Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلیقہ ،اک مرض کی طرح اس کے وجود کا حصہ بن گیا

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
واہ طاہرہ آپا آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ اتنی سلیقہ مندی ، کیا بات ہے آپ کے سلیقے کی۔ واقعی جواب نہیں تمہارا ،اور طاہرہ ہنس ہنس کر مہمانوں کی آراءسن رہی تھیں اور دل ہی دل میں فخر سے جھوم رہی تھیں۔ ہم خوش نصیب ہیں جو ہمیں آپ جیسی بھابھی ملی۔ ہمارے بھائی تو اس موتی کو کافی تلاش کر کے لائے ہیں۔
طاہرہ جب اپنی نندوں کی زبانی اپنی تعریف سنتی تو پھولے نہ سماتی۔ یہ حقیقت بھی تھی کہ طاہرہ جیسی خاتون توواقعی چراغ لے کر ڈھونڈیں تو نہیںمل سکتی۔ انہوں نے اپنے پورے سلیقے اور ہنرمندی سے اپنے گھر کو اس طرح آراستہ کیا تھا کہ وہ واقعی ایک سجا سنورا محل معلوم ہوتا تھا ۔ انہوں نے اپنے حسنِ اخلاق سے سبھی کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ دراصل طاہرہ کو بچپن سے ہی خوبصورت چیزیں جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور پھر شادی کے بعد اس کے شوہربھی ایک کاروباری شخصیت تھے جن کا ہر مہینے بیرون ملک آنا جانا لگا رہتاتھا۔ طاہرہ نے پہلے پہل تو جوش اور جنون میں اتنا بڑا گھر لیا اورپھر اس کو سجا یاسنوار امگر اب روزانہ اس کی صفائی کا معیار برقرار رکھنے میں جو مشکلات درپیش آرہی تھیں، ان کی وجہ سے وہ خاصا بوکھلا سی گئی تھیں۔ ملازم بھی ان کی نفاست پسندی کے ہاتھوں بہت تنگ تھے۔ جس کسی ملازم کو گھر میں رکھا جاتا ، وہ زیادہ دن نہیں ٹکتا۔ ان کے شوہر او ربچے بھی اگرچہ اس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرتے لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہ ہوتیں۔ سارا سارا دن گھر کے ساتھ جان مار مار کر انہوں نے اپنی صحت سے بھی لاپروائی برتنی شروع کر دی جس کی وجہ سے اکثر طاہرہ کی طبیعت بھی ناساز رہے لگی تھی لیکن ا س کے باوجود طاہرہ کی طبیعت میں سلیقے کا مرض نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ یہ ان کے وجود کا حصہ بن گیا تھا۔کبھی وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہوتیں تو کبھی اپنے لان میں پودوں کے ساتھ مارا ماری میں مگن رہتیں، یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔
ذرا دیر کوبھی طاہرہ نہ تو خود چین سے بیٹھتیں اور نہ ہی دوسروں کو آرام کرنے دیتیں۔ ان کی اس عادت سے لوگ بڑے تنگ تھے۔ اکثر۔طاہرہ کو اپنے اوپر بڑا ناز تھا کہ مجھ جیسا سلیقہ مند اور میرے بچوں جیسے ہوشیار اور ذہین بھلا کسی او رکے کس طرح ہو سکتے ہیں۔ وہ کسی کے گھر بھی جاتیں تو اس کے گھر کی سجاوٹ انہیں پسند نہ آتی جس پر اکثر ان کے شوہر ان کو ٹوکا کرتے تھے کہ ہر کوئی آپ کی طرح نہیں ہوتا۔ وہ جس کے گھر بھی جاتیں ،گھر آ کر اپنے شوہر سے اس گھر کے متعلق بتاتیں کہ فلاں ہیں تو بڑے پیسے والے مگر ان کے گھر میں سجاوٹ اور سلیقہ مندی نام کو نہیں۔ ان کے شوہر کا ہی جواب ہوتا کہ بھئی اب ہرکسی کو تو آپ جیسا جنون نہیں ہو سکتا ناں ۔ ہر کسی کوسجاوٹ بناوٹ کا خبط نہیں ۔ لوگوں کو دنیا میں اور بھی کام کاج ہیں۔
دن اسی طرح گزرتے رہے طاہرہ نے گھر کے ہر کونے کو سجانے اور سنوارنے کے کام کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ آس پڑوس کے سب گھر وں میں آنا جانا ہوا اور سب ہی طاہرہ کے سلیقے کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ اب یہ ہونے لگا کہ جس گھر میں کسی نے کوئی نئی چیز خریدنی ہوتی یا کوئی شادی بیاہ یا کوئی اور تقریب وغیرہ کسی کے گھر میں منعقد ہوتی، وہ طاہر ہ سے بطور خاص مشورہ لینے کے لئے آتا او را ن کی رائے کے مطابق ہی سارے کام انجام پاتے۔ طاہرہ ایسے موقعوں پر دل ہی دل میں پھولے نہ سماتیں اور پھر اس بات کا ذکراپنے شوہر سے کر کے اپنے سلیقے کی مزید داد پانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔ 
ایک شام طاہرہ گھر کے کاموں میں مشغول تھیں کہ ملازم نے آکر انہیں ہمسائی کے آنے کی اطلاع دی۔ جلدی جلدی طاہرہ لا¶نج میں آئیں تو پڑوس سے آنے والی خاتون مسز زاہد نے کہا کہ بس میں بیٹھوں گی نہیں ،ذرا جلدی میں ہوں اور بھی جگہ مجھے دعوت نامہ دینا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانے آئی ہوں کہ میری بڑی بیٹی کا دراصل رشتہ طے ہو گیا ہے ۔ یہ لیں مٹھائی او رآپ نے شادی میں ضرور آنا ہے۔ اگلے ہفتے اس کی شادی ہے۔
ارے واقعی! ہم لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں چل سکا۔ طاہرہ نے بڑی حیرت سے کہا، بس بہن دعا کریں کہ اللہ کریم اس نیک کام کو خیر سے انجام تک پہنچادے۔ طاہرہ پڑوسن کے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک یہی سوچتی رہی کہ اتنی بڑی تقریب ہے اور انہیں پتہ ہی نہیں چل سکا ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محلے میں کسی کے گھر میں اتنی بڑی تقریب ہو اور انہیں پتہ نہ ہو مگر جب ایک ہفتے کے بعد شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ تقریب کیا تھی۔ وہ توبس ایک فرض کی ادائیگی ہی تھی ۔ نہ اندر سے باہر تک کوئی روشنی جل رہی تھی او رنہ ہی زرق برق لباس میں جوڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ بس ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ مسز زاہد اپنے سرکا بوجھ اتار رہی ہیں ورنہ اتنی سادگی، حیرت ہے ۔
کہنے کو تو زاہد صاحب کسی اعلیٰ عہدے پر ہیں مگر ایسا بھی کیا۔ جب تقریب میں سارے پڑوسی جمع ہوئے تو سب ہی کو بڑی حیرت ہوئی جن میں سے ایک پڑوسن نے کہا کہ ہائے ! یہ لوگ بے چارے تو بڑے ہی سادہ ہیں ۔ارے سادہ کیا یہ تو جاہلیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ شادی بیاہ ہو اور دھوم دھڑکا نہ ہو، یہ کیسی بات ہے ؟ بڑے تاسف سے دائیں جانب والی ہمسائی نے کہا کہاتنے امیر لوگوں کے درمیان مکان تو تعمیر کروا لیا مگر جینے کا ڈھنگ نہ آیا۔ اس پر دو سری ہمسائی نے جواب دیاکہ بھئی دیکھ لو ہم لوگوں کے یہاں تو مرگ پر بھی اس سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس پر طاہرہ نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ سنا ہے کہ بیٹی کے والد کوئی بڑے سرکاری افسر ہیںلیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب شادی میں کوئی انتظامات نہیں کیاکئے تو بیٹی کوبھلا جہیز کیا دیا ہو گا۔ اتنے میں بیگم طارق جو ان خواتین کی گفتگو بڑے غور سے سن رہی تھیں، قریب کھسک آئیں او رکہنے لگیں میں نے بھی ان لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ یہ چھوٹے شہر سے آئے ہیں۔ یہ سن کر بیگم فرحت بولیں کہ جب ہی تو ا یسا ہے ۔وہاں موجودبیگمات نے نہایت ہی اشتیاق سے کہا کہ ہاں دیکھا ناں۔ بھئی بالآخر ٹھہرے ناں چھوٹے شہر کے لوگ۔ وہ بھلا کیا جانیں بڑے شہروں کے اطوار۔ بڑے شہر میں آکر مقیم ہو جانے سے بڑے شہر کے آداب نہیں آجاتے۔ سنا ہے سرکاری افسر ہیں اور وہ بھی کوئی بڑے عہدے پر ہیں پھر بھی دیکھیں۔
سب کے چہروںپر مسکراہٹ پھیل گئی اور ساتھ ہی اطمینان کی لہر بھی دوڑ گئی ۔وہاں پر موجود خواتین اپنے آپ پر ناز کر رہی تھیں کہ ہمیں اتنا تو شعور ہے کہ ہم اپنے کپڑوں اور زیورات کو موقع ومحل کی مناسبت سے استعمال کرسکتے ہیں۔ 
 
 

شیئر: