Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاش ہم اپنی پہچان سے محبت کر نا سیکھ جا ئیں

زندگی کے ہر شعبے پر ہم نے اغیار کی ثقافت کو مسلط کر لیا 
تسنیم امجد ۔ریا ض
ہم بڑے فخر سے آزادی کو خیر باد کہہ کر، غیروں کی غلا می کو کسی نہ کسی انداز میں اپنا کر اپنا مقصدِ حیات بھو ل چکے ہیں ۔پا کستانی ثقافت کی تشہیر اور فروغ کا ذکر کرناآ جکل مذاق سے کم نہیں۔ہم تو اسے بہت پیچھے چھو ڑ آ ئے ہیں ۔زندگی کے ہر شعبے پر ہم نے اغیار کی ثقافت کو مسلط کر لیا ہے اور فخر سے اپنے ما ڈر ن ہو نے کا اعلان کر تے ہیں ۔نہ جانے ہم نے ایسا کیو ں کیا۔ دوسری جانب ہماری ثقافت کو غیرو ں نے اپنال یا ۔اس تبدیلی کو ا حساسِ کمتری کہیں تو بجا ہو گا ۔ہم نے اپنی میرا ث غیرو ں کو دیکھ کر نہ جا نے کیسے کیسے غلا فو ں میں لپیٹ کر کن کن تہو ں میں دبانے کی ہر ممکن کو شش کی ،اس طر ح کہ بے ا ختیار یہ کہنے کو دل چا ہتا ہے:
 کر دی میراث وارثو ں کے سپرد
زندگی کس کے نام کر جا ئیں
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ثقا فت کا ایک پہلو ہے ۔ہماری خوراک پر بھی اب دو سرو ں کی چھاپ ہے ۔اکثر اشیاءکے بارے میں ہمیں بار بار روکا جاتا ہے کہ ان کا استعمال صحت کے لئے مضر ہو نے کے سا تھ ساتھ ان میں مکروہ اشیاءکی ملاوٹ بھی ہے۔ ان سب کے باوجودہم پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں ہو تا ۔ہمیںز بان کا چسکا زیا دہ عزیز ہے ۔اس طر ح ہم دوسرو ں کی معیشت کے استحکام میں معاون ہو کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ۔
ہمارے وطن کے کا ریگر کمال فن کے درجے پر فائز ہیں ۔تاریخ کے اوراق ان کے کا رناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے کھانوں کی ڈشیں لا جواب ہیں۔غیرو ں نے انہیں شوق و ذوق سے سیکھا ۔ہم نے سافٹ ڈرنکس اور بر گر کوہی اپنی پسند بنا لیا ۔نسلِ نو سے ہمیں ڈ ھیروں شکا یتیں ہیں لیکن کیا ہم نے سو چا کہ ور ثہ نسل در نسل چلتا ہے، اس کی آ گہی دی جا تی ہے۔جب وا لدین ہی مغرب زدہ ہو جائیں تو بچو ں سے کیا شکا یتیں ؟ ہماری متنو ع صد رن ثقا فت چند اشیاءتک محدود نہیں، اس کی فہرست طویل ہے ۔کچھ کا ذکر ممکن ہے مثلاًکانجی ،مر نڈا،گجک ،تلو ں کے لڈو ،ہر قسم کے حلوے ،مٹھا ئیا ںجن میں بتیسہ ،با لو شا ہی ،گلاب جا من ،امر تی،جلیبی ،پنجیری ،گجر یلا ،گا جر کا حلوہ ،لو کی کا حلوہ ،بیسن کا حلوہ اور انوا ع قسم کے بے شمار پھلو ں سے تیار شدہ ڈشیں اور پلاﺅ، قورمہ، زردہ، حلیم ، بریانی ،دمپخت اور نجانے کیا کیا مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے کبھی اپنی ان اشیاءکے ساتھ وفاداری نہیں کی ۔اس سلسلے میں حکو متو ں کو ہی مو ردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔عوام کی خوا ہشیں تو انہی کی مر ہون منت ہیں ۔اپنی ثقافت کو قید کرنے میں ان کا ہی ہا تھ ہے ۔اگر ذرا سی ر حم دلی کا مظا ہرہ کیا جا تا تو اپنے بے شمار غر با ءکو روز گار مل سکتا تھا۔یہا ں کچھ ذا تی تجر بات کا ذ کر کرنا ضروری ہے : 
رواں سال ر مضان مبارک میںآ پا بتا رہیں تھیںکہ ان کے شو ہر نے پاکستان کے معروف لال شربت کی تلاش میں پورے شہر کی دکانیں چھان ماریں ۔ہر ایک نے کہا کہ پاکستان سے آتا تو ہے مگر نجانے اس مرتبہ کیوں نہیں آ یا ۔کسی نے کہا ،جی انتخابات کے بعد ہی آئے گا شا ید ۔نصف رمضان کریم کے قریب ہمیں صرف دو بو تلیں ملیں کیو نکہ سب فروخت ہو چکی تھیں ۔اسی طر ح ہماری پھینیا ں اور با قر خا نیاںبھی خوب پسند کی جا تی ہیں لیکن سمندرپار پاکستانیوں کوجب یہ بطور تبرک میسر آ تی ہیں تو انہیںوطن کی بہا ریں ستا تی ہیں۔
