Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی ایرانی اوردیگر امور

رضوا ن السید۔ الشرق الاوسط
(آخری قسط)
    ایران کے عوامی گروہ اپنے یہاں تبدیلی کے حوالے سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ داخلی اصلاحات کیلئے وہ جو دباؤ ڈال رہے ہیں وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔2009ء کے تجربے سے انہیں یہی سبق ملا ہے۔ اگر اُس وقت کا دباؤ نتیجے کے حوالے سے مشکل تھا تو اِس وقت کی صورتحال اس سے زیادہ مشکل ہے۔ فی الوقت امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث ایران کے حکمراں براہ راست بحران سے دوچار ہیں۔ایران کے حکمراں جان بوجھ کر اس کا فائدہ اٹھائیں گے ۔ انہیں عوامی احتجاج اور عوامی مظاہرے کی کوئی پروانہیں ہوگی۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ عراق اور لبنان میں اپنا کنٹرول بڑھانے کیلئے مزید اقدامات بھی کرینگے ۔ اس سارے منظرنامے سے جو بات سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ عراق کا مالیاتی و اقتصادی استحکام اگر متاثر نہ ہوا تو لبنان ایرانی بحران سے ضرور متاثر ہوگا۔عراق میں داخلہ اور دفاع کے وزراء کی برطرفی اسی دباؤ کی شروعات ہے۔ حزب اللہ نے لبنان میں نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بحران برپا کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں حزب اللہ کے 2بڑے ہدف ہیں۔پہلا ہدف یہ ہے کہ وہ لبنانی صدر کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے تو انہیں اپنی یہ خوش فہمی دور کرلینی چاہئے۔ حزب اللہ کا دوسرا ہدف لبنانی وزیر اعظم کو مزید کمزور کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے حزب اللہ کے کسی حامی یا اس کی چاپلوسی کرنے والی کسی شخصیت کو نامزد کرنا بھی ہے۔ اس حوالے سے لبنان کا منظر نامہ یہ ہے کہ لبنان کے تمام نمایاں سنی رہنما سعد الحریری کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ حزب اللہ کی کوئی بھی پیشکش کسی بھی حالت میں قبول نہیں کرینگے۔ اس صورتحال کے پیش نظر وزارت کے قلمدان کیلئے ایسے لوگ ہی آگے آئیں گے جو یا تو سنی مسلمانوں کے حلقوںمیں کسی سیاسی حیثیت کے مالک نہیں ہونگے یا وہ کسی نہ کسی شکل میں نصر اللہ کے دم چھلے ہونگے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران سے حقیقتاً کیا چاہتے ہیں؟وہ صدارتی انتخابات میں یہودیوں کے ووٹوں پر نظررکھے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران حال و مستقبل میں کسی بھی طرح اسرائیل کیلئے خطرہ نہ بنے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ ساتویں عشرے سے امریکہ میں منجمد اثاثے ایران کو واپس نہیں کرنا چاہتے۔ یہ اثاثے اربوں ڈالر کے ہیں۔ اوبامہ کے اپنے عہد صدارت کے اختتام پر 2015ء میں پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد قسطوں میں یہ اثاثے ایران کو واپس کرنے شروع کردیئے تھے۔ امریکی صدر تیسری بات یہ چاہتے ہیں کہ ایران خطے میں امریکہ کے اتحادیوں ،آبنائے ہرمز ،بحر احمر اور بحرا لعرب کی سمندری راہداریوں کیلئے خطرہ نہ بنے۔
    توقعات کیا ہیں؟ کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ …بہت سارے لوگ امریکہ میں انتخابات کے نتائج کے منتظر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ری پبلکن ہار جاتے ہیں تو ایسی صورت میں بہت سارے امور بدلیں گے تاہم جن لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے وہ غلطی پر ہیں۔ ان کی یہ سوچ غلط ہے کہ ایران کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی کسی بھی حالت میں تبدیل ہوگی۔امریکی کانگریس ہمیشہ ایران کو سرخ آنکھ اور اسرائیل کو پیار سے دیکھتی رہی ہے۔
    کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایسے واقعات رونما ہونگے جو ایران کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کردینگے؟میرا خیال ہے کہ اگر صورتحال خراب بھی ہوتی ہے تو ایک خاص حد تک ہی ہوگی، اس سے زیادہ نہیں۔ فریقین کا مفاد اسی میں ہے کہ مذاکرات چند ماہ بعد شروع ہوں ۔ ایران اس دوران،عراق، لبنان، افغانستان ،یمن اور ممکن ہے غزہ تک اپنے ملیشیاؤں کے ذریعے دباؤ بڑھائے۔ بات چیت ہوگی توصیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ ایران کو فتح یابی کا عَلم بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے حکمراں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت بالآخر ان سے بات چیت پر مجبور ہوگئی۔ ایرانی حکمراں اس حوالے سے یہ تاثر غلط ہی دینگے کیونکہ ٹرمپ شروع ہی سے ایٹمی معاہدے پر نظر ثانی کیلئے گفت و شنید کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن ایرانی کامیاب ہوں یا ناکام ہر حال میں ’’میں نہ مانوں‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
 
مزید پڑھیں:- - - -شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے برطانوی وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی کی ملاقات

شیئر: