Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوستی

***جاوید اقبال***
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے ترقی پذیر ممالک کو مملکت کی طرف سے دیئے گئے 6ارب ڈالر کے قرضے معاف کردئیے۔8اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقوں کو تباہ کن زلزلے نے تاراج کر دیا تھا۔ گھروں کی چھتیں گریں اور اپنے نیچے ابنائے آدم کے بدن بے جان کرتی گئی تھیں۔ مدارس کے کمرے ننھے بچوں کے قبرستان بن گئے۔ ہر طرف موت کا بھیانک سکوت چھا گیا۔ تب کرہ ار ض کے رہائشیوں پر انکشاف ہوا کہ ہمالیہ کے جنوب میں زمین نے کروٹ بدلی اور ہزاروں لقمہ اجل ہو گئے تھے۔ دنیا کے کونے کونے سے مدد پہنچنے لگی لیکن سب سے زیادہ جسے ہمارے درد کا احساس ہوا سعودی عرب تھا۔ زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے سعودی شہریوںنے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔سابق فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز  نے عطیات جمع کرنے کیلئے سعودی ٹی وی پر ایک ٹیلی تھون کے انعقاد کا حکم دیا۔ چینل 2پر اس فرض کی ادائیگی میرے ذمہ لگائی گئی۔ ایک منظر میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ ٹی وی اسٹیشن کے برج کے سائے میں ہم لوگوں نے میزکرسیاں لگا رکھی تھیں اور صدر دروازے سے شہریوں کا ایک ہجوم صف لگائے ہاتھوں میں زلزلہ متاثرین کیلئے رقوم کے چیک اور دیگر اشیائے صرف اٹھائے آہستہ آہستہ اپنی باری پر ہمارے پاس آتا عطیات دیتا تھا۔
ناگاہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر سعودی پر پڑی جس نے 3،4سالہ ایک بچی اٹھا رکھی تھی۔ بچی کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی جو وہ بار بار ہماری طرف بڑھاتی تھی۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ آدمی گلوگیر آواز میں بولا "میری بچی سے یہ گڑیا لے لو۔ گزشتہ رات اس نے ٹی وی پر کشمیر میں آئے زلزلے کا ایک منظر دیکھا ۔ ایک چھوٹی بچی ملبے تلے مردہ دبی تھی۔ اس کا چہرہ گرد اور خون آلود تھا اور ایک شکستہ گڑیا اس کے بے جان ہاتھ میں تھی۔ منظر دیکھ کر میری بچی کو اس وقت سے چپ لگی ہے۔ اب اپنی گڑیا اٹھا لائی ہے۔ آپ کو دے رہی ہے تا کہ یہ کھلونا اسے بھجوا دیں۔ یہ فرستادہ تحفہ جب اسے ملے گا تو خوشی سے وہ اٹھ کھڑی ہو گی او رکھیلنا شروع کر دیگی۔ باپ نے بلکتے ہوئے ہم سے درخواست کی کہ گڑیا لے لیں۔ اس کی بچی کو قرار آجائیگا۔ کیا منظر تھا۔ ٹی وی اسٹیشن کے برج سے صدر دروازے تک اور پھر باہر جنگلے کے ساتھ ساتھ عطیات دینے والوں کا ہجوم تھا۔ خواتین اپنے زیور پوٹلیوں میں بھر لائی تھیں۔ ہمارے سامنے میز پر گٹھڑی کھول کر اسے الٹ دیتیں اور پھر اپنی کلائیوں سے چوڑیا ں او رکڑے بھی اتار کر ہمارے حوالے کرتیں۔ ہر لمحے میں احساس ہوتا تھا کہ مملکت نے اپنا چہرہ پاکستان کی طرف موڑ دیا اور اپنا دامن الٹاکر زلزلہ زدگان کی مدد کرسکیں۔ ٹیلی تھون کا  سلسلہ چلتا رہا اور بے شمارایسے واقعات آج بھی ذہن میں نقش ہیں جن سے اہل سعودی عرب کی اہلیان پاکستان کیلئے مثالی جذبہ اخوت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ 