گز شتہ دنو ں ایک گیٹ ٹو گیدر میں سبھی اپنی اپنی پسند اور اپنے اپنے علا قوں کی خصو صی ڈشو ں کا ذکر کر رہے تھے تو ان میں لا ہو ری بازی لے گئے ۔تب بے اختیار سب نے نعرہ لگا یا ”،لہو ر، لہور ای اے جناب۔“
ہمیں بھی یاد ہے کہ ابا جان ہمیں ہر چھٹی کے دن نا شتہ کرانے ” فو ڈ اسٹر یٹ گوالمنڈی اور کبھی فو ر ٹ روڈ فو ڈا سٹر یٹ“لے جاتے تھے ۔اس دن ہماری عید ہو تی تھی۔” عالی شان نان تکہ سنٹر کی فرا ئیڈ فش کا ذا ئقہ تو ابھی تک یاد آتا ہے ۔اباجان تو جب بھی پشاور جاتے ، انہیں وہا ں کے پا ئے اور بو نگ کھا نے کا شو ق ہو تا ۔اس میں وہ ہر پلیٹ میں ہڈی کا گو دا ڈال کر دیتے جو اس کے مزے کو دو با لا کر دیتا ۔
ہمارے کا ریگر جس محبت اور جو ش کا مظاہرہ کا کرتے ہیں،اس سے تو خوا ہ مخواہ ہی بھوک چمک ا ٹھتی ہے ۔وطن کے گا ﺅ ں ،قصبات اور شہرو ں میں ہنر مند مو جود ہیں جن کے کام کی شنوا ئی نہیں ہوتی ۔ہمارے مصالحے بھی بیرونِ ملک بہت مہنگے دا مو ں دستیاب ہیں۔ٹن میں پیک ہمارے لذیذکھانے بھی بہت کم بر آ مد ہو تے ہیں ۔مشکل سے ملتے ہیں ۔
ہماری معیشت ز ر عی ہے لیکن ہم اس سے مستفید نہیں ہو تے ۔ہم ویسے تو ہندوستان سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن در آ مدات میں ہم اس سے پیچھے ہیں۔مشہور برانڈ کے ملبو سات ،جیو لری اور دیگر بیشتر اشیا ءکی د کا نو ں میں انڈیا اور بنگلہ دیش کی اشیاءرکھی دیکھ کر ہمیں اپنی کم مائیگی کااحساس ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہا ں کسی شے کی کمی نہیںلیکن افسوس کہ حکومتو ں نے تو جہ دینی منا سب ہی نہیںسمجھی۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کو ئی ایک انو کھا پن پایا جاتا ہو تو اس کی اس قدر تشہیر کی جا تی ہے کہ سیا ح اسی کی خا طر طویل سفر کرنے سے گر یز نہیں کر تے ۔ہم نے اپنی ثقافت سے جی بھر کر کھلوا ڑ کیا ۔ یہ جان لیا کہ یہی ہماری تر قی کی راہ میں رو کا وٹ بنے گی، اس لئے اسے جھٹک دو ۔افسوس ہم نے اپنی زبان سے بھی بے وفا ئی کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ۔آج بھی ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں اردو بو لتے وقت انجانی کمتری کا ا حساس ہو تا ہے ۔انگریز ی آ ئے یا نہ آ ئے ،ہم اس کو غلط بول کر بھی پھو لے نہیں سما تے۔ کاش ہمیں ادراک ہو جائے کہ اپنی ثقا فت پربھرپور انداز میں تو جہ دینے سے ہمارے ز رِ مباد لہ میں ا ضا فہ ہو گا اور نام بھی رو شن ہو گا ۔ملک میںخو شحا لی آ ئے گی ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ کریم کی عطا فرمائی ہو ئی نعمتو ں سے مستفید ہو نے کا سلیقہ ہی نہیں آ یا ۔
قا ر ئین ثقافت، فرد کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔شخصیت کی نشو و نما اسی کی مر ہو نِ منت ہے ۔یہ معا شرے کے ما حول کو ترتیب دیتی ہے ۔اس طر ح ور ثہ منتقل ہو تا ہے ۔یہ انسانی تجر بات میں ا ضا فہ کرتی ہے ۔اس کے بغیر انسان پھل پھو ل نہیں سکتا۔یہ ہماری پہچان کا ایک ذریعہ ہے ۔یہ سچ ہے کہ ثقا فت کی تر سیل یعنی ٹرا نسمیشن ہو تی ہے ۔اسی وجہ سے اس کی کچھ خصو صیات کو اچک لیا جا تا ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس طر ح سے قوم کی پہچان بھی ہو تی ہے ۔جب دوسری اقوام ہماری ثقافت پر عمل کرتی ہیں تو ہمارا سرفخر سے بلند ہو جا تا ہے ۔ایک قوم میں اسی سے یکجہتی پیدا ہو تی ہے ۔ ہمارے عوام کی معاشی بد حالی کو اسی طور ختم کیا جا سکتا ہے کہ کاش ہم اپنی پہچان سے محبت کر نا سیکھ جا ئیں ۔
   
 

شیئر: