روشن آرا
ہم یہاں ارباب اختیار کی توجہ اس غمگین مگر سنگین مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ پچھلے کئی ماہ و سال سے تواتر کے ساتھ عروس البلاد ، کراچی میں ٹارگٹ بلنگ کا سلسلہ جاری و ساری ہے اس خود ساختہ مسئلے کی جانب کچھ نگاہ التفات کی جائے کہ صارفین کے الیکٹرک اس گمبھیر صورتحال سے کافی نالاں ہیں ۔
اگرچہ مہنگائی کی لپیٹ میں پوری قوم پہلے ہی جگ ہنسائی کی شرمندگی سے دو چار ہے اور ماہانہ بجلی کا بل دیکھ کر عوام بلبلاجاتے ہیں ایک وقت تھا کہ پریشانی یا کسی بھی قسم کی افتاد کے وقت لوگ محاورتا ًبل میں منہ چھپالیا کرتے تھے پر اب یہ مفت کی سہولت بھی میسر نہیں کیونکہ بل بذات خود وبال جان بن کر رہ گئے ہیں اور یوں عوام اب بل میں منہ چھپانے کے بجائے بل سے منہ چھپاتے نظر آرہے ہیںگویا اب شیڈنگ کا لوڈ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اضافی بل کا بوجھ اٹھانا بھی عوام کی ذمہ داری ٹھہراکیونکہ دیگر اشیائے خورونوش کی مانند بجلی کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ وہ کبھی ہم سے ہم کلام ہوں تو سمجھائیں کہ زمین پر تشریف لے آئیں۔گویا بجلی کے نرخوں کی بڑھتی ہوئی شرح نے عوام پر بجلی ہی گرادی حالانکہ بجلی گرانے کے لئے بجلی کا ہونا بھی ضروری ہے اور بجلی ندارد۔
ان حالات میں قلیل آمدنی والے صارفین دہائیاں دے رہے ہیں کہ یہ ان کی ناتواں آمدنی پربارِ گراں ہے۔ ستم بالائے ستم اکثر لوگوں کے لئے بھاری بھرکم واجبات کی ادائیگی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے بس پھر کیا دل نے عقل کی پاسبانی سے چھٹکارا پاتے ہوئے چپکے سے کان میں سرگوشی کی کہ جس کی شرح بلند ہو وہ بل نہ کر قبول اور یوں پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ ابھی اس ناگہانی آفت سے صارفین نبرد آزماں ہی تھے کہ بل پر لگائے جانے والے اضافی ٹیکسوں نے تو رہی سہی کسر ہی پوری کردی ۔11000 کے بل پر7000 کے قریب ٹیکس عائد کئے جائیں تو بل18000 بن جاتا ہے۔ صارفین 7ہزارصرف ٹیکس کی مد میں ادا کرنے پر مجبور ہیں تو جناب معذرت کے ساتھ صارف کے ساتھ یہ بہت ناانصافی ہے ۔
اس دور پر فتن میں جب ہر چیز مہنگائی کی لپیٹ میں ہے تو دوسری جانب بغیر ریڈنگ بل بھیجنا کے الیکٹرک کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔میٹر ریڈر نے گھر گھر جاکر میٹر ریڈنگ لینے جیسی مشقت اٹھانے کی بجائے اک نیا طریقہ اپنالیا ہے کہ کسی کیفے میں بیٹھ کر چائے کے ساتھ گرماگرم سموسوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بل مرتب کرتے ہیں اور ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اکثر بل بلڈنگ میں موجود پورشن کے حساب سے بنائے جاتے ہیں۔بسا اوقات ریڈنگ میں نمبروں کی ترتیب تبدیل کرکے بھی بلوں کی مد میں زائد رقم بٹورنے کی مجرمانہ کوشش بھی کی جاتی ہے جو نااہلی اور بد عنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے جن گھرانوں میں دو وقت روٹی کا حصول دقت طلب امر ہے ،جن صارفین کی آمدنی15ہزارہو وہ 5سے 10ہزار کا بل کس طور ادا کرسکتے ہیں ،خاص طور پر وہ گھرانے جہاں اے سی،ائیر کولر،ریفریجریٹراور دیگر الیکٹرانکس کا گزر تک نہیں ہوا ان کے بل 4سے5000تک ہوجائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے ایک بیوہ عورت اپنا 10ہزارکا بل دکھاتے ہوئے سر پکڑ کر کہنے لگیں ”جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ۔“
ابھی اس ناگہانی آفت سے پوری طرح نجات نہیں ملی تھی کہ اب ایک نئی افتاد آن پڑی ہے۔ جی جناب نوے نکور میٹرز کی تنصیب ،نئے میٹرز کے نام پر برق رفتار میٹر نصب کئے جارہے ہیں جن کی رفتار دیکھ کر بارہا گمان ہوتا ہے جیسے جہاز کے میٹر نصب کردئیے گئے ہیں مگر حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام اپنی تمام تر ضروریات اور اخراجات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماہانہ بل پابندی سے ادا کرکے بھرپور انداز سے اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں بھلا کوئی بتلائے کہ ”مردہ بل کیا خاک دیا کرتے ہیں ؟“
بڑھتے ہوئے بجلی کے نرخوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار انسانی فطرت اور صارف کا قانونی حق ہے۔ یہی سبب ہے کہ بلوں کی ادائیگی کے بعد جس طرح فراخدلی سے کے الیکٹرک کے خلاف آزادی گفتار کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اسے ہم اخلاقیات اور اخباری پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ضبط تحریر میں لانے سے قاصر ہیں مگر محکمہ جاتی لاپروائی کے سبب کے الیکٹرک کے خلاف عوام میں جو لاوا پک رہا ہے یہ کسی بھی وقت آتش فشاں کی صورت اختیار کرسکتا ہے اور ارباب اختیار کے لئے اس کے آگے بندباندھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔جا بجا وطن عزیز کے طول و عرض میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہونے والے مظاہرے اس کا بین ثبوت رہے ہیں۔گو کہ خواتین بھی آستین چڑھاکر اس کے خلاف صف آرا ہوتیں مگر برا ہو اس سلیو لیس یعنی ”بے آستینی فیشن“ والی قمیصوں کا کہ اس قسم کی محاذ آرائی سے بے چاری محروم رہ گئیں ۔
صارفین کو موصول ہونے والے زائد بلوں پر جب لوگ درستگی بل کی غرض سے شکایتی مرکز جائیں تو یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے کہ آپ اس ماہ کا بل جمع کروادیں، جمع شدہ بل کی کاپی درخواست کے ساتھ لائیں، ہم متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو آپ کی شکایت فارورڈ کردیں گے اور پھر کیا صارفین ”نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے “ کی عملی تفسیر بنے ان دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے خود چکراکر رہ جاتے ہیں۔ بس اتنا ہی نہیں کے الیکٹرک سروس سینٹر ز کی جانب سے شکایت کنندہ (صارفین ) کے ساتھ انتہائی نارواسلوک روا رکھا جاتا ہے ۔بعض اوقات متعلقہ عملہ مک مکا کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کا مطالبہ بھی کرتا ہے اور اب تو صارفین کو ہراساں کرنے جیسی حرکات بھی زباں زد عام ہیں ۔
اکثر و بیشتر بلوں پر موڈ کے خانے میں AVG یا ASSD درج ہوتا ہے AVG کا مطلب بنا ریڈنگ یا ایوریج بل ہے اور ASSDکا مطلب بجلی چوری یا میٹر خرابی کا انکشاف ہے۔ہم مانتے ہیں کہ شہر کراچی میں بجلی چوری کا چلن عام ہے مگر ہر گھرانہ کنڈا سسٹم کے ساتھ منسلک نہیں۔ کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے،بالکل اسی طرح آنکھ بند کرکے بغیر ریڈنگ بل روانہ کرنے کی بجائے باقاعدہ طور پر میٹر ریڈنگ لی جائے ۔ اگر میٹر خرابی یا بجلی چوری کے الیکٹرک کے علم میں ہے تو بروقت صارف کو مطلع کیا جائے تاکہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی جاسکے۔ خیال رہے کہ وطن عزیز میں اکثریت ناخواندہ افراد کی ہے اور جن کا شمار خواندہ لوگوں میں ہوتا ہے وہ محض دستخط کرنا یا اخبار پڑھنا جانتے ہیں۔ یہ بے چارے کیا جانیں AVGیا ASSDکس چڑیا کا نا م ہے اب دیکھیں یہ ایوریج بل کا لامتناہی سلسلہ مزید کیاکیا گل کھلاتا ہے۔
ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ عظیم کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے خصوصی کمیٹی یا ٹیم تشکیل دی جائے جو اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کاارتکاب کرنے والوں کو پکڑ کران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرے اور کے الیکٹرک میں چھپی کالی بھیڑوں سے بجلی کمپنی کو نجات دلائے ۔اگر اس طرف فوری توجہ نہیں دی گئی تو یونہی:
بِلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
کارروائی ضروری ہے تاکہ محکمہ غریب عوام کو بے جا بلوںکے اجراءسے باز رہے ۔ تمام کے الیکٹرک سروس سینٹرز ایسے غلط بلوں کی تصحیح کے لئے موثر نظام رائج کرے۔نظام کی خرابی کے سبب لوگ اپنے غلط بلوں کی درستگی کے لئے مارے مارے پھررہے ہیں ۔اس مسئلہ کے حل کے لئے ایسا نظام رائج کیا جائے تاکہ درست بلوں کا اجراءیقینی بنایا جاسکے ۔ایسا نظام وضع کیا جائے کہ کسی بھی شکایت کو فوری حل کیا جاسکے کیونکہ محکمہ جاتی لاپروائیوں کے سبب کنڈا سسٹم اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے جو یقینا ملک و قوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہے۔برائے مہربانی درست بل بھیجیں،اپنے لئے، قوم کے لئے۔