     بالا کوٹ کے متاثرین کے لئے ابتدائی مرحلے میں 4ہزار عارضی مکان تعمیر کئے گئے جبکہ باغ میں ایک ہزار رہائش گاہیں بنا کر متاثرین کے حوالے کیں۔ موسم سرد ہوتا جا رہا تھا چنانچہ آفت زدگان میں ابتدائی مرحلے میں 2لاکھ کمبل اور 15ہزار رضائیاں تقسیم کی گئیں۔ 12ہزار 500موسم سرما کے لئے خیمے نصب کئے گئے۔اشیائے صرف اور خوردنی چیزوں کی بھی کوئی کمی نہ رکھی۔ چینی، دالیں ، گھی ، تیل ، چاول اور خوراک کے ایک لاکھ پیکٹ بھی بہم پہنچائے گئے۔ مقامی شفاخانوں کو 40لاکھ ریال کی ادویات مہیا کی گئیں۔ 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی حکومت نے زلزلے کی خبر نشر ہوتے ہی ایک فیلڈ اسپتال متاثرین کیلئے قائم کیا اور اس میں کام کرنے کیلئے سارا طبی عملہ مملکت سے بھیجا گیا۔ المیہ اتنا بڑا تھا کہ مسلسل عطیات پہنچانے کیلئے مملکت سے مسلسل سعودیہ کی پروازیں چلا کر"ہوائی پل"تعمیر کردیاگیا۔متاثرین لاکھوں میں تھے۔ انہیں ایک سعودی تنظیم بروقت امداد مہیا نہیں کرسکتی تھی چنانچہ مصروف کار دوسری خیراتی تنظیموں کے ذریعے بھی آفت زدگان تک ترسیل جاری رہی۔ انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن ،الخدمت فاؤنڈیشن، نیشنل والنٹیر موومنٹ ، ریڈ فاؤنڈیشن کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کو بھی کروڑوں ریال مالیت کی اشیاء مہیا کی گئیں تا کہ وہ متاثرین کو پہنچا سکیں۔ یونیسف اور ورلڈ فوڈ پروگرام ہر ایک کو 20لاکھ ڈالر دیئے گے جس سے تباہی سے دوچار ہونے والے علاقوں میں بچوں کے مدارس قائم کئے گئے او ران کیلئے خوراک کا انتظام کیا گیا۔ سعودی حکومت نے ایک او رمہربانی بھی کی۔ آزاد کشمیر میں ایک نئی یونیورسٹی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے نام پر قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
آج اس موقر ادارے میں تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔ 8اکتوبر 2018ء خاموشی سے گزر گیا۔ خال خال ہی اس واقعے کا ذکر ہوا۔ آج بھی آزاد کشمیر ، راولا کوٹ ، باغ او ربالاکوٹ میں کھڑے خوبصورت گھر اوردیدہ زیب مدارس ان پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی کی گواہی دیتے ہیںجو وقت کے ساتھ ساتھ عروج آشنا ہی ہوئے ہیں ۔ مملکت کی ہر شاہراہ ہر اینٹ اور ہر عمارت پر پاکستانی محنت کشوں کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ ہمارے ہموطنوں نے اتنے چاؤ ، اتنے پیار سے اپنے اس دوسرے وطن کی تعمیر کی ہے کہ یہاں کی فضائیں ہمیشہ ان کے پسینے کی مہک اٹھائے رہیں گی اور اب آخر میں مَیں ایک اور منظر بھی ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ 29مئی 1998ء کی صبح میں جامعہ میں اپنے دفتر گیا تو میرے سعودی ساتھی استاد نے نعرہ لگا کر اپنا بدن مجھ پر گرا دیا۔ میں پریشان ہو گیا ۔ ایک تنہائی پسند، کم گو شخص کو یہ اچانک کیا دورہ پڑ گیا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنی میز پر سے تھوری سی مٹھائی اٹھا کر میرے منہ میں ٹھونس دی او رپھر ایک اور نعرہ لگایا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا وہ چیخا "یا اخی!کل ہم نے ایٹمی دھماکہ کر دیا ہے۔ اب ہم ایک مضبوط او رمحفوظ ملک ہیں۔ مجھے مبارکباد دو اور ہاں میرے دشمنوں کو خبر کردو" اور پھر اس نے گانا اور ناچنا شروع کر دیا۔
 
 

شیئر: