پرواز کے دوران ڈائیورژن، پائلٹس فضائی حدود سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟
پرواز کے دوران ڈائیورژن، پائلٹس فضائی حدود سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟
ہفتہ 28 جون 2025 6:27
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
خطرناک بادلوں سے گزرنے کے دران طیاروں کے الیکٹرانک سسٹم میں خرابی پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں ان دنوں بادلوں کی گرج چمک، طوفان اور موسلادھار بارشوں کے باعث ایئر لائنز کو اپنی پروازوں کے مقررہ راستے وقتی طور پر تبدیل کرنا پڑ رہے ہیں۔
گزشتہ روز بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب اسلام آباد سے متحدہ عرب امارات جانے والی ایک غیرملکی ایئرلائن کی پرواز خراب موسم کے باعث اپنی مقررہ فضائی حدود سے ہٹ کر انڈیا کی حدود میں داخل ہو گئی۔
اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق امارات ایئرلائنز کی پرواز ای کے 715 صبح چار بجے اسلام آباد سے دبئی کے لیے روانہ ہوئی تو اس وقت شدید بارش اور آندھی و طوفان جاری تھا۔
خراب موسم کے باعث پرواز اپنے طے شدہ راستے سے ہٹ گئی اور نارووال کے قریب صبح 4 بج کر 25 منٹ پر انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہو گئی۔ پرواز انڈیا کے علاقے امرتسر کے قریب چکر کاٹ کر قصور کے قریب 4 بج کر 36 منٹ پر دوبارہ پاکستانی حدود میں داخل ہوئی اور بالآخر دبئی میں اپنی منزل پر پہنچ گئی۔
خراب موسم کے باعث کچھ دیگر ایئر لائنز کے طیاروں کو بھی دورانِ پرواز اپنے مقرر کردہ راستوں میں عارضی طور پر تبدیلی کرنا پڑی ہے۔
اُردو نیوز نے ایوی ایشن ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا خراب موسم اور بادلوں کی گرج چمک کے دوران واقعی طیاروں کو اس قدر خطرہ موجود رہتا ہے کہ وہ اپنے طے شدہ راستے سے ہٹ جائیں؟ اور ایسی صورتحال میں پائلٹس کو کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں؟
ایوی ایشن کے ماہرین کے مطابق دورانِ پرواز بعض اوقات پائلٹس کو خطرناک بادلوں، جنہیں سی بی کلاؤڈز کہا جاتا ہے، سے بچنے کے لیے اپنی سمت عارضی طور پر تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اگر طیارہ سی بی کلاؤڈز کے اندر سے گزر جائے تو ان بادلوں کے اثرات کی وجہ سے طیارے کا الیکٹرانک سسٹم عارضی طور پر متاثر یا خراب ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پائلٹ اپنی سمت پر مکمل کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں، اور پرواز طے شدہ راستے سے ہٹ سکتی ہے۔
پاکستان نیوی میں بطور پائلٹ خدمات انجام دینے کا تجربہ رکھنے والے ایوی ایشن ماہر شواز بلوچ کا کہنا ہے کہ خراب موسم اور خاص طور پر سی بی کلاؤڈز سے بچنے کے لیے پرواز کے دوران ڈائیورژن (یعنی متبادل راستہ اختیار کرنا) ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ عام طور پر موسم کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پائلٹس خود فیصلہ کرتے ہیں کہ ’ڈائیورژن‘ لینا چاہیے یا نہیں، کیونکہ راستہ تبدیل کر لینا کسی ممکنہ حادثے کا شکار ہونے سے کہیں بہتر ہے۔
شواز بلوچ کے مطابق بین الاقوامی ایوی ایشن قوانین کے تحت پائلٹس کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر دورانِ پرواز وہ دیکھیں کہ سامنے خطرناک بادل موجود ہیں، تو وہ فوری طور پر متبادل راستہ اختیار کر سکتے ہیں، جس کے لیے انہیں کسی اضافی منظوری کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
ایوی ایشن ماہرین کے مطابق راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ پائلٹ خود کرتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کسی بھی پرواز کا روٹ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور اس کے مطابق موسم کی پیشگی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ موسم کا تفصیلی تجزیہ کر کے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کہاں بادل ہیں، کہاں خطرہ زیادہ ہے اور کون سا راستہ محفوظ ہے، اسی حساب سے پرواز کو روانہ کیا جاتا ہے۔
شواز بلوچ کا کہنا تھا کہ بادلوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں، مگر کچھ مخصوص بادل، جیسے گہرے کالے بادل، جو حال ہی میں اسلام آباد میں بھی دیکھے گئے اور جن کے ساتھ شدید بارش اور تیز ہوائیں آئیں، وہ انتہائی خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ ان بادلوں میں کبھی بھی طیارے کو بغیر منصوبہ بندی یا احتیاط کے نہیں لے جایا جا سکتا، کیونکہ ان میں ہوا کا پیٹرن انتہائی غیر متوقع ہوتا ہے۔ ہوا اوپر نیچے تیزی سے حرکت کر رہی ہوتی ہے، کراس ونڈز آ رہی ہوتی ہیں، جو طیارے کی ایروناڈائنامک سٹیبلیٹی کو متاثر کرتی ہیں اور طیارہ توازن کھو سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر مسافروں نے خود بھی اس طرح کے موسم میں طیارے کو ہچکولے کھاتے یا غیرمتوازن انداز میں حرکت کرتے دیکھا ہوگا، جو خطرناک بادلوں اور ہوا کے غیریقینی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ایوی ایشن کے ماہر، پاکستان ایئر فورس میں خدمات دینے کا تجربہ رکھنے والے اور پی آئی اے کے سابق سربراہ محمد عرفان الٰہی نے خراب موسم کے باعث طیارے کے فضائی حدود سے بھٹک جانے کے معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ دورانِ پرواز پائلٹس زیادہ تر اپنے الیکٹرانک ایکوپمنٹ پر انحصار کرتے ہیں، اور جب تک یہ سسٹمز درست کام کر رہے ہوں، طیارے کے کسی دوسری فضائی حدود میں چلے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ طیارے عام طور پر بارش اور بادلوں کے درمیان پرواز کرتے رہتے ہیں، جو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ مخصوص بادل، جنہیں سی بی کلاؤڈز کہا جاتا ہے، ایسے ہوتے ہیں جو طیارے کو مقررہ راستے سے ہٹانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
عرفان الٰہی نے بتایا کہ سی بی کلاؤڈز میں عمودی ہوائیں (Vertical Currents) ہوتی ہیں، جو طیارے کے الیکٹرانک سسٹمز پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے پائلٹ کو عارضی طور پر اپنی سمت کا درست اندازہ نہیں رہتا اور طیارہ کچھ دیر کے لیے اپنی متعین کردہ فضائی حدود سے باہر نکل سکتا ہے۔
’تاہم جیسے ہی ان عمودی ہواؤں اور الیکٹرانک اثرات کا زور ختم ہوتا ہے، طیارہ دوبارہ اپنے راستے پر آجاتا ہے اور پائلٹ الیکٹرانک سسٹمز کی مدد سے درست سمت اختیار کر لیتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دورانِ پرواز پائلٹ مسلسل فلائٹ ریڈار اور ایئرپورٹ کنٹرول سے رابطے میں ہوتے ہیں، جو انہیں بتاتے رہتے ہیں کہ طیارہ اپنی حدود میں ہے یا نہیں۔ تاہم بعض اوقات ریڈار یا الیکٹرانک سسٹمز میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