار رہا ہے ۔دونوں ملک ایک دوسرے سے بڑھ کر ٹیکنالوجی کا استعمال اسلحہ سازی و جنگی آلات بنانے کے لیے کررہے ہیں ۔دوسرے ممالک سے بھی اسلحہ خریدنے میں اپنا اک الگ ماضی رکھتے ہیں ۔گزشتہ سات سالوں میں ہندوستان دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے جبکہ پاکستان نے اپنی خریداری میں 36فیصد تک کمی کی ہے مگر یہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی سالمیت سے نظریں نہیں چرا سکتا ۔ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان چینی کمپنی شینگ ڈو ائرکرافٹ انڈسٹریل  کے تیار کردہ ’ونگ لونگ 2 ڈرون خریدنے کا معاہدہ ہورہا ہے ۔پاکستان چین سے 48ڈرونز خریدے گا اور پاکستان چین کے ساتھ مل کر جدید ترین ڈرونز کی تیاری بھی شروع کریگا ۔’ونگ لونگ 2ڈرون‘ 20کلوگرام کے قریب باردو اور 20گھنٹے تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ ڈرون جاسوسی اور میزائل حملوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس سال گزشتہ دنوں میں روسی صدر پیوٹین نے ایس 400ائیر ڈیفنس سسٹم کی فروخت کا ہند سے معاہدہ کیا ہے ۔روسی ساختہ ائیر ڈیفنس سسٹم کس قدر کامیابی سے اپنے سے پیشتر سسٹمز کو پیچھے چھوڑتا ہے اور پاکستان اس سسٹم کے حوالے سے کیا کام کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن پاکستان کو ہندوستان پر ڈرونز کے معاملے میں برتری حاصل ہے ۔براق نامی ڈرون کو خود بناکر پاکستان سے ہندوستان پر اپنی برتری ظاہر کردی ہے اور اب اگر چین کے ساتھ مل کر ’’ونگ لونگ 2‘‘ کی تیاری بھی پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے تو طاقتوں کا توازن کسی حد تک برابر ہوسکتا ہے ۔
 

شیئر: