Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا عزم و ثبات اور صبر و تحمل

ندیم قطیش۔ الشرق الاوسط

مسئلہ صرف جمال خاشقجی کی گمشدگی کا نہیں ۔ ہمارے سامنے 2منظر نامے ہیں ، ایک نہیں۔ مسئلے 2ہیں ایک نہیں۔
    پہلے منظر نامے کا تعلق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے ہے۔ یہ مستقل ایک مسئلہ ہے۔ یہ خاشقجی کی شخصیت اور ان کے اہل خانہ کا مسئلہ ہے۔ یہ سعودی عرب کا قومی مسئلہ ہے۔ یہ کسی کے بھی مقابلے میں سعودی ریاست کا مسئلہ ہے۔ سعودی عرب اپنے تمام شہریوں کی سلامتی اور ان کی آسائش کا ذمہ دار ہے۔ یہ اخلاقی مسئلہ ہے۔ ہر صحافی کو اس سے دلچسپی ہے ۔ جو شخص بھی یہاں صحافت کی دنیا سے منسلک ہواُ سے اس سے دلچسپی ہوگی۔ میری ہمیشہ یہی آرزو رہی کہ کاش جمال خاشقجی میرا یہ کالم پڑھ سکیں۔
    دوسرا منظر نامہ سیاسی ، ابلاغی اور سلامتی کا ہے۔ یہ منظر نامہ پہلے منظر نامے پر تھوپ دیا گیا ہے۔ یہ خاشقجی کی گمشدگی سے بہت پہلے سے چل رہا ہے۔ گمشدگی کے بعد بھی اس کا سلسلہ برقرار ہے۔ خاشقجی کے معاملے کو مختلف حوالوں سے اس مسئلے کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔یہ نئے سعودی عرب کے ساتھ معرکے کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ سعودی قیادت اور اس کے منصوبے سے متعلق ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کے تشخص پر وسیع البنیاد معرکے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ یہاں اثرو نفوذ کے روڈ میپ کا حصہ ہے۔ یہ اسلام کے سیاسی کردار کی بابت اعلانیہ معرکے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فرد اور ریاست کے درمیان سماجی معاہدے اور تجدید و ترقی اورترجیحات کے مستقبل کی نوعیت سے بھی منسلک ہے۔
    پہلے منظر نامے کے حوالے سے ہم نے سعودی عرب کو صابر پایا۔ مملکت کیخلاف اس مسئلے کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ پہلے ہی لمحے سے سعودی قائدین کو خاشقجی کی گمشدگی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔ سعودی قیادت نے اس سلسلے میں انتہادرجے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ابلاغی اسکرینوں پر سعودی عرب کو پے درپے جارحانہ حملہ کرکے خاشقجی کا مجرم گردانا گیا۔متعدد سعودی شہریوںکو بلا وجہ خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قراردیدیا گیا۔ ان کی تصاویر قاتل ٹیم کی فہرست میں جاری کرکے انہیں بدنام کیا گیا جبکہ نہ خاشقجی سے ان کا تعلق تھا اورنہ ہی ترکی جانے کا انہیں موقع ملا تھا۔ ان میں سے بعض وہ بھی تھے جو سیرو سیاحت کیلئے ترکی گئے تھے اور ناحق انہیں خاشقجی کے قاتلوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔
    دوسرا منظر نامہ مختلف رہا۔ ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب نے انتہائی جرأت اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی اہمیت اور حیثیت کی بابت چیلنج کیا۔ سعودی عرب نے دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کے سامنے جھکنا گوارہ نہیں کیا۔ سعودی عرب کو امریکی کانگریس کے انتخابات کے تناظر میں دھمکانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا سعودی عرب نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا۔ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وائٹ ہاؤس کے ساتھ اسٹراٹیجک تعلقات استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم کانگریس کے ممبران کی انتخابی مہم نے سودے بازی اور جوابی مہم کے تحت نیا منظر نامہ تخلیق کردیا۔
    ولیعہد محمد بن سلمان نے بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی متوازن بیان دیا۔ اس میں ایک طرف تو بردباری کا مظاہرہ کیا اور دوسری جانب عز م و ثبات بھرپور شکل میں اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے امن و امان کیلئے کسی کو کچھ نہیں دینگے۔ سعودی عرب امریکہ سے اسلحہ پیسے دیکر خریدتا ہے مفت نہیں۔سعودی عرب سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے عہد اقتدار میں اپنے مفادات کی حفاظت اس کے باوجود کرتا رہا جبکہ وہ سعودی ایجنڈے کے برخلاف سرگرم تھے۔ سعودی عہدیدار نے مملکت کیخلاف پابندیوں کی دھمکی کا جواب دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر دیا کہ اگر سعودی عرب کیخلاف کوئی پابندی لگائی گئی تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیگا۔
    جہاں تک خاشقجی کا معاملہ ہے تو بعض فریق اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔یہ انسانی مسئلہ بھی ہے ۔ سعودی عرب اس سلسلے میں انصاف کے جملہ تقاضے پورے کرنے کا یقین دلا چکا ہے۔چشم کشا حقائق سامنے لانے کیلئے ترکی کے ساتھ بھرپور تعاون کی خاطر مشترکہ تحقیقات کمیشن کی تجویز اسی عز کی آئینہ دار ہے۔ خاشقجی کے مسئلے کو پر بحث کے وقت یہ حقیقت مدنظر رکھنا ہوگی کہ یہ دومنظرناموں پر مشتمل ہے ایک پر نہیں۔
   
 

مزید پڑھیں:- - - - -’’خاشقجی بحران‘‘ کے نتائج و اثرات

شیئر: