Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران کے دورۂ چین کے مثبت اثرات

صلاح الدین حیدر
اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کرے لیکن اگر پوزیشن قومی معاملات پر بھی کفایت سے کام لے تو پھر اسے جلن اور حسد کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کوئی واحد ملک نہیں کہ یہاں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں، دنیا بھر میں لوگ اچھی بات میں بھی منفی زاویے تلاش کرتے ہیں اور سیاسی دشمنوں کو نیچا دکھانے میںبھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے۔
عمران وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اور دیگر معاملات کے علاوہ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔ یہی مقصد تھا جو انہیں سعودی عرب لے گیا اور پھر اس ہفتے یکم نومبر سے 5 نومبر تک چین کا دورہ کیا۔ اس سے پہلے چین سے اقتصادی راہداری منصوبے پر کچھ تبدیلیوں کی باتیںہوئی تھیں۔ چین نے عمران کا نکتہ نظریہ خوش دلی سے سمجھا اور اس میں وہی تبدیلیاں کیں جو پاکستان چاہتا تھا۔ 
ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران کے دورہ چین کو باریکی سے دیکھا جائے۔دورہ اس لیے اہم تھا کہ چین سے مالی امداد لینا تھی جسے چین نے بلا تردد تسلیم کر لیا۔ چین نے دنیا کے بہت سارے ممالک کو ان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بھی قرضے دیے ہیں۔ پاکستان سے اس کی دوستی دنیا کے لیے مثال ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ بات کھل کر بیان کی۔ چین نے سعودی عر ب کی طرز پر 6 ارب ڈالر پاکستان کو دیئے ہیں۔ اس طرح 12 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بحران اب ختم ہوگیا ہے ۔ پاکستان اب بھی آئی ایم ایف کے پاس جائے گا۔ فی الواقع کچھ کہنا نامناسب ہے لیکن اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو محتاجی تو نہیں لگتی، بحران ٹل چکا ہے لیکن اب بھی شہباز شریف جلن اور حسد کی آگ میں جلنے کی وجہ سے دوسرے کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ مریم اورنگزیب جن کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بات بدتمیزی کے زمرے میں آنے کی وجہ سے مناسب نہیں ہوگی۔ عمران نے شروع سے ہی زراعت پر توجہ دینے پر اصرار کیا تھا۔ کسی بھی ملک کو پانی، اور اچھی فصل کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن پاکستان ویسے بھی زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک کپاس، چاول، گند م اور دوسری اہم فصلوں پر ہی ہے تو اس پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ کوئی اور راستہ نہیں۔نواز شریف کے زمانے میں کسان پریشان تھا، اسے اس کی محنت کا پھل نہیں مل رہا تھا اس لیے برآمدات کو نقصان پہنچا۔ 25 بلین ڈالر سے گھٹ کر ہماری ایکسپورٹ 18 بلین ڈالر تک گر گئی۔ ظاہر ہے بجٹ بنانا مشکل ہوگیا۔ چین نے زراعت پر پاکستان کی بھرپور مدد کی، اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور دونوں ملکوں میں 15 معاہدے بھی ہوئے۔ جہاں زراعت کو جس حمایت کی ضرورت تھی وہ پوری ہوتی لگتی نہیں۔ سی پیک کا منصوبہ بہترین شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے خوشخبری سنا دی کہ سی پیک پر غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملا، پرانے معاہدے پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ امید ہے برآمدات دگنی ہوجائے گی۔ بیجنگ میں علیحدہ اور وفد کے ساتھ ملاقات میں عمران نے چینی صدر ،وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سے گفتگو کی۔ پاکستان کا نکتہ نظر ہر وقت سامنے رہا۔ پھر کس طرح لوگ کہتے ہیں کہ دورہ ناکام ہوگیا، شہباز اور مریم اورنگزیب کو کچھ کہنا فضول ہے، اس لیے کہ انہیں ابھی تک دکھ ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا، ان کی اپنی غلطیاں تھیں، عمران کا کرپشن کا نعرہ دنیا بھر میں مقبول ہوا، خود چین کی مثال ہی لے لیں۔ چین نے 3000 اپنے لوگوں کو کرپشن کی سزا دی۔ پھر وہ کیسے عمران کو خوش آمدید نہیں کہتا۔ عمران کا شاندار استقبال ہوا۔ شنگھائی میں انہوں نے بڑی بڑی چینی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ دیکھیں کتنی کمپنیاں دعوت قبول کرتی ہیں۔ ابھی نتیجہ کا پوری طرح تجزیہ کرنے میں وقت لے گا لیکن عمران جن مقاصد کو لے کر چین گئے تھے لگتا ہے بڑی حد تک ان میں انہیں کامیابی ہوئی۔
 

شیئر: